سلام
سید اقبال رضوی شارب
دنیا نے پھر نہ دیکھا وہ منظر لہو لہو
ہاتھوں پہ شہ کے ننھا سا اصغر لہو لہو
کیا جانئے فلک نے بھی دیکھا تھا کس طرح
سوکھے گلے پہ کند سا خنجر لہو لہو
ایسی جفائیں ایسا ستم ایسی سختیاں
آنکھوں سے اشک ٹپکے ہے ہو کر لہو لہو
برچھی کا وار سینہً اکبر پہ تھا کہ پھر
کرنا تھا ان کو جسمِ پیمبر لہو لہو
یعقوب صبر کر کے بھی آنسو نہ پی سکے
زینب نہ روئیں پیش گلِ تر لہو لہو
یہ غم وہ غم ہے جسکا مکمّل نہ ہو بیان
تا عمر لکھیں سارے سخنور لہو لہو
کربو بلا ہے فتح صداقت کی داستان
کفرو نفاق تڑپے ہیں ہو کر لہو لہو
شارب یہ واقعہ ہے کہ ذکرِ حسین پر
مومن کا دل تڑپتا ہے ہو کر لہو لہو
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