donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Moin Shahid
Journalist
--: Biography of Moin Shahid :--

 

   معین شاہد  

Name: Moinuddin 
Pen Name:- Moin Shahid
Father's Name:- Shah Akthar Hussain
Date of Birth:- 28, December, 1929
Place of Birth::- Moriya Ghat, Gaya
 
اصل نام : معین الدین
ولدیت : شاہ اختر حسین 
تاریخ پیدائش : ۲۸دسمبر ۱۹۲۹
جائے پیدائش : موریا گھاٹ، گیا
معین شاہد کا شمار مستند اور معبتر صحافیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اس دشت کی سیاحی میں گزار دی۔ صحافت نگاری، معین شاہد کے لئے صرف ایک شوق نہیں تھا، بلکہ ایک جذبہ، جوش اور جنون تھا، اور اس جوش ، جذبہ اور جنون کے  زیر اثر انہوں نے اردو صحافت کو ایک خاص معیار اور بخشا ہے۔
معین شاہد نے ابتدائی تعلیم اپنے خاندانی مدرسہ عزیز العلوم ، گیا میں حاصل کی ۱۹۴۰میں ان کا داخلہ گیا کے ضلع اسکول میں چوتھے درجہ میں کرایا گیا، جہاں سے انہوں نے میٹرک پاس کیا۔ آگے کی تعلیم وہ اپنی بیماری کے باعث حاصل نہیں کر سکے۔ لیکن مدرسہ اور اسکول کی اتنی تعلیم نے ان کے اندراتنی لیا قت پیدا کر دی تھی کہ وہ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبان سے بخوبی واقت ہو گئے تھے۔ گھر کا ماحول بھی ان کا تعلیمی لحاظ سے بے حد فعال اور متحرک تھا، اس لئے انہیں کسی طرح کی دشواری کا سامنا کرنا نہیں پڑا اور لکھنے لکھانے کی طرف راغب ہو گئے۔ ان کے گھر سے ہی ’’ندیم‘‘ جیسا رسالہ شائع ہوتا تھا اور انجم مانپوری جیسی قد آور ادبی وصحافتی شخصیت کا ان پر سایہ تھا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ معین شاہد بچپن سے ہی ادبی دنیا میں داخل ہو گئے۔ ابتدائی دنوں میں ان کی (۱۹۴۴ سے ۱۹۴۶ تک) غنچہ ’’زخمہ‘‘ ، ’’بچوں کا باغ‘‘ اور ’’پیام تعلیم‘‘ وغیرہ جیسے بچوں کے رسالے میں کئی کہانیاں شائع ہو ئیں۔ ان کا باضابطہ پہلا افسانہ ۱۹۴۸میں ’’اندھے‘‘ کے عنوان سے الہ آباد سے شائع ہونے والا ادبی رسالہ ’’جھنکار‘‘ میں سامنے آیا تھا، اور یہ سلسلہ ذی فراش ہونے سے قبل تک چلتا رہا۔
معین شاہد کی صحافتی زندگی کی ابتداء کلام حیدری کی ادارت میں گیا ہی سے شائع ہونے والا ہفتہ ور اخبار ’’ مورچہ‘‘ (جوکہ ۲مارچ ۱۹۶۳سے نکلنا شروع ہوا تھا) سے ہوئی۔ چند شماروں میں معین شاہد کی سیاسی سوجھ بوجھ سماجی ذمہ داریاں اور معاشرتی فکر کے ساتھ ساتھ صحافت کے تئیں ان کے جوش، جذبہ اور جنون کو دیکھ کر کلام حیدری نے انہیں جوائنٹ ایڈیٹر بنا دیا۔ اس دوران کلام حیدری جیسے باصلاحیت اور باوقار صحافی کے ساتھ کام کرکے انہوں نے اچھا خاصہ تجربہ حاصل کیا۔ لیکن انہیں آزادی تحریر اس قدر میسر نہیں تھی۔ جس قدر وہ کھل کر لکھنا چاہتے تھے، ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے وجود کی انفرادیت کو بھی منوانا چاہتے تھے، جس کے نتیجے میں انہوں نے ۱۱ اپریل ۱۹۶۶سے اپنا ایک ہفتہ وار ’’آدرش‘‘ نکالنا شروع کیا۔ یہ گیا کا پہلا ایسا ہفتہ وار تھا جو کرائون سائز (۲/۳۰×۲۰) پر نکلنا شروع ہوا اور لالو پرساد کی حکومت میں اشتہارات بند کر دئے جانے کے سبب غالباً ۱۹۹۸میں یہ اخبار طویل عرصہ تک بہار کی سیاسی، سماجی، معاشرتی، تہذیبی، ادبی اور لسانی خدمات انجام دے کر بند ہو گیا۔
معین شاہد ایک حساس انسان ہیں، عصر حاضر کے حالات پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ اس وجہ کر ان کے  ادارئے اور دیگر تبصرے بڑے متوازن، معیاری اور مؤثر ہوتے تھے۔ معین شاہد کے اکثر ادارئے لسانی تنگ نظری، علاقاتی تعصب فرقہ پرستی، اور استحصال کے خلاف آگ اگلتے۔ نظر یاتی طور پر وہ کانگریس کے ہمنوا تھے، لیکن وہ لکھتے وقت کا نگریس کی بھی غلط پالیسیوں اور کوتا ہیوں کو ہدف ملامت بنانے اور تنقید کرنے میں پیچھے نہیں رہتے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے کئی ادارئے ملک کے دیگر ریاستوں سے شائع ہونے والے اخبارات نقل کرتے۔
معین شاہد نے اپنے افکار اور احساسات و جذبات کی ترجمانی کو محدود نہیں رکھا، بلکہ ملک کے طول و عرض تک پہچانے کے لئے انہوں نے اردو ’’بلٹز‘‘ نئی دنیا ،الجمیعتہ، سنگم، صدائے عام، وغیرہ کا سہارا لیا اور اکثر ان اخبارات میں ان کے تبصرے اورمضامین شائع ہوتے تھے۔ راقم الحروف نے جولائی ۱۹۸۸ میں اپنے اخبار ’’بودھ دھرتی‘‘ کا معین شاہد پر ایک خاص نمبر شائع کیا تھا۔ جو کافی پسند کیا گیا تھا۔ معین شاہد کے کئی ناول شمع بکڈپو، نئی دہلی نے شائع کئے تھے۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے بھی منظر عام پر آکر خراج تحسین حاصل کر چکے تھے۔ کرشن چندر، راہی معصوم رضا وغیرہ ان کے مداحوں میں تھے۔
معین شاہد ان دنوں بستر علالت پر گز شتہ کئی برسوں سے پڑے ہیں، لیکن سرکاری و نیم سرکاری ادارے انہیں بالکل فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اپنی پوری زندگی اردو صحافت کے لئے وقف کر دینے والا یہ عظیم صحافی لوگوں کی بے حسی پر رو رہا ہے، لیکن کوئی ان کے آنسو پوچھنے والا نہیں، کوئی یہ پوچھنے والا بھی نہیں ہے کہ روزانہ سینکڑوں روپئے کی دوائیں کہاں سے آ رہی ہیں۔ بہار اردو اکاڈمی کی جانب سے ریوڑیوں کی طرح بانٹے جانے والے ایوارڈ (رقم) سے بھی معین شاہد کو جیتے جی محروم رکھا گیا ہے۔ یہ ہے بہار میں اردو صحافت کی خدمات کا صلہ!!!
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)
 
You are Visitor Number : 1956