donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Kalam Haidri
Journalist
--: Biography of Kalam Haidri :--

 

 کلام حیدری 

Name: Md.Kalamul Haq Haidri
Father's Name:- Md. Inaamul Haq
Date of Birth:- 2, April 1930
Place of Birth::- Rankarh (Dist. Munger)
Date of Death:- 3,February 1994
Place of Lying: Gaya
 
اصل نام : محمد کلام الحق حیدری
ولدیت : محمد انعام الحق
تاریخ پیدائش : ۲ اپریل ۱۹۳۰
جائے پیدائش : رانکڑ (ضلع مونگیر)
تاریخ وفات : ۳ فروری ۱۹۹۴ 
مدفن : گیا
کلام حیدری کا شمار بے باک اور بے خوف صحافیوں میں ہوتا ہے ان کا اصل نام کلام الحق تھا اور وہ زندگی بھر اپنے نام کی تفسیر بنے رہے۔ حق پرستی اور حق گوئی ہی ان کی شناخت تھی۔
کلام حیدری کی ابتدائی تعلیم ایٹہ(اتر پردیش) میں ان کے نانا ڈاکٹر علی حسن مرحوم کے یہاں ہوئی۔ والد صاحب ان کے پولس سب انسپکٹر تھے۔کلام حیدری نے مختلف حالات میں مختلف جگہوں پر تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے میٹرک پٹنہ مسلم ہائی اسکول سے آئی کام، کلکتہ سے بی۔ اے۔ (آنرز۔ اردو) رانچی کالج سے اور ایم۔ اے( اردو) پٹنہ یونیورسٹی سے کیا۔ یہ جہاں بھی رہے بے حد متحرک اور فعال رہے۔
اردو ماہنامے ’’نغمہ و نور‘ (کلکتہ) ’’صبح نو‘‘ (پورنیہ) ’’سہیل ‘‘ (گیا) ’’ آہنگ‘‘ (گیا) اور اردو ہفتہ وار ’’مورچہ ‘‘(گیا) ’’بودھ دھرتی‘‘(گیا) کے صفحات پر بکھری کلام حیدری کی صحافتی تحریروں کو بغور مطالعہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے کہ کلام حیدری کا مقام بحیثیت افسانہ نگار زیادہ بلند تھا یا صحافی۔ اس لئے کہ کلام حیدری صحافت اور افسانہ نگاری دونوں کو روز اول سے آخر دم تک ساتھ ساتھ لے کر چلتے رہے۔ ویسے ادب میں ان کی پہچان بحیثیت افسانہ نگار زیادہ ہے، لیکن میرا ماننا ہے کہ وہ بحیثیت صحافی زیادہ بلند قامت کے تھے۔ شمس الرحمن فاروقی نے بھی اس امر کا اعتراف ’ماہنامہ ’’سہیل‘‘ کے کلام حیدری نمبر میں کیا ہے۔ کلام حیدری کے رگ وپئے میں صحافت ،طالب علمی کے زمانہ ہی سے سراعت کر گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ۱۹۴۷ میں کلکتہ سے آئی۔ کام پاس کرنے کے بعدانہوں نے اپنے ایک دوست کے تعاون سے ایک ماہنامہ ’’نغمہ ونور‘‘ کی اشاعت شروع کی اس طرح صحافت سے ان کا تعلق ابتدائی زمانہ سے قائم ہو گیا۔۱۹۵۲میں جب وہ پورنیہ کالج میں اردو کے لکچرر بنے اس دوران و فاملک پوری کی ادارت میں اگست ۱۹۵۲سے شائع ہونے والے ادبی ماہنامہ ’’صبح نو‘‘ سے وابستہ ہو گئے لیکن اس ادبی ماہنامہ میں انہیں اتنی آزادیٔ تحریر تھی اور نہ ہی مواقع۔ یہی صورت حال گیا سے شائع ہونے والے مشہور ادبی ماہنامہ ’’سہیل‘‘ میں ۱۹۵۸ کے بعد شامل ہونے کے بعد قائم رہی۔ گرچہ جمیل مظہری نمبر، افسانہ نمبر یا بھاگلپور کا ادبی ماحول نمبر کی ترتیب و تزئین میں ان کے صحافتی جوہر سامنے آنے لگے تھے اور انہیں اپنی اس خداداد صلاحیتوں کا’’ صبح نو‘‘ اور ’’سہیل ‘‘کی ادارت میں شمولیت کے بعد احساس ہوا۔ چونکہ کلام حیدری کے اندر سیاسی اور سماجی شعور بے حد بیدار تھا اور جب کوئی حادثہ مقامی صوبائی قومی یا بین الا قوامی سطح پر رونما ہوتا تو ان کے اندر سیاسی و سماجی کشمکش شروع ہو جاتی اور وہ کھل کر اس کا اظہار نہیں کر پاتے تھے۔ ۱۹۶۲ میں جب چین نے بھارت پر حملہ کر دیا تو وہ بے چین ہواٹھے۔ اپنی حب الوطنی سیاسی کشمکش اور سماجی بیداری کے اظہار کے لئے اس وقت انہیں ایک آرگن کی بڑی سخت ضرورت محسوس ہوئی اور اس وقت وہ کنکریٹ انڈسٹری میں مالی طور پر بھی بہتر پوزیشن میں تھے۔ چنانچہ انہیں یہ وقت بے حد مناسب لگا اور ۱۹۶۳ کے اوائل سے ہفتہ وار ’’مورچہ‘‘ گیا سے نکالنا شروع کر دیا۔ مورچہ کے ابتدائی اداریوں اور دیگر مضامین کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ چین کے حملہ نے ان کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔ جن کا وہ برملا اظہار ’’مورچہ‘‘ کے صفحات پر کرنے لگے اور یہیں سے ان کی صحافت نگاری کا باضابطہ سلسلہ شروع ہوتا ہے دھیرے دھیرے جب حالات معمول پر آئے تو کلام حیدری کے اندر کا ایک ادیب جاگ پڑا اور اس نے اردو ادب کی آبیاری کے لئے مارچ ۱۹۶۴سے ماہنامہ ’’آہنگ‘‘ جاری کیا جس نے ادبی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ کلام حیدری نے صحافت کو کبھی تجارت نہیں سمجھا، بلکہ عبادت تصور کیا اور عبادت میں ایمانداری، تقویٰ خشوع و خضوع جیسی شرائط ضروری ہیں۔ حالانکہ کلام حیدری کو سچ بولنے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ خود ان کے الفاظ میں—’’معتوب ہوا، مگر بیس سال تک کا ’’آہنگ‘‘ اور چوبیس سال تک کا ’’مورچہ‘‘ ہفتہ وار اپنے قائلوں میں اپنے عصر کی ادبی حالت چھپائے ہوئے ہیں، جس کو آنے والی نسلیں پڑھینگی۔ ’’کلام حیدری اپنی زندگی کے آخری دور میں کئی سال تک سید احمد قادری کی ادارت میں شائع ہونے والے ہفتہ وار ’’بودھ دھرتی‘‘کے آخری صفحہ پر ’’ٹف نوٹس‘‘ کالم لکھ کر اپنے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتے رہے۔
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)
 

 

 
You are Visitor Number : 2137