برق نے جب بھی آنکھ کھولی ہے
آشیانوں نے خاک ر و لی ہے
یاد کا کیا ہے آگئی پھر سے
آنکھ کا کیا ہے پھر سے رولی ہے
تم بچھا لو مصلی ء چاہت
میں نے دہلیز دل کی دھولی ہے
دل کی باتوں کو دل سمجھتا ہے
دل کی بولی عجیب بولی ہے
پردہ اٹھتے ہی میری نظروں سے
کائناتِ یقین ڈولی ہے
مسکرائے نہ چاند کیوں مفتی
آئی جو چاندنی کی ڈولی ہے
*******************