donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
afsane
Share on Facebook
 
Nasim Anjum
  Taziyat Ka Jorha
تعزیت کا جوڑا  
Share to Aalmi Urdu Ghar
Page No. :- 1 / 1
تعزیت کا جوڑا
 
نسیم انجم
 
ہماری بیگم ایک نہیں‘ بے شمار خوبیوں کی مالک ہیں۔ سلیقہ شعار‘ ہنرمند اور دُوراندیش۔ ہر کام کرنے سے پہلے منصوبہ بندی ضرور کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کامیابی کے امکانات سو فیصد ہوتے ہیں۔ اگر ناکامی ہو تو اسے خاطر میں نہیں لاتیں۔ برجستہ فرماتی ہیں: انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا۔ اتنا کہنے کے بعد مجال ہے جو وہ شرمندگی کا اظہار کریں۔ ہر معاملے میں ان کا اعتماد دیدنی ہوتا ہے۔
 
بیگم صاحبہ اکثر میری جمع شدہ رقم پر اس انداز اور ترکیب سے شب خون مارتی ہیں کہ نہ ڈکیتی کا رنگ غالب آتا ہے اور نہ ہی چوری چکاری کا واقعہ جنم لیتا ہے۔ میرے صبر کرنے پر ہی معاملہ رفع دفع ہوجاتا ہے‘ اور صبر سے اچھا کوئی ہتھیار بھی نہیں۔ بیگم صاحبہ کا ہر کام دانش مندی اور حکمت عملی کا جیتا جاگتا نمونہ نظر آتا ہے۔ کئی دنوں سے وہ مجھ سے فرمارہی ہیں کہ مجھے شاپنگ کرنی ہے‘ آپ کسی دن یا تو چھٹی کرلیں‘ یا ذرا جلدی گھر واپس آجائیں۔ ان کے چہرے کی بُردباری اور سنجیدگی کو دیکھ کر میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ایک دن وقت نکال کر انہیں شاپنگ کرادوں گا‘ چونکہ ان کے تیور مجھے کچھ اچھے نظر نہیں آرہے ہیں۔ میں اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانا ہی چاہتا تھا کہ ان کا دفتر میں فون آگیا۔ بولیں: ’’وہ مسز انیس ہیں نا‘ وہ آگئی ہیں۔ اب آپ کو چھٹی کرنے ضرورت نہیں ہے‘ میں ان ہی کے ساتھ بازار جارہی ہوں۔ آپ دل لگاکر کام کیجیے۔‘‘ میں ان کے اس جملے کا مطلب اچھی طرح سمجھتا تھا اور سالہا سال سے میں اس پر عمل پیرا بھی ہوں‘ یعنی خوب دل لگاکر کام کررہا ہوں‘ نیچے کی فائلیں اوپر، اور اوپر کی فائلیں نیچے۔ اس کام میں کلرک کو تو مہارت ہوہی چکی ہے‘ لیکن احکامات دینے میں مَیں بھی پیچھے نہیں ہوں۔ بعض اوقات تو کلرک بھی اس طرح کے اُمور بِنا میرے حکم کے ہی انجام دے ڈالتا ہے۔ میں اس کی ذہانت و لیاقت کا قائل ہوچکا ہوں اور اُسے اس کے حق سے محروم نہیں کرنا چاہتا۔ اس طرح ہم دونوں خوش بھی ہیں اور خوشحال بھی۔
 
میں نے چند سال قبل ’’بسم اللہ اسنیک بار‘‘کھلوایا تھا۔ یہ نام میں نے سوچ سمجھ کر رکھا تھا‘ تاکہ اس کی برکت سے برکت ہی برکت ہو۔ اب واقعی خوب خوب منافع ہورہا ہے کہ قوم کو کھانے پینے کا بہت شوق ہے۔ اور کیوں نہ ہو… پیسا جو ہے، اور پیسا کمانے کے فن سے لوگ 
اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں‘ لہٰذا سیدھی انگلیوں کے بجائے ٹیڑھی انگلیوں کا استعمال شروع کردیا ہے کہ یہ کام بھی اوپر والوں کا سکھایا ہوا ہے۔ خیر! جیسا دیس ویسا بھیس۔
 
