donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Ehsan Danish
Poet
--: Biography of Ehsan Danish :--

 

Ehsan Danish ( 1914 - 1982) was a prominent Urdu poet from Pakistan. His life marked the struggle of person who didn't have more than a primary level of education, who worked as ordinary laborer for years in odd jobs, and finally became a poet of excellence. His autobiography Jahan-i-Danish is a classic now and has motivated many. 
Ehsan Danish has written more than 80 books and hundreds of articles on poetry, prose, linguistics, philology, autobiography and the famous interpretation of "Diwan-e-Ghalib". Only 5% of his works are published till now and the remaining books are still left unpublished either in the manuscript form or published only once. 
Ihsan was seen in the evening at the mushairas; in the morning, at the building sites with a brush in one hand and the lime-bucket in the other; or doing a gardener's job on the Simla Hill. He has recorded the experiences of his early days in a fascinating autobiography - Jehan-i-Danish. In the realm of poetry, he was not a mere labourer, but a master architect. 

Awards


Tamgha-e-Imtiaz, received 22 March 1978 from the government of Pakistan.​

Works: 

1. Jahan-i-Danish 
2. Jahan-i Diger 
3. Tazkir-o-Tanis 
4. Iblagh-i-Danish 
5. Tashrih-i-Ghalib 
6. Awaz sy Alfaz tk 
7. Fasl-i-Salasil 
8. Zanjir-i-Baharan 
9. Abr-i-Naisan 
10. Miras-i-Momin 
11. Urdu Mutaradifaat 
12. Derd-i-Zindagi 
13. Hadis-i-Adab 
14. Lughat-ul-Islah 
15. Nafir-i-Fitrat

 احسان دانش 

خود نوشت
 
 میرا نام احسان الحق ہے اور والد کا نام قاضی دانش علی، سنہ پیدائش ۱۹۱۴ء ہے۔ آبائی وطن قصبہ باغپت ضلع میرٹھ ہے۔والد صاحب وہاں کے سکونت ترک کرکے کاندھلہ چلے آئے تھے۔ (کاندھلہ ضلع مظفر نگر یوپی )میرے نانا ابو علی شاہ صاحب کا وطن ہے جو ایک معمولی سپاہی تھے۔
 
 میرے والد قاضی دانش علی اچھی خاصی جائداد کے مالک تھے لیکن کم علمی اور شرافت نے تمام جائیداد سرمایہ دار اقرباء کے قبضہ میں پہنچا دی۔ اور جب میں نے ہوش سنبھالا تو میرے والد صاحب ایک ٹھیکہ دار کے پاس مزدوروں کے جماعت دار تھے اور جب ٹھیکہ ختم ہو جاتا تھا تو خود بھی بیلچے اور پھاوڑے سے مزدوری کرنے میں دریغ نہ کرتے تھے۔
 
اسکول میں مجھے تیسری جماعت تک کوئی احساس نہ ہوا۔ لیکن جب تیسری جماعت پاس کر چکا تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ والد نے والدہ سے کہا کہ احسان نے تیسری جماعت تو پاس کر لی ہے۔ اب چوتھی جماعت کی کتابو ں کے لئے رقم کہاں سے آئے ۔ والدہ یہ سن کر کچھ دیر تک تو خاموش رہیں اور پھر جس قدر تانبے کے برتن تھے لا کر ڈھیر لگا دیا اور کہا کہ ہم مٹی کے برتوں میں بھی کھانا کھا سکتے ہیں لیکن احسان کو یہ عمر کہاں نصیب ہوگی۔
 
