میں ساقیا! پی چکا ہوں جی بھر کے خون ارمان و آرزو کا
نہیں میں پیاسا شراب کا ہوں، فقط ہوں تیری نظر کا بھوکا
مسلمؔ عظیم آبادی فارسی سے بہت زیادہ انسیت رکھتے تھے۔ انہیں غزل پر دسترس حاصل تھی۔ وہ حالیؔ اور اقبال سے متاثر تھے۔ ان کی شاعری میں جدت طرازی ملتی ہے۔ کلام میں درد اور روانی پائی جاتی ہے۔ ان کے یہاں رندانہ اشعار زیادہ ملتے ہیں۔
مسلم عظیم آبادی کا تعلق عظیم آباد سے تھا۔ ان کی سنہ پیدائش 1888 ء ہے۔ یہ چودہ سال کی عمر میں ہی والد و الدہ کے سایۂ عاطفت سے محروم ہو گئے تھے۔ خالو اور خالہ نے ان کی پرورش و پرداخت کی۔
مسلم عظیم آبادی اردو نثر میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ اور علامہ شبلی سے متاثر تھے۔
ان کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
ہے ہوش و خرد میں غم کا ہجوم اور خواب میں بھی آرام نہیں
جولائے پیامِ صبح امید، اب ایسی میسر شام نہیں
٭٭
معلوم ہے کہ ہے موت انجام زندگانی
ہم اور ہماری دنیا جو کچھ ہے سب ہے فانی
*****