احسان
ثریا پروین
غموں کے ہم پہ یہ احسان بہت ہیں
دل میں اٹھتے سوالوں کے طوفان بہت ہیں
ہم نے احمدآباد کو دیکھا تو یہی جانا ہے
کہ انسان کے روپ میں شیطان بہت ہے
الفت کے منظر بھی کیا خوب ہے دوستو!
سب کچھ ہے مگر پھر بھی تنہائی بہت ہے
دیکھا نہیں جن اپنوں نے پلٹ کر کبھی ہمیں
ان اپنوں پہ نہ جانے کیوں ہم قربان ہوتے ہیں
زخم ملا جو زندگی میں ہمیں
یہ انکے ہی دئے ہوئے احسان بہت ہے
ان سے کبھی مل نہیں سکتی
دل میں ملنے کے ارمان بہت ہے
********************