donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
afsane
Share on Facebook
 
Masroor Tamanna
  Teri Chahat Me
تیری چاہت میں  
Share to Aalmi Urdu Ghar
Page No. :- 1 / 4
 
 
تیری چاہت میں
 
(مسرور تمنا (احمد نگر، مہاراشٹر
 (Mob:9960975735)
 
’’اب بس بھی کیجئے صوفیہ آپا۔ آپ نے توخواہ مخواہ باتوں کو لمبا کردیا۔ اپنی ثمرہ جوان ہوچکی آپ بس اس کی فکر کرو۔ بھابھی آپ تو لڑکیوں کو انگلش میڈیم اسکول میں پڑھارہی ہو۔ نصرہ اور بشریٰ۔ کیا جوان نہیں مگر وہی اسکرٹ پہن کر اسکول جایا کرتی تھیں، تو آپ نے بھی بھیجنا تھا نہ ، ثمرہ کو میں نے کب منع کیا۔ خدیجہ بیگم تلملا کر بولیں تو صوفیہ آپا پھر پھٹ پڑی ۔ نصرہ بشری تو کالج جاتی ہیں … خدیجہ بیگم نے ان کے الفاظ کاٹ دئیے تو آپ بھی بھیج دیتیں ثمرہ کو کالج، خدیجہ بیگم نے دیکھا دروازے کی طرف افضل بیگ اندر داخل ہو رہے تھے ،صوفیہ بیگم کی بولتی بند ہوگئی۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل پڑیں۔
 
لو بھلا اتنا اچھا لڑکا ہے پھر دیر کس بات کی افضل بھائی ،صوفیہ آپا نے نصرہ کی شادی پر خاصہ زور ڈالنا شروع کیا۔ افضل بیگ نے بہن کی طرف دیکھا لڑکا اچھا ہے تو ثمرہ سے بسم اللہ کیجئے ۔صوفیہ بیگم تنک کر اٹھیں اور پڑوسیوں کے گھر کی طرف چل پڑیں ،وہاں جاکر بھابھی کی برائی جو کرنی تھی…
 
’’دیکھیں ‘‘افضل پچیس سال سے آپ کی بیوہ بہن میرے سینے پر بیٹھی مونگ دلتی رہی مگر میں نے اف تک نہ کی مگر اب بات ہماری بچیوں پر آگئی تو میں خاموش نہیں رہ سکتی۔ جواد ان کا بھانجہ ہے تو کریں نا ثمرہ کا نکاح، ستائیس برس کی ہوچکی ہے، ثمرہ کی ہر خواہش پوری کی ہم نے ،نصرہ بشری سے زیادہ خرچ کیا اس پر ، مگر صوفیہ آپا کو دیکھو ہماری بچیوں کے پیچھے پڑ گئیں۔ ارے بھئی پہلے ہماری بچیوںکے لئے اچھا لڑکا ملے تو پڑھائی تو پوری ہو ان کی۔ آپ غصے میں اب بھی حسین لگتی ہیں، افضل بیگ مسکرا کر بولے تو وہ تنک کر بولیں۔ اب بھی سے آپ کا کیا مطلب ہے؟…
 
ارے بھئی بیگم اب بھی کا مطلب ہے سلور جوبلی کے بعد بھی ۔ان کی مسکراہٹ کافی گہری ہوگئی…
نصرہ کاآخری پیپر ختم ہوتے ہی اس کی شادی شہزاد سے طے ہوگئی۔ شہزادی آرمی افسر تھے ان کی شاندار وجاہت اور خوشگوار چہرہ دیکھ کر سب لڑکیاں عش عش کر اٹھیں ۔ واہ ! نصرہ جی تمہارے تو نصیب دمک اٹھے ، نصرہ شرماگئی اور صوفیہ بیگم جل کر خاک ہوگئیں ۔ ان کی ثمرہ کا نکاح جواد سے کرنے کا انہیں بے حد افسوس تھا ،کیا کچھ نہیں دیا تھا افضل بیگ نے مگر ان کے چہرے پر ذرا بھی خوشی نہ تھی…
 
شادی کی پہلی رات نصرہ سجی سنوری دلہن بنی شہزاد کا انتظار کر رہی تھی۔ مگر انتظار کی گھڑیان لمبی ہوتی گئیں، انتظار کا جان لیوا لمحہ ہمیشہ کے لئے تھم گیا ۔ وہ نصرہ کے قریب کچھ گھنٹوں کے لئے آئے تھے ،پیار سے باتیں کی تھیں، انہیں سرحد کی حفاظت کے لئے کشمیر جانا تھا وہ جلدی جلدی تیار ہوتے رہے اور نصرہ ایک رات کی دلہن کنواری دلہن خالی سیج کو گھور کر رہ گئی…
 
افضل بیگ آپ کو کیا ہوا؟ … خدیجہ بیگم نے انہیں چکراکر گرتے دیکھا توتڑپ کر دوڑیں ۔تبھی صوفیہ آپا دوڑیں ۔اے ہائے جلدی ٹی۔وی کھولو ،بری خبریں آرہی ہیں۔ ملازمہ نے ٹی وی آن کیا۔ کشمیر میں برف تلے دب جانے کی وجہ سے کرنل شہزاد شہید ہوگئے۔ افضل بیگ بیٹی کا اجڑتا سہاگ نہ دیکھ سکے ،دنیا سے رخصت ہوگئے۔ نصرہ غم زدہ تھی ۔خدیجہ بیگم بے حال اور بشری ان سب کو سنبھالنے میں ناکام…
 
