سید اقبال رضوی شارب
مت خدا ڈھونڈ سوالات کے آئینے میں
اسکو پہچان عنایات کے آئینے میں
مائل_ حق بھی ہے عاصی بھی انا والا بھی
وہ جو رہتا ہے میری ذات کے آئینے میں
کچھ رقم ہے مری قسمت بھی ترے ہاتھوں میں
سب نہیں ملتا مرے ہات کے آئینے میں
جنگ جاری ہے میری نفس_ اما رہ سے ہنوز
جب سے دیکھا تجھے برسات کے آئینے میں
قلب جب تک نہ منوّر ہو یقین_ کُل سے
وسوسے پالے ہے شبہات کے آئینے میں
رشتے بے لوث فضا میں جو جنم لیتے ہیں
وہ نہیں ٹوٹتے حالات کے آئینے میں
قرب_ شبّیر ہے کیا رے کی حکومت کیا ہے
حر نے سب دیکھ لیا رات کے آئینے میں
غیر بھی سونگھ لیا کرتے ہیں اکثر شارب
اک محبت تیری ہر بات کے آئینے میں
****