 یہ دیکھ کر مجھے پہلی دفعہ والدہ کی محبت اور اپنی مفلسی کا احساس ہوا۔ میرے غریب والدین چوتھی جماعت کے بعد مجھے تعلیم نہ دلا سکے اور میں بھی اپنے والد صاحب کے ہمراہ مزدور ی پر جانے لگا۔ میرے والد صاحب کو اول یس کتابیں سننے کا شوق ہے۔ چنانچہ میں تمام دن مزدوری ہی کرتا اور شام کو اپنے والد صاحب اور ان کے چند دوستوں کو جو شام کو بیٹھک میں آجایا کرتے تھے کتابیں پڑھ کر سناتا ۔ فسانہ عجائب، آرائش محفل ،قصہ ممتاز، الف لیلہ اور فسانہ آزاد اور منظوم کتب میں سے مثنوی میر حسن ، نل دمن، دیوان میر تقی ، دیوان نظیر اکبر آبادی اور کلام انیس کا مطالعہ انہیں دنوں کا ہے اور یہ تمام کتابیں قبلہ قاضی محمد ذکی صاحب ذکی مرحوم کے کتب خانہ سے آتی تھیں  جو میرے استاد تھے۔ 
 
قاضی محمد ذکی کاندھلہ کے رئوسا میں سے تھے اور پرانی وضع کے بہترین شاعر اور شاعر سے زیادہ انسان مہمان نوازی دست پروری اور شاعرانہ والہانہ پن ان میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ عمر کے آخری تیس پینتیس سال تک وہ گوشہ نشین رہے اور ۱۹۳۹ء میں انتقال ہوا ۔ لا ولد ہونے کے بعث ان کی تمام ترجائیداد پر ہنوز حکومت کا قبضہ ہے۔
 
 مجھے مزدوری کی کمیابی نے میونسپلٹی کی چپراس باندھنے پر مجبور کر دیا۔ لیکن افسران کے برتائو اور اعزہ کی سفاکی نے وطن ترک کراکے لاہور لا پھینکا اس دن میرے والد ضعیفی کے باعث مزدوری کے قابل نہ رہے تھے۔
 
 لاہور میں آکر بھی مجھے اسی آبائی کام یعنی معماروں کے پاس اینٹیں اٹھانے کی مزدوری کے سوا کوئی ذریعہ معاش نہ ملا دیال سنگھ کالج کی لائبریری ، پنجاب یونیورسٹی کا دفتر و لیباریٹری کے علاوہ اور بہت سی عمارت پر مجھے مزدوری کرنے کا فخر حاصل ہے۔کتابیں پڑھنے کا مجھے اول سے ایسا چسکا تھا کہ مزدور دوپہر کو آرام کیا کرتے تو میں کتابیں پڑھنے میں مصروف رہتا۔ کبھی کبھی اس عالم میں دیکھ کر ٹھیکہ دار کہا کرتا کیوں بے احسان منشی بنے گا؟اور میں یہ پڑھ کر خاموش ہو جاتا۔
مزدوری سے ترقی کرتا، رفتہ رفتہ معماری تک پہنچ گیا لیکن اس وقت مجھے پستی اور بلندی میں اچھا خاص امتیاز ہو گیا تھا۔ چنانچہ علم کو مقصد زندگی قرار دے کر معماری توترک کی اور لاہور کی مشہور سیر گاہ شملہ دینی پر چوکیداروں میں نوکر ہو گیا۔ وہاں شام کے سات بجے سے میں ڈیوٹی پر جاتا اور صبح سات بجے تمام رات پاسبانی کرکے اپنے مکان پر لوٹ آتا۔
 
مکان میں کئی جے پور کے دیہات کے مزدور رہتے تھے اور میرے حصہ میں ا س مکان کا ایک غسل خانہ تھا جس کا کریہ میں چھ آنہ مہینہ ادا کرتا تھا جگہ کی قلت کے باعث اس میں چار پائی کی گنجائش نہ تھی ۔ اس لئے ایک بوریا ہی میرا بستر تھا۔ ان دنوں سے آج تک میں زمین پر سوتا ہوں۔
 
 چوکیداری کی ۔ راتوں کا سناٹا مفت کی سرکاری روشنی اور مصروف تنہائی مجھے ابھی تک نہیں بھولتی۔ ان دنوں چار سو ساڑھے چار سو صفحات کا یومیہ مطالعہ میری زندگی کا معمول تھا۔
 
