donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Obaid Qamar
Writer
--: Biography of Obaid Qamar :--

Obaid Qamar

 

عبید قمر
نام عبدالکریم والد کا نام غلام احمد مجبتیٰ ،تاریخ ولادت ۴؍ستمبر ۱۹۴۸ء تعلیم بی ایس سی، ادیب کامل ،ملازمت میڈیکل ریپر زنٹیٹو، عبید قمر صاحب ۱۹۶۸ء سے افسانے لکھ رہے ہیں اب تک تیس افسانے ملک کے مختلف رسائل میں شائع ہوچکے ہیں، دو افسانوی مجموعے آخری کش ۱۹۸۲ ءاور ۱۹۸۲ء اور ننگی آوازیں،۱۹۸۸ء میں شائع ہو چکے ہیں افسانوں کے علاوہ بچوں کیلئے کچھ کہانیاں اور چند انشایئے وغیر ہ بھی لکھ چکے ہیں۔ 
 
عبیدقمر کا شمار جدید افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے لیکن ان کی جدیدیت ایسی نہیں ہے جو قارئین کو ابہام میں مبتلا کر دے، انہوں نے تمثیل اور علامت نگاری کو فنکاری کے ساتھ اپنا یا ہے سعادت حسن منٹو اور بیدی وغیرہ نے جو روایات چھوڑیں انہیں بر قرار رکھنے والے بہت سے اچھے افسانے نگاروں میں ایک نام عبید قمر کا بھی ہے انہوں نے کہا نی سے کہانی پن کو نہیں نکالا ہے، بھلے ہی پیرایہ بیان علامتی ہی کیوں نہ رہا ہو، مختصر یہ کہ انہوں نے نہ تو پروپگنڈہ زدہ ترقی پسندی کواور نہ ہی انتہا پسند یدیت کے شکار رہے ،وہ ہمیشہ ماحول سے پیدا شدہ نفسیاتی گرہ کھولنے کی کوشش کرتے رہے ہیں انہوں نے خود ہی لکھا ہے۔میں نے ساری کہانیاں جھیل کر لکھی ہیں، ماحول میں ڈوب کر لکھی ہیں،میں پروپگنڈہ زدہ ترقی پسندی اور انتہا پسند جدیدیت سے ہمیشہ دور رہا، اپنے ماحول سے بے پرواہو کر لکھنا تو خلاء میں بھٹکنے کے
سواکچھ بھی نہیں ہے ابہام واہمال زدہ تخلیقات کی ڈھیر پر کھڑے ہو کر چند نے اپنا قداونچا کرنا چاہا نتیجہ
وہی ہوا کہ جدیدیت کے سیلاب میں اپلانے والے خس وخاشاک آج لا پتہ ہیں۔
امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں عبید قمر صاحب اردو افسانے کو ترقی دیںگے۔
 
’’بشکریہ بہار میں اردو افسانہ نگاری ابتدا تاحال مضمون نگار ڈاکٹر قیام نیردربھنگہ‘‘’’مطبع دوئم ۱۹۹۶ء‘‘
 
++++

معروف افسانہ نگار عبید قمر کا آج صبح پٹنہ میں انتقال


محمد علم اللہ اصلاحی 


معروف افسانہ نگار عبید قمر کا آج صبح پٹنہ میں انتقال ہو گیا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون نمازِ جنازہ آج بعد نماز عصر محمد پور مسجد (شاہ گنج، پٹنہ) میں ادا کی جائے گی۔قمر مرحوم کا اصل نام  عبدالکریم تھا ،آپ کی پیدائش ۴؍ستمبر ۱۹۴۸ء کو بہار ہوئی تھی ۔  بی ایس سیاور ادیب کامل کے بعد میڈیکل ریپر زنٹیٹو کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دینے والے عبید قمر صاحب ۱۹۶۸ء سے افسانے لکھ رہے تھے ۔اب تک ان کے متعدد افسانے ملک کے مختلف رسائل میں شائع ہو کر ادبی حلقہ میں اپنی پہچان تسلیم کروا چکے تھے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے آخری کش ۱۹۸۲ ءاور ۱۹۸۲ء اور ننگی آوازیں،۱۹۸۸ء میں شائع ہو چکے ہیں جسے کافی پذیرائی ملی ۔عبید قمر افسانوں کے علاوہ بچوں کیلئے کچھ کہانیاں اور چند انشایئے وغیر ہ بھی لکھ چکے ہیں۔ 

عبیدقمر کا شمار جدید افسانہ نگاروں میں ہوتا تھا لیکن ان کی جدیدیت ایسی نہیں ہوتی  جو قارئین کو ابہام میں مبتلا کر دے، انہوں نے تمثیل اور علامت نگاری کو فنکاری کے ساتھ اپنا یا ہے سعادت حسن منٹو اور بیدی وغیرہ نے جو روایات چھوڑیں انہیں بر قرار رکھنے والے بہت سے اچھے افسانے نگاروں میں ایک نام عبید قمر کا بھی ہے انہوں نے کہا نی سے کہانی پن کو نہیں نکالا ہے، بھلے ہی پیرایہ بیان علامتی ہی کیوں نہ رہا ہو۔

مختصر یہ کہ انہوں نے نہ تو پروپگنڈہ زدہ ترقی پسندی کواور نہ ہی انتہا پسند یدیت کے شکار رہے ،وہ ہمیشہ ماحول سے پیدا شدہ نفسیاتی گرہ کھولنے کی کوشش کرتے رہے ہیں انہوں نے خود ہی لکھا ہے۔"میں نے ساری کہانیاں جھیل کر لکھی ہیں، ماحول میں ڈوب کر لکھی ہیں،میں پروپگنڈہ زدہ ترقی پسندی اور انتہا پسند جدیدیت سے ہمیشہ دور رہا، اپنے ماحول سے بے پرواہو کر لکھنا تو خلاء میں بھٹکنے کےسواکچھ بھی نہیں ہے ابہام واہمال زدہ تخلیقات کی ڈھیر پر کھڑے ہو کر چند نے اپنا قداونچا کرنا چاہا نتیجہوہی ہوا کہ جدیدیت کے سیلاب میں اپلانے والے خس وخاشاک آج لا پتہ ہیں"۔

نوٹ : اس تحریر کے لئے  کامران غنی اور اردو یوتھ فورم کے ہم شکر گذار ہیں کہ بیشتر معلومات وہیں سے اخذ کی گئی ہیں ۔


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 
You are Visitor Number : 1836