donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Anwar Azeem
Journalist
--: Biography of Anwar Azeem :--

 

انور عظیم

Name: Anwar Azeem 
Father's Name:- Dr. Badruddin
Date of Birth:- 1924
Place of Birth::- Poksi, Dist Gaya
Date of Death:- 20, October 2000
Place of Lying: Dehli
 
ولدیت : ڈاکٹر بدر الدین
تاریخ پیدائش : ۱۹۲۴
جائے پیدائش : پوکسی، ضلع گیا
وفات : ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۰
مدفن : دہلی
انور عظیم ایک بے حد ذہین اور دانشور صحافی تھے۔ اشترا کی نظریہ کے حامی تھے۔ ان کے کئی ناول اور افسانوی مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کی نمایاں پہچان بحیثیت صحافی ہے۔
انور عظیم نے گیا کے ٹائون اسکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد انٹر گیا کالج سے کیا اور پھر پٹنہ یونیورسٹی سے بی۔ اے۔ آنرز (نفسیات) اور ایم۔ اے۔ (اردو) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اپنے ابتدائی دنوں کا ذکر انور عظیم کچھ اس انداز سے کرتے ہیں۔
’’میں ۱۹۲۴ میں ایک متوسط گھر انے میں پیدا ہوا۔ قاعدے کے مطابق شروع میں میری تعلیم مولویوں کی مٹھی میں رہی۔ پڑھنے میں دلچسپی ضرور تھی مگر مولوی صاحب کے حقے اور موٹی بھدّی کمر سے ہمیشہ کترا تا رہا اور اسی لئے مولوی صاحب اپنی کمر کے درد کے نہ نکلنے کے جواب میں میرا قیمہ بنایا کرتے تھے۔
میری ادبی زندگی کا دور ۱۹۴۰ء سے شروع ہوتا ہے، جبکہ میں اسکول میں تھا اور میرا منظور نظر ادیب عبد العلیم شررکی جیسی ہستی تھی۔ ۱۹۴۳میں گیا کی ادبی فضا نے مجھے ابھر نے کا موقع دیا۔ قیصر عثمانی اور عارف سنسہاروی کی قیادت میں ’’دائرہ اردو‘‘ نے جنم لیا اور میں اس کا ناظم مقرر ہوا۔ قیصر عثمانی جب فلمی دنیا میں کھو گئے تو مجھے اس کا احساس ہوا کہ میں اس ادارہ کا روح رواں بن گیا……چونکہ میں ایک خاص نظریہ حیات رکھتا ہوں۔ اس لئے میرا ایک خاص نظریہ حیات ادب بھی ہے۔
(زبان وادب، پٹنہ اپریل۔ جون ۱۹۸۹)
اردو میں ایم۔ اے۔ کرنے کے بعد تلاش معاش کے لئے بہت سارے ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کی طرح انہوں نے بھی کلکتہ کا رخ کیا، جہاں انہیں کچھ تگ و دو کے بعد کلکتہ کے اردو روزنامہ ’’استقلال‘‘ میں انہیں ملازمت مل گئی۔ بعد میں وہ اس اخبار کے ایڈیٹر بھی مقرر ہو گئے۔ ۱۹۵۰ء تک وہ اس اخبار کے ایڈیٹر رہے۔ لیکن بعض ناگفتہ بہہ حالات نے انہیں کلکتہ چھوڑ نے پر مجبور کر دیا اور وہ دہلی پہنچ گئے، جہاں ۱۹۵۲ء تک مکتبہ جامعہ میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ اس دوران ان کا اشترا کی نظریہ حیات اور روسی زبان کی جانکاری کام آ گئی اور انہیں ماسکو جانے کا ایک سنہری موقع ہاتھ آ گیا۔ ۱۹۵۶سے ۱۹۶۰ تک انہوں نے ماسکو کے لینگویجیز پبلی کیشنز ہائوس میں مترجم کی حیثیت سے اپنی بھر پور صلاحیتوں کا مظاہر ہ کیا۔
