غزل
ہم کو مٹاکے کیا بھلا پایا ہے آپ نے
گذرے گی ہم پہ کیا کبھی سوچا ہے آپ نے
پتے حنا کے کہنے لگے روکے ایک دن
ہم کو ہماری شاخ سے نوچا ہے آپ نے
نازک ہمارے جسم کو پھر پتھروں کے بیچ
مسلا ہے اور کچلا ہے ،پیسا ہے آپ نے
یوں ظلم وجبر کر کے بہر طور بے رحم
ہاتھوں کا اپنے روپ سنوارا ہے آپ نے
بے شک ہمارے خون کے قطرے ہی جانئے
جن سے ہتھیلیوں کو رچایا ہے آپ نے
اک ایک قطرہ خوں کا ہمارے نچوڑ کر
ہاتھوں کے ساتھ دل سے اتارا ہے آپ نے
جب اے سراجؔ جاتے رہے رنگ وبو تمام
پھر بے دلی سے گھر سے نکالا ہے آپ نے
سراجؔ دہلوی
***********************