donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
afsane
Share on Facebook
 
Ibn Kanwal
  Naya Darinda
نیا درندہ  
Share to Aalmi Urdu Ghar
Page No. :- 1 / 1
نیا درندہ
 
 ابن کنول
شعبہء اردو،دہلی یونیورسٹی،دہلی
 
 
اپنے ساتھی بچوں کو ڈراتے ڈراتے اس کی عادت سی بن گئی تھی، وہ ہر روز جنگل سے گاؤں کی طرف یہ کہتا ہوا دوڑا چلا آتا تھا :
"شیر آیا ..... شیرآیا"۔
وہ گڈریے کا لڑکا تھا اور اس نے گڈریے کے لڑکے کی کہانی سن رکھی تھی جو برسوں سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی تھی۔ وہ اپنی بکریوں کے ساتھ دن بھر جنگل میں رہتا تھا، جنگلی جانوروں کاخوف اس کے دل سے محوہوچکا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اب شیر کبھی نہیں آئے گا، سارے شیر بوڑھے ہوچکے ہیں یا چڑیا گھروں میں قید ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ سب کو ڈرانا چاہتا تھا۔ اس کی آواز سن کر اکثر لوگ اس کا مذاق بناتے تھے ، وہ پھر بھی پرامید تھا کہ ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہوگا۔ ایک مرتبہ اس کی آواز سن کر احمد حسین نے اپنے بچوں سے کہا:
 
’’یہ لونڈا بھی پاگل ہوگیا۔ ایسے چلاتا ہے جیسے شیر اس کے پیچھے چلا آرہا ہے۔ اب کہاں شیر؟ اب تو شیر کا بچہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ شیر تو انگریز بہادر کے زمانے میں تھے۔‘‘
 
’’کیسے ہوتے تھے شیر؟ احمد حسین کا لڑکا پوچھتا ۔
 
’’ہوتے کیسے؟ جیسے ہوتے ہیں۔ ایک بار خبر ملی کہ پاس کے جنگل میں شیر آگیا ہے، انگریز بہادر نے ہمارے دادا کو بلایا۔ ہمارے دادا کو شکار کا بڑا شوق تھا۔ اپنی تلوارلے کر پہنچ گئے۔تلاور سے مارتے تھے شیرکو؟‘‘
’’ آپ کے دادا کیا شیر شاہ سوری تھے؟‘‘ دوسرا لڑکا سوال کرتا۔
 
’’ہاں ہمارے دادا تلوار ہی سے شیر کا شکار کرتے تھے۔ انگریز بہادر کے پاس بندوق بھی تھی۔ آٹھ دس آدمی گئے شیر کو مار لائے پھر اس کے پاس کھڑے ہوکر تصویر کھینچوائی۔‘‘
 
’’مردہ شیر کے ساتھ کیا تصویر کھنچوانا، زندہ کے ساتھ کھنچواتے تو بات تھی۔‘‘ لڑکا طنز کرتا۔
’’اے زندہ ہوتا تو کھانہیں جاتا۔ آج کل کے شیروں کی طرح تھوڑے ہی تھے وہ شیر، جو آدمی سے ڈرتے ہیں۔‘‘
 
’’آدمی سے تو سبھی جانور ڈرتے ہیں.... سرکس میں دیکھا نہیں، کس طرح شیر، چیتے ، بھالو، ہاتھی آدمی کے سامنے گھگھیاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘‘ لڑکاباپ کی بات کو آگے بڑھاتا ہے۔
 
باپ اس کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’ ہاں ! یہ بات تو ہے، پہلے لوگ جنگل میں جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ آج کل شہر میں جاتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں۔‘‘
 
گڈریے کا لڑکا کبھی کسی پہاڑی پر چڑھ کر چلاتا اور کبھی کسی پیڑ پر بیٹھ کر چیختا:
 
’’بھیڑیا آگیا..... بھیڑیا آگیا.... بچاؤ..... بچاؤ.....‘‘
 
گڈریے کے لڑکے کی آواز سن کر کوئی گھر کے اندر نہیں بھاگتا، دروازے کھلے رہتے ، کھڑکیاں بند نہیں ہوتیں، دوکانیں کھلی رہتیں، لوگ معمول کے مطابق سڑکوں پر گھومتے رہتے۔ 
 
عبداللہ کی دادی کہتی:
’’یہ لڑکا بھی پگلا گیا ہے۔ اگر کسی دن سچ مچ شیر یا بھیڑیا آگیا تو چلانا بھول جائے گا۔ کہانی والا حال ہوگا۔‘‘
 
’’دادی ماں آپ نے کبھی بھیڑیا دیکھا ہے؟ ‘‘ عبداللہ پوچھتا۔
’’ہاں کئی بار.... لیکن بچپن میں.... جب ہم چھوٹے تھے، تمہاری طرح.... گاؤں میں اکثر بھیڑیا آجایا کرتا تھا۔ کبھی کبھی بچوں کو اٹھا کر لے جایا کرتا تھا۔‘‘
’’ لوگ اسے مارتے نہیں تھے؟‘‘ عبداللہ دریافت کرتا۔
 