چوکیداری کی جگہ تخفیف میں آجانے کے بعد مجھے ریلوے دفتر میں چپراسی کی جگہ ملی اس وقت چند لکھے پڑھے آدمیوں سے میرے تعلقات ہو گئے تھے۔ شعر و شاعری کا شوق یوں تو مجھ میں اول سے قبلہ قاضی محمد ذکی صاحب ذکی کے فیض صحبت سے بیدار تھا اور جب کوئی اچھا شعر سنتا تو بیتاب ہو جاتا۔ مصرعے تو اکثر اور کبھی کبھی پورا شعر اور بعض اوقات دو دو تین تین شعر بلا تکلف ہو جایا کرتا تھا۔ لیکن چوں کہ اپنے شاعر ہو جانے کا یقین نہیں تھا اس لئے نہ تو وہ شعر محفوظ ہیں اور نہ یہ اندازہ کہ شعر کب سے کہتا ہوں۔ گھر اور دوستوں میں بھی کوئی ایسا شخص نہ تھا جسے یہ خیال ہوتا ۔لاہور کے دوران تعلیم میں بھی میرے دوست توقیر طاہر گنگوہی کے سوا کوئی ایسا نہیں جس نے میری حوصلہ افزائی کی ہو اور وہی شخص مجھے پہلی بار کھینچ تان کر لاہور کے ایس پی ایس کے ہال کے مشاعرہ میں لے کر گیا اور مجھ سے میری ایک غزل پڑھ کر پبلک سے روشناس کرایا اور اسی دن سے مجھے یہ بھی احساس ہونے لگا کہ میں شاعر ہو سکتا ہوں ۔ اور اسی بناء پر مطالعہ میں اس قدر منہمک ہو گیا کہ آج تک چوبیس گھنٹے میں سے صرف چار گھنٹے آرام کرتا ہوں اگرچہ مشق کے طر پر اشعار تو نہ جانے کتنے کہے ہوں گے لیکن جو کہتا تھا ان میں توقیر صاحب جو اچھا شعر سمجھتے تھے وہ رکھ لیتے تھے اور جو بے معنی ہوتا وہ ضائع کر دیتے۔ وہ شاعر ہوں یا نہ ہو لیکن شعر فہم ایسے ہیں کہ ان کے انتخاب کو ہر سدا داغ پسند کرتا ہے۔ میرا آج تک کا جس قدر کلام ہے وہ تمام تر جناب توقیر طاہر کی توجہ اور احتیا ط کا نتیجہ ہے۔
 
 تفریح پسند دوستوں اور دفتر میں کلرکوں کے روپیہ نے مجھے چپراسی سے دستبردار کرکے باغبانی پر مجبور کیا۔ اور میں گورنمنٹ ہائوس لاہور میں ایک باغبان کی معاونت میں کام کرنے لگا لیکن عہدیداران کی نجی خدمات اور جمعداروں کی بیجا چاپلوسی کی خواہش نے بہت جلد یہ کام بھی چھڑا دیا اور پھر میں بیس روپیہ ماہانہ پر گیلانی بکڈپو میں ایک عرصہ تک ملازمت کرتا رہا۔ لیکن پھر تنخواہ میں تاخیر شروع ہوئی اور ہوتے ہوتے یہاں تک نوبت پہنچی جب چار ماہ تک تنخواہ سے محروم رہا تو وہاں سے بھی دامن کش ہوا اور مکتبہ دانش کے نام سے اپنا ذاتی کتب خانہ قائم کیا اب اُسی کی تعمیر میں اپنی تمام قوتوں سے منہمک ہوں ۔ میرا سرمایہ شعری زیادہ ترنظموں پر مشتمل ہے۔ لیکن چوں کہ فرمائش صرف غزلوں کے انتخاب کی ہے اس لئے جو کچھ کہی ہیں ان سے چند اشعار پیش کئے جا رہے ہیں۔
 
احسان ؔ دانش ۔۱۹؍ اگست۴۰ء
 
***************************

 

 

 
You are Visitor Number : 2288