غزل
بے جا سی حسرتوں نے تماشہ کیا مجھے
سب نے حقیر جان کے رسوا کیا مجھے
جب دسترس میں تھا تو نہ کی لطف کی نگاہ
پھر ساری عمر لوگوں سے پوچھا کیا مجھے
اس دور میں دروغ نے پایا ہے کیا عروج
گو حق پہ میں تھا جھوٹوں نے جھوٹا کیا مجھے
اکثر جو حکمراں ہیں وہ موذی سرشت ہیں
مالک یہ کیسے دور میں پیدا کیا مجھے
حالات نے وجود مرا مسخ کر دیا
وہ میرے ساتھ ہو کے بھی ڈھونڈا کیا مجھے
اب کچھ بھی میری ذات میں ذاتی نہیں رہا
سائبر کے اس جہاں نے برہنہ کیا مجھے
شارب عجب سکون ہے جب سے سنا ہے یہ
ٹھڈّی پہ دھر کے ہاتھ وہ سوچا کیا مجھے
ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