donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Ghayas Ahmad Gaddi
Writer
--: Biography of Ghayas Ahmad Gaddi :--

 Ghayas Ahmad Gaddi 

 

 غیاث احمد گدی 
 
نام: غیاث احمد 
قلمی نام :غیاث احمد گدی
والد کا نام: احمد گدی
گود لینے والے چچا کانام : جیب گدی
تاریخ پیدائش : ۱۷،فروری ۱۹۲۸ء بقام جھریا ،
تعلیم :معمولی ،اردو،انگریزی اور عربی
پہلی کہانی: ’’دیوتا‘‘ ماہنامہ ’’ہمایوں‘‘ لاہور ستمبر ۱۹۴۷ء ۔
افسانوی مجموعے : تین
۱۔بابا لوگ ۱۹۲۹ء کل نو افسانے ،۲۔ پرندہ پکڑنے والی ۱۹۷۷ء، ۱۶ افسانے ،۳۔سارا دن دھوپ ،۱۹۸۵ء ،۱۲ ،افسانے دان کے علاوہ کچھ افسانے ایسے بھی ہیں جو کسی مجموعہ میں شامل نہیں ہیں کچھ افسانے غیر مطبوعہ بھی ہیں ۔
دیگر تصانیف:،۱۔پرائو،ناولٹ، ۲۔میراث ،ادبی ماہنامہ ،۳۔کچھ غزلیں اور نظمیں۔
رسائل جن میں افسانے ’’کردار‘‘بھوپال ’’کنول‘‘ دبھنباد‘‘ زبان وادب ،
شائع ہوئے ، پٹنہ ’’ شاعر‘‘ ممبئی ’’ افکار‘‘ بھوپال ، آجکل ‘‘دہلی، لیکریں’’گریڈیہہ ’’شب خون ‘‘الہ آباد وغیرہ۔
وفات:۲۵؍جنوری ۱۹۸۶ء
اردو افسانے کی دنیامیں غیاث احمد گدی بہت ہی اہم اور منفرد حیثیت رکھتے ہیں، ان کے افسانے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے افسانے مواد اور تکنیک دونوں اعتبار سے متنوع ہیں، انہوں نے اپنے افسانوں میں زندگی کے مختلف موضوعات اور مختلف مسائل کو پیش کیا ہے یوں تو انہوں نے بیانیہ اور علامتی دونوں طرح کی کہانیاں لکھی ہیں لیکن عام طور پر وہ مثالیت پسند ہی رہے ۔ گدی کے ابتدائی افسانوں، اوپلے والی، سڑک اور لڑکی ، دیوتا، رام اوتار، بات سچھ ہی تھیں، اور ،چٹکی بھر ہریالی، وغیرہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے ک ہ انہوں نے جب افسانہ نگاری شروع کی تو ایک طرف اپنے ہی معاشرے کی اجتماعی زندگی کو پس منظر بنا کر پیش کیا اور دوسری طرف جھریا کی مقامی فضا وماحول اور ان میں رہنے والے محنت کش طبقے اور پریشان حال غریب ونادار لوگوں کی عکاسی کی ہے۔ لیکن جل ہی انہیں احساس ہوگیا کہ انفرادی تجربات کا اظہار ہی فنکار کا مقصد نہیں ہوتا اس لئے جلدہی ان کے تجربات کی دنیا اپنی ذات سے ہٹ کر گرد وپیش کے انسانی تجربات پر محیط ہوگیا۔
غیاث احمد گدی کے تینوں افسانوی مجموعے میں کل ملا کر ۳۷افسانے ہیں اور سب کے سب اپنے طور پر ایک دوسرے سے الگ ہیں ان کا ہر افسانہ ایک نئی ہیئت کا متقاضی ہوتا ہے جو عام افسانہ نگاروں کے یہاں نہیں پایا جاتاہے اسےان کا سب سے بڑا تخلیقی وصف قراردیا جاسکتا ہے کہیں مواد اور ہیئت ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ابھرتے ہیں کہیں انہوں نے ٹریجڈی سے  کام لیا ہے کہیں میلوڈرامہ کی کیفیت پیدا کی ہے کہیں کردار کو متضاد سمتوں میں رکھ کر اثرات کو شدید تر کر دیا ہے کہیں مکالمہ نگاری کا جو ہر دکھاکر افسانے میں جان ڈال دی ہے کہیں عورت کے استحصال کو موضوع بنایا ہے کہیں انسانی نفسیات کا زبردست مطالعہ پیش کیا ہے۔ 
غیاث احمد گدی کے افسانوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے افسانوں میں فطرت کی عکاسی بہت ہی حسین اور دلکش انداز میں کی ہے در اصل وہ فطرت کے بہت قریب تھے وہ اکثر وبیشتر فطرت کے کسی حیوانی مظہر کو کردار کے بدلے میں پیش کردیتے ہیں اور یہ مظہر اپنے اندر علامتی طور پر بہت سے معافی ومفاہم رکھتے ہیں ان کی منظرنگاری اور فضا کشی رمز سے بھر پور ہوتی ہے۔
