donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
afsane
Share on Facebook
 
Mahmood Aziz
  Nawab Taban
نواب تاباں  
Share to Aalmi Urdu Ghar
Page No. :- 1 / 1
نواب تاباں
 
محمود عزیز
 
نواب تاباں نواب سائل کے بڑے بھائی تھے۔ بالکل انھیں کی طرح میدہ وشباب رنگ، ویسا ہی ڈیل ڈول ، ناک نقشہ اور لباس مگر دونوں بھائیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی سے نہ جانے کیا کد تھی کہ ہمیشہ برا بھلا ہی کہتے رہتے تھے۔ بلکہ گالیاں دینے سے نہ چوکتے تھے اور گالی بھی ایک سے ایک نئی تراشتے تھے۔ سائل بے چارے سرجھکاکر کہتے ’’بھائی جان آدھی مجھ پر پڑ رہی ہیں اور آدھی آپ پر‘‘ اس پر وہ اور بگڑتے اور ایسی سناتے جو دھری جائیں نہ اُٹھائی جائیں۔نواب تاباں کے مزاج کی کیفیت بیان کرکے شاہد صاحب مولانا شبلی نعمانی سے اُن کے ٹاکرا کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ نواب تاباں بھی شاعر تھے۔ اردو میں بھی شعرکہتے تھے اور فارسی میں بھی۔ ایک دفعہ شبلی نعمانی دلّی آئے تو حکیم اجمل خان کے ہاں مہمان ہوئے۔نواب تاباں کی تعریف غائبانہ سن چکے تھے۔ ان سے ملنے کے خواہش مند ہوئے۔ حکیم صاحب نے ایک صاحب کے ساتھ شبلی کو ان کے گھر بھیج دیا۔ نواب صاحب نے بڑے تپاک سے ان کا خیرمقدم کیا۔ عزت سے بٹھایا۔
 
خاطر تواضع کی۔ شبلی کی فرمائش پر اپنی غزل سنانی شروع کی۔ شبلی بھی ذرا مُدَمّعِْ آدمی تھے، خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ تاباں نے دیکھا مولانا ہوں ہاں بھی نہیں کرتے تو چمک کر بولے ’’ہاں صاحب، یہ شعر غورطلب ہے اور غزل کا اگلا شعر سنایا۔ مولانا نے فرمایا سبحان اﷲ خوب شعر کہا ہے آپ نے۔‘‘بس پھر تاباں آئیں تو جائیں کہاں؟ بگڑ کر بولے ’’ابے لنگڑے، میں نے تو یہ شعر۳  دن میں کہا اور تونے اسے ایک منٹ میں سمجھ لیا، بیٹا یہ شعر العجم نباشد۔اس کے بعد ان کی گالیوں کا پٹارہ کھل گیا اور مولانا شبلی کو اپنا پنڈ چھڑانا مشکل ہوگیا تاہم شاہد صاحب ان کی یہ خوبی بیان کرنا نہیں بھولتے کہ:
 
ویسے اپنی روزمرہ کی زندگی میں نواب تاباں بڑے زندہ دل اوردوستوں کو کھلا پلا کر خوش ہونے والے آدمی تھے۔ کھلانے پلانے کا ذکر آیا ہے توکھانے والوں کا ذکر بھی ہوجائے۔ اس سلسلے میں شاہدصاحب جوش صاحب کے کھانے پینے اور ان کی خوش خوراکی کے ضمن میں رقم طراز ہیں کہ یادش بخیر حضرت جوش ملیح آبادی کھانے پینے کے بڑے رسیا ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف پینے کے، جی نہیں، کھانے کے بھی مجھے چند بار انھیں کھاتے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔
 
اس معاملے میں وہ قطعی غیرشاعر ہیں۔ جوش صاحب بڑی بے دردی سے کھانے پینے پرپلتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ادھر سورج غروب ہوا اور ادھر وہ ساغربکف طلوع ہوئے۔ ۲ گھنٹے تک ان کا یہ شغل جاری رہتا ہے۔ مفت خورے تو ساتھ لگے ہی رہتے ہیں مگر یہ اتنے تنگ ظرف ہوتے ہیں کہ ایک ایک دو گلاس ہی میں چھلک جاتے ہیں۔ جوش بلانوش ہیں۔ ۲ گھنٹے میں ۴، ۶ جتنے بھی گلاس ہوجاتے ہیں سب چڑھا جاتے ہیں اور ذرا نہیں بہکتے۔
 
بلکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ان کی گل افشانی گفتار دیکھنے کے لائق ہوتی ہے۔ ۲  گھنٹے کے اس ریاض کے بعد کھانا طلب کیا جاتا ہے۔ اب آپ ان کے تناول طعام کی رفتار دیکھیے۔ بریانی کی چوٹی دار قابیں آتی رہیں گی اور غائب ہوتی رہیں گی۔ قورمہ اور شیرمالیں پناہ مانگ جائیں گی۔ آم کی گٹھلیوں کا ڈھیر سامنے لگ جائے گا اور ہلاکو کی کھوپڑیوںکے مینار کی یاد تازہ کرجائے گا۔ جوش صاحب کی اس خوش خوری کو دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے کم ازکم ایک شخص تو ہماری برادری میں ایسا ہے جو کھانے کے ساتھ پورا پورا انصاف کرسکتا ہے۔ 
 ++++
 
Page Number :

Comments


Login

You are Visitor Number : 614