اس دوران ۵ اکتوبر ۱۹۶۳سے آر۔ کے۔ کر نجیا نے اردو ’’بلٹز‘‘ کی شروعات کی جس کی پہلی مدیرہ انور عظیم کی اہلیہ خدیجہ عظیم بنیں۔ ان کے بعد منیش نرائن سکینہ کو ایڈیٹر مقرر کیا گیا، لیکن ان سے بات نہیں بنی تو انور عظیم کو یہ پوسٹ آفر کیا گیا، جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا  اور اتنے عرصہ میں انہوں نے جو صحافتی تجربات حاصل کئے تھے، اس کا بھر پور مظاہرہ کیا، جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ اردو ’’بلٹنر‘‘ ایک قومی ہفتہ وار بن کر ابھرا اور ہر خاص و عام میں بے حد مقبول ہوا۔ ’’بلٹز‘‘ میں انور عظیم کے ادارئے کے ساتھ ساتھ ان کے کئی کالم ایسے ہوتے تھے کہ لوگ ہر ہفتہ ’’بلٹز‘‘ کے آنے کا انتظار کر تے۔ خاص طور پر سوال جو اب، کارٹون، بلٹز کی نظر میں، اور پتہ نہیں بیٹا و غیرہ کالم نہ صرف مقامی بلکہ قومی اور بین الاقوامی و اقعات، حالات اور حادثات کے مظہر ہوتے۔ زبان و بیان پر انہیں زبردست عبور حاصل تھا، اور سیاسیات، سماجیات اقتصاد یات اور ادبیات کے گہرے مطالعہ و مشاہدہ نے انور عظیم کے اندر زبردست خود اعتمادی بھردی تھی۔ بدلتے وقت اور حالات پر ان کی بڑی گہری نگاہ رہتی، اس بناء پر ان کی جرأت بے باکی، بے خوفی اور حوصلہ کی ستائش ہر مکتبہ فکر کرتا تھا۔ ’’بلٹز‘‘ میں ان کے لکھے ادارئے آج بھی کئی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں۔ جن مسائل زندگی پر انہوں نے برسوں قبل لکھا تھا، تاریخ بدل کر ان پر آج کی تاریخ ڈال دی جائے تو آج بھی ان کی اہمیت اور افادیت کو محسوس کئے بغیر نہیں رہا جا سکتا ہے۔ ۱۹۶۳ سے۱۹۶۷تک انور عظیم ’’ بلٹز‘‘ سے منسلک رہے، اس کے بعد وہ ایک طویل عرصہ تک یعنی ۱۹۶۷سے ۱۹۹۰ تک پندرہ روزہ ’’سوویت دیس‘‘ (اردو) کے انچارج رہے اور اس رسالہ کو بھی مقبول عام بنانے میں اہم رول ادا کئے۔اپنی صحافتی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے، خاص طور پر ’’بلٹز‘‘ کی ادارت کے زمانہ کو یاد کرتے ہوئے انور عظیم لکھتے ہیں۔
’’…تب مجھے احساس ہوا کہ پروفیشنل صحافت کے بغیر میں جی نہیں سکتا اور جو چراغ تہہ داماں کلکتے میں روشن کیا تھا، اسے پھر سے جلایا اور زندگی مجھے بمبئی لے گئی، جہاں میں نے اردو بلٹز کو ایک نئی اردو صحافت کا رنگ دینے کا کام سنبھالا۔ ۶۷۔ ۱۹۶۳تک میں اسی میں غوطہ زن رہا۔
(ایوان اردو، دسمبر ۲۰۰۰)
انور عظیم کی افسا نہ نگاری پر نقادوں نے توجہ نہیں دی، اس کا انہیں بڑا گہرا صدمہ تھا، جس کا اظہار انہوں نے ’’کتاب نما‘‘ (دہلی) کے شمارہ اگست ۱۹۸۶میں ’’شیشے کا گھر‘‘ کے عنوان سے لکھے اپنے مضمون میں بڑے کرب کے ساتھ کیا ہے۔ ریاست بہار کو یقینا اپنے اس عظیم صحافی پر فخر کرنا چاہئے۔
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)
 
You are Visitor Number : 2399