جب میں شام کو گھر پہنچا تو بیگم نے توقع سے بڑھ کر گرمجوشی کے ساتھ میرا استقبال کیا اور جھٹ سے بولیں: ’’کھانا بعد میں کھایئے گا‘ پہلے میری شاپنگ دیکھ لیجیے۔‘‘ مرتا کیا نہ کرتا‘ اُن کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ گھر کو نقارخانہ تو بنانا نہیں تھا۔ بیگم کے چہرے پر سکون‘ خوشی اور سنجیدگی جلوہ گر تھی۔ ’’آخر ایسی کیا شاپنگ کرلی ہے جو اس قدر عجلت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے!‘‘ بیڈروم میں داخل ہوتے ہوئے میں نے سوچا۔ انہوں نے پاس رکھا ہوا بڑا سا شاپر میرے سامنے رکھ دیا اور اس میں سے ایک جوڑا نکال کر کچھ وضاحتی انداز میں گویا ہوئیں:
 
’’دیکھیے! میرے پاس سیاہ جوڑے ختم ہوگئے تھے اور ان کی آج کل بڑی ضرورت پیش آتی ہے۔‘‘
’’آج کل؟‘‘ میں سوالیہ نشان بن چکا تھا۔
 
’’آج کل سے میرا مطلب یہ ہے کہ ان دنوں ٹارگٹ کلنگ بہت ہورہی ہے۔ اب غمی کے موقع پر رنگ برنگ کے کپڑے اچھے نہیں لگتے‘ اس لیے تعزیت کا جوڑا خرید لیا ہے۔ دیکھیں‘ کپڑا اچھا ہے نا‘ جاپانی سلک ہے اور کام سیاہ موتیوں اور دبکے کا ہے۔ دوپٹہ نرم ونازک‘ بالائی کی طرح ہاتھوں سے پھسلا جارہا ہے، اور پھسلنا چاہیے بھی۔ چونکہ اذان یا ایسے موقعوں پر سَر پر ڈالنا تو پڑتا ہی ہے‘ پھر ہاتھ سے اُتارنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔‘‘
 
میں ان کی سمجھداری کا قائل تو ہوں‘ لیکن اس وقت تو داد دینے پر مجبور تھا۔
 
’’اور ہاں‘ جیولری بھی ہلکی پھلکی سی خریدی ہے۔ ایئر رنگ اور چوڑیاں سیاہ موتیوں اور رنگوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ ایک دو دکانیں ایسی کھل گئی ہیں‘ جہاں اس طرح کا سامان آسانی سے مل جاتا ہے۔ ارے چپل تو میں نے دکھائی ہی نہیں‘‘۔ وہ چہکیں۔ ’’دیکھیے‘ یہ بھی کپڑوں اور جیولری سے میچ کررہی ہے۔‘‘
’’پھر تو میک اپ کا سامان بھی تعزیتی ہوگا‘ یعنی سیاہ؟‘‘ میں نے استفسار کیا۔
 
انہوں نے بھرپور قہقہہ لگایا۔ اُن کا یہ انداز دیکھ کر وہ مجھے چڑیل یا ڈائن جیسی نظر آنے لگیں اور بے ساختہ میرا ہاتھ حفظ ماتقدم کے تحت گردن پر چلا گیا۔ قہقہہ تھما تو بولیں: ’’نہیں بھئی‘ ہلکے رنگوں کا ہے‘ بالکل اسکن سے میچ کرتا ہوا۔ لپ اسٹک گلابی رنگ کی ہے۔ پتا ہی نہیں چلے گا کہ لگائی بھی ہے کہ نہیں‘ البتہ ہونٹ تروتازہ نظر آئیں گے۔ اور کاجل کی جگہ آئی لائنر کا استعمال ایسے موقعوں پر بہتر رہتا ہے۔ اگر اتفاق سے رونا آجائے تو کاجل بہہ جاتا ہے، لیکن آئی لائنر نہیں۔ اور اتفاق ایسا ہے کہ مجھے رونا کم ہی آتا ہے… اور یہ جوڑے (انہوں نے تھیلے سے مزید کپڑے نکالے) یہ سرمئی والا موت کے دوسرے دن کا اور سفید سوئم اور قرآن خوانی کے موقع کے لیے خریدا ہے۔ اور یہ فیروزی چالیسویں کے لیے ہے!‘‘
’’اللہ رحم کرے‘ کیا کوئی قریبی عزیز مرنے والا ہے‘ یا میں خود؟ چونکہ یہ تو مرنے والے کے ہر پروگرام میں شرکت کا ارادہ رکھتی ہیں۔‘‘ دل کی بات دل ہی میں رہ گئی‘ کہہ نہ سکا‘ کیونکہ بیگم کے غصے سے واقف ہوں‘ وہ گفتگو کے دوران مداخلت پسند نہیں کرتیں۔
 
