سلام
کٹا کے سر جو جلاۓ تھے زندگی کے چراغ
اسی حسین سے باقی ہیں بندگی کے چراغ
رسول پاک کا محسن رہا علی کا پدر
خدا کے دیں کو بچایا کئے علی کے چراغ
غم حسین میں رونا خوشی میں خوش ہونا
یونہی جلاتے ہیں ہم لوگ زندگی کے چراغ
بھٹکتا رہتا میں در در ،کہیں نہ ملتا خدا
کہ پنجتن سے ملے مجھکو آگہی کے چراغ
قرآن کرتا ہے واجب محبتیں ان سے
بجھا دو آل محمّد سے دشمنی کے چراغ
یہ فیض بھی ہے زبانوں کو انکی مدحت سے
کہ گام گام جلے ہیں سخنوری کے چراغ
علی کی ڈیوڑھی سے اتنا تو فیض لے شارب
بجھا دے تجھ میں جو روشن ہیں خود سری کے چراغ
سید اقبال رضوی شارب
|