غیاث نے الفاظ کی معنویت اور ان کے تخلیقی برتائو پر بھی کافی زوردیا ہے آسان اور سیدھی سادی کہانیوں کو بھی انہوں نے نئی معنویت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ جہاں تک ترقی پسندی کا سوال ہے تو گدی اپنے آپ کو مار کس ازم کا سچا حمایتی سمجھتے تھے، انہوں نے خود ایک انٹر ویو میں کہا ہے کہ بے شک میں ترقی پسند تھا پھر اس تحریک میں ڈھنگ سے جڑا نہیں تھا، یوں تو میں آج بھی ترقی پسند ہوں اور پوری طرح ہوں لیکن اس حد تک جہاں تخلیقی امکانات اجازت دیتے ہیں جدید ادب کے متعلق بھی وہ اپنے اس انٹر ویو میں فرماتے ہیں، جدید ادب کی شروعات منظم ڈھنگ سے نہیں ہوئی بلکہ ترقی پسند ادب کی تحریک جو ایک بے لچک سختی تھی اس کے رد عمل میں ادب کے طلباء کے ایک بڑے گروہ نے اپنے طور پر جو گھٹن محسوس کی میں کہوں گا کہ اس گھٹن نے ایک ایسے انتقامی جذبے کو پنپنے کا موقع دیا جو ترقی پسند تخلیق کار کے رویوں کے برعکس تھا۔ یہ سچ ہے کہ غیاث نے بھی اپنے پیش رئوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی ہے جدیدیت سے متاثرہوئے بغیر وہ بھی نہیں رہ سکے ہیں لیکن لایعنیت اور بے معنویت کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے موقف کو زیادہ اثر انداز بنانے کیلئے۔ وہ اپنے پیش روئوں کے نقش قدم پر چلنے کے باوجود ان کی پیروی پر قانع نہیں تھے، ان کا ہر قدم مظہر تھا اس کشمکش کا جو نیا قدم اٹھانے اور نقش قدم پر چلنے کے درمیان ان میں جاری تھی لیکن یہ کشمکش شدید شکل اختیار نہیں کرپاتی ان کے یہاں یہ انحراف نہ پہلے تھا نہ اب ہے، ’’تبح دوتبح دو‘‘ نارودھ منی‘‘ اور پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘‘ علامتی کہانیاں ہیں لیکن ایسی علامتی نہیں کہ انسانی اور اک وفہم سے باہر ہو، یہ کہانیاں سیاسی نظام اور ان سے پیدا ہونے والے حالات کی عکاس اور موجودہ ہندوستانی فضاکی آئینہ ہیں۔
دوسرے دن بازار کے سارے لوگوں سے کہتا پھر اجوتا گانٹھنے والے موچی سے کپڑے بیچنے والوں سے راہ گیروں سے سفید پتلون والے سے تیز رفتار بابو سے بوجھ ڈھونے والے قلی سے، رنگین دوپٹے والی خاتون سے دونوں سیاست دونوں سے ایک ایک آدمی سے پوچھتا پھرتا تیز رفتار گاڑیوں کو روکنے کی کوشش کی کہ دس سالہ بچے کی جو ان بہن لقوہ کی مریض ہے اور حکیم جی نے دوائوں کے ساتھ ساتھ لقا کبوتر کے پروں کی ہوا کیلئے کہا ہے، اگریہ گاڑی والے بچے کے کبوتر کو بھی پکڑ کر لے گئے تو پھر کیا ہوگا؟ ’’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘‘
’’قیدی‘‘بابالوگ‘‘ تبح دو تبح دو‘‘ ڈوب جانے والا سورج‘‘اندھے پرندے کا منفر‘‘ منظر وپس منظر ‘‘ جوہی کا پودا‘‘ پہیہ‘‘ اور چٹکی بھر ہریالی ‘‘وغیرہ ان کے مشہور ومقبول افسانے ہیں گدی نے اپنے کچھ افسانوں کی کلید بھی خود ہی پیش کی ہے اس کے علاوہ’’آج کل دہلی دسمبر ۱۹۸۶ء میں ان کا ایک گوشہ شائع ہوا ہے اس سے ان کی افسانہ نگاری کو بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ مختصر یہ کہ گدی اردو کے ایک صاحب طرز افسانہ نگار تھے جن کی شہرت ومقبولیت نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں تھی انہوں نے اردوافسانے کو ایک گراں قدر سرمایہ عطا کیا ہے۔
 
’’بشکریہ بہار میں اردو افسانہ نگاری ابتدا تاحال مضمون نگار ڈاکٹر قیام نیردربھنگہ‘‘’’مطبع دوئم ۱۹۹۶ء‘‘
 
 
You are Visitor Number : 4602