نصرہ ، ان لمحوں کی حصار سے نکلنے کو بالکل تیار نہیں تھی۔ وہ یادیں وہ لمحے تو اب اس کے جینے کا مقصد بن گئے۔ اس کے گالوں کی سرخیاں غائب ہوچکی تھیں۔ اس کے کانوں میں اب بھی سہلیوں کی آوازیں آرہی تھیں جو اس کی مہندی میں گائے جارہے تھیں :
 
 ’’ساجن ساجن تیری دلہن تجھ کو پکارے آجا‘‘ 
لڑکیاں جھوم جھوم کے گارہی تھیں اور نصرہ کے ہاتھوں میں مہندی رچ رہی تھی ۔ وہ بے پناہ حسین تھی۔ واہ نصرہ !تم تو ویسے بھی اتنی حسین ہو، اوپر سے ہلدی کا رنگ خوب چڑھا تم پر ،بہت خوش نصیب ہیں۔ شہزاد بھائی جو تم انہیں مل رہی ہو ، نصرہ کی سب سے پیاری سہیلی ثوبیہ نے کہا تو نصرہ شرما گئی ۔ خوش نصیب تھے شہزاد بدنصیب تھی وہ ، سہاگ کا جوڑا اتار کر بیوگی کا لبادہ اوڑھ لیا تھا اس نے۔
 
ائے ہائے ہاتھوں کی مہندی بھی نہ اتری بدنصیب کرم جلی ،چوتھے کاجوڑا بھی نصیب نہ ہوا بدنصیب نصرہ۔ صوفیہ آپا چیخ چیخ کر بول زیادہ رہی تھی روکم رہی تھی ۔ بشریٰ نے ان کا ہاتھ تھاما اور باہر لے آئی۔ پھوپھی آپ اس طرح کیوں کہہ رہی ہیں ،آپاویسے ہی پریشان ہیں۔ ان کے سامنے رونا بند کیجئے اور یہ سوچئے کہ ہم کل مکان خالی کر کے کہاں جائیں گے؟ بینک والے تالہ لگانے والے ہیں؟ 
 
اے ہے بشریٰ! میں کہاں جاؤں گی؟ وہ بڑبڑائیں ۔ آہستہ بولئے پھوپھی۔ امی اسپتال میں ہیں ،میں تو ان کے پاس چلی جاؤں گی مگر سامان کہاں رکھوں؟ ائے ہائے ! سوچتی کیا ہے نصرہ کی اتنی بڑی حویلی جو ہے۔ آپ ہوش میں تو ہیں نہ پھوپھی؟ … آپ ثمرہ آپا کے پاس چلی جائیں۔ ائے ہائے !کیسے چلی جاؤں ! میرابھی حق بنتا ہے بھائی کے گھر پر۔ مگرپھوپھی اب وہ گھرنہیں رہا ۔ ثمرہ آپا کی شادی میں آپ کے دامادکی خواہش پوری کرنے کے چکر میں ابو نے گروی رکھا تھا ،مگر اب وہ لوگ کل ہی مکان پر قبضہ کرنے والے ہیں اورآپ جو ستائیس برس تک اس گھر پر راج کرتی چلی آئیں ، میری مما بیچاری نے اف تک نہ کی مگر اب آپ کو اپنے لاڈلے داماد کا سہارا لینا ہوگا ،جس پر آپ نے لاکھوں خرچ کئے ، یہ الگ بات ہے کہ سارے روپئے میرے پاپا کے تھے ،آپ تو بس اپنے ہی بارے میں سوچتی ہیں۔
 
بشری بے حدپریشان تھی تبھی اس کی پرانی دوست کا فون آیا۔ وہ آج کل اپنے بنگلے پر رہ رہی تھی۔ ممی پاپا تو فارن میں تھے اور وہ ایک ائیرہوسٹس ۔ جب دل چاہا انڈیا آگئی۔ اس نے بشریٰ کے پرابلم کا حل بتایا ۔ اوہ! بشری اتنی پریشان کیوں ہو رہی ہو ۔ میرے گھر پر آجا ،میں ابھی نوکروں کو گاڑیاں لے کر بھیج رہی ہوں۔ بشری کے چہرے سے پریشانی غائب ہوگی اور پھوپھی کو مجبوراً ثمرہ کے پاس جانا پڑا ، مگر اس نے خدیجہ بیگم اور بشریٰ کے بارے ذرابھی نہ سوچا یہ کہاں جائیں گی کیا کریں گی؟…
 
بشریٰ حسن و جمال کا پیکر تھی۔ ایک ایسی دوشیزہ جس کے نرمی کے احساس بہاریں جھومنے لگتی۔ جس کے حسن سے بے خود ہو کر شاعر اپنا قلم اٹھانے پر مجبور ہوجاتا ۔ وہی حسن و جمال کا پیکر وہی کائنات کو جھومنے پر مجبور کرنے والی دل کو گرمانے والی اپنی شوخی اور کھنک سے مگر اب اس کے لب خاموش رہنے لگے، وہ پہلے اسکول کی ٹیچر تھی ، پھر وقت کے ساتھ اس کا پرموشن ہوگیا ، وہ پرنسپل بن گئی مگر زندگی کہ ان چودہ سالوں میں اور کسی طرح کا پرموشن نہیں ہوا۔ وہی تنہائی وہی اکیلا پن ۔ پچھلے سال خدیجہ بیگم بھی دنیا چھوڑ گئیں تھیں اور دھیرے دھیرے ساون کی پھوار دیکھ کر مچل جانے والی بشریٰ ایک کڑک بارعب پرنسپل بن کررہ گئی۔ دوسروں کی تاک میں رہتے رہتے وہ عمر کی اس منزل پر پہونچ گئی جہاں بہاریں اپنا دامن بچانے کو بیقرار ہواٹھتی ہیں۔ 
 
Page Number :

Comments


Login

You are Visitor Number : 799