میں اٹھنا ہی چاہتا تھا کہ انہوں نے جھٹ میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولیں: ’’کیا موت کے گھر میں مَیں اکیلی ہی جائوں گی؟ یہ دیکھیے (انہوں نے بیڈ پر رکھا ہوا دوسرا شاپر گھسیٹا) آپ کی تیاری بھی بالکل اپنی طرح کی ہے۔‘‘
 
انہوں نے سیاہ‘ سفید اور ملیشیا رنگوں کے شلوار قمیض کے جوڑے میرے سامنے پھیلادیے۔ میں نے اپنا چہرہ اُلٹے ہاتھ کی ہتھیلی پر ٹکا دیا۔
 
’’اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟‘‘ وہ میری حالت دیکھ کر کچھ جھنجھلا سی گئیں۔ پھر اسی کیفیت میں فرمانے لگیں: ’’آخر اتنے بڑے افسر کی بیوی ہوں‘ موقعوں کی مناسبت سے کپڑوں کا خیال تو رکھنا ہی پڑتا ہے۔ پچھلے دنوں جب پڑوس میں دو بھائی ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے تھے تو میرے پاس کوئی ڈھنگ کے کپڑے نہیں تھے‘ رنگین کپڑوں میں چلی تو گئی تھی‘ لیکن وہاں جاکر بہت شرمندہ ہوئی تھی۔ سب بیگمات‘ این جی اوز کی خواتین اور وہ اداکارہ جو فلاحی کام کرتی ہے‘ اس کا نام کیا ہے بھلا‘ ہاں یاد آیا: رفیقہ دھوڈو‘ سب نے تعزیت کے جوڑے اور میچنگ کی جیولری پہنی ہوئی تھی۔‘‘
 
ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تو وہ ایسے چونکیں جیسے ان کی مطلوبہ خبر آگئی ہو! کپڑوں کا شاپر انہوں نے سینے سے لگالیا اور لپک کر آگے بڑھیں۔ یا اللہ خیر! کسی قریبی عزیز کو مروانے کا انتظام تو نہیں کرڈالا؟ تیاری تو یہی بتارہی ہے۔ لیکن فون سننے کے بعد ان کے چہرے پر مایوسی طاری تھی۔
 
’’وہ مسز مہر نے مایوں اور مہندی میں شرکت کی یاددہانی کرائی ہے‘ بس اب آپ واپس دفتر چلے جائیں۔‘‘
’’لیکن کیوں؟ ابھی تو آیا ہوں۔‘‘ میں نے خوشامدی شوہروں کی طرح اپنی اُس دُم کو ہلایا‘ جو تھی ہی نہیں۔ پھر نرمی سے پوچھا: ’’مسئلہ کیا ہے؟‘‘
 
’’سیدھی طرح آپ کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی ہے۔‘‘
’’ہائیں، اس نے تو پہلے ہی سے پورا انتظام کرلیا ہے‘‘ میں چونکا اور زیرلب بڑبڑایا۔
’’اُونچا بولونا۔ کیا منہ ہی منہ میں بدبدائے جارہے ہو۔‘‘
’’میں دست بستہ یہ عرض کررہا ہوں کہ خاتونِ اوّل آپ اپنے کہے ہوئے جملے پر غور فرمایئے۔‘‘
’’غور فرما کر ہی بات کرتی ہوں۔‘‘ ان کی گفتگو سے مجھے اچھی طرح اندازہ ہورہا تھا کہ وہ میدانِ جنگ میں اتر آئی ہیں اور اپنے سے کمزور کو پسپا کردینا چاہتی ہیں۔
 
’’بھئی‘ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔ میں کس طرح مہندی‘ مایوں اٹینڈ کرسکوں گی۔آپ جنجوعہ صاحب کی فائل اوپر لے آیئے‘ وہ کب سے یاددہانی کرارہے ہیں، اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میرے پرانے جوڑے سب دیکھ چکے ہیں۔‘‘
’’تو یہی پہن لو‘ آج کل تو شادی کے گھروں میں بھی جنازے اٹھتے ہیں۔ اس طرح ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہوجائے گا۔ بے شک یہ المیہ ہے‘ لیکن تمہارے لیے نہیں۔‘‘
جواب میں انہوں نے گھورنے سے کام چلایا۔
 
’’اُلّو بنایا ہوا ہے۔‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔
’’بنایا نہیں ہے…‘‘ اُن کی آواز میری سماعت سے اُس وقت ٹکرائی‘ جب میں کمرے سے نکل کر لائونج کی طرف بڑھ رہا تھا!
 
********************
 
 
Page Number :

Comments


Login

You are Visitor Number : 744