’’ہاں مارتے کیوں نہیں تھے۔ ہمارے گاؤں میں اس وقت کسی کے پاس بندوق نہیں تھی۔... لاٹھی اور بلم ہی سے مارتے تھے۔‘‘
’’لوگوں کو ڈر نہیں لگتا تھا؟‘‘ عبداللہ پھر کہتا۔
’’ڈر بھی لگتا تھا لیکن اپنی حفاظت بھی تو ضروری تھی۔‘‘
’’دادی ماں اب بھیڑیا کیوں نہیں آتا؟‘‘
دادی ماں ہنس کر کہتیں:
’’اب تم سے ڈرتا ہے... اور اب تو ہر طرف بھیڑیے موجود ہیں۔ اس لیے اب اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔‘‘
’’ کیا مطلب؟‘‘ عبداللہ حیرانی ظاہر کرتا ۔
 
’’آہستہ آہستہ تم سب سمجھ جاؤ گے۔ خدا تمہیں ان بھیڑیوں سے سلامت رکھے۔‘‘ وادی بڑی پردرد آواز میں کہتیں،عبداللہدادی کی بات سمجھنے کی کوشش کرتے کرتے سو جاتا ۔
 
’’گڈریے کا لڑکا گھاس کے میدان میں بکریوں کو چھوڑ کر کھیت کی منڈ یر پر چلاتاہوا دوڑ رہا تھا۔
’’بھاگو... بھاگو... لکڑبگھاآگیا.. بھاگو۔‘‘
اس نے سوچا شاید لکڑبگھے کا نام سن کر لوگ بھاگیں گے لیکن کوئی نہیں بھاگا۔ سب یونہی کام کرتے رہے۔ لکڑ بگھے کا خوف دل سے دور ہوچکا تھا۔ سب جانتے تھے کہ لکڑبگھا آدم خور خطرناک جانور ہے لیکن اب ڈرتا کوئی نہیں تھا۔ لوگ اس کتے نما جانور کو محض کتا سمجھنے لگے تھے۔ عمر نے اپنی ماں سے کہا:
 
’’ماں لکڑ بگھے کے تو بہت سے قصے مشہور ہیں۔‘‘
’’ہاں یہ جانور بڑی خاموشی سے حملہ کرتاہے۔ آدمی کے پیچھے پیچھے آہستہ آہستہ چلتا رہتا ہے لیکن آدمی سے بھلا کون جیت پایا ہے۔ کچھ دن پہلے ایک لکڑ بگھا غلطی سے گاؤں میں آگیا تھا۔ یہاں آکر اپنی سب حیوانیت بھول گیا اور اپنی دم دبا کر بھاگ لیا۔‘‘
 
گڈریے کا لڑکا چلاتے چلاتے اکثر سوچتا تھا کہ کیا بات ہے جوشیر، بھیڑیے اور لکڑ بگھے کے نام سے بھی لوگ خوفزدہ نہیں ہوتے۔ کہانیوں میں تو بتایا جاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ یہ جانور بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ لوگوں کے دلوں سے ان کا ڈرنکل گیا ہے۔ وہ روزانہ گاؤں والوں کو ڈرانے کی کوشش کرتا تھا لیکن لوگ اس کے چیخنے کو اس کا پاگل پن سمجھتے تھے.... پھر ایک دن یوں ہوا کہ بکریاں چراتے چراتے وہ بہت تیزی سے چلاتا ہوا گاؤں کی طرف بھاگا:
 
’’بھاگو... بھاگو.... بلوائی آگئے... دنگائی آگئے.... بھاگو‘‘
اس کی یہ آواز جیسے ہی لوگوں کے کانوں سے ٹکرائی پورے گاؤں میں ہلچل مچ گئی۔ لوگ بے تحاشہ اپنے گھروں کی طرف بھاگنے لگے۔ پلک جھپکتے ہی گھروں کیکھڑکیاں اور دروازے بند ہوگئے۔ لوگ اپنی بہو، بیٹیوں اور بچوں کومحفوظ جگہوں پر چھپانے لگے۔ بازار بند ہوگئے۔ ذرا سی دیر میں چاروں طرف سناٹا ہوگیا۔ دہشت اور وحشت سڑکوں پر منڈلانے لگی۔ گڈریے کا لڑکا ایک گوشے میں خاموش کھڑا مسکرا رہا تھا۔ 
 
*************************
 
 
Page Number :

Comments


Login

  • lilian123
    29-08-2016 22:24:16
    Greetings,
    How are you today?
    I will love us to be good friends/partner.
    The very best of the you.
    I wait to read your mail.
    Regards. lilian

    lilianMulbah44@yahoo.com
You are Visitor Number : 724