donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Rizwan Ahmad
Journalist
--: Biography of Rizwan Ahmad :--

 

 رضوان احمد 

Name: Rizwan Ahmad Khan 
Pen Name:- Rizwan Ahmad
Father's Name:- Hakim Mushtaq Ahmad Khan (Hakim Ghubar Bhatti)
Mother's Name:-   Rabeya Khatoon
Date of Birth:- 9,Setember, 1947
Place of Birth::- Muyee (Dist. Barabanki, Uttar Pradesh)
Date of Death:- 2011
Place of Lying: Shah Ganj Qabristan, Patna
اصل نام : رضوان احمد خاں
ولدیت : حکیم مشتاق احمد خاں (حکیم غبار بٹھی)
رابعہ خاتون
جائے پیدائش : ۹ ستمبر ۱۹۴۷
جائے پیدائش : موئی (ضلع بارہ بنکی، اتر پردیش)
رضوان احمد بہار کے ایک بے حد اہم اور معبتر اردو صحافی تھے انہوں نے بہار کی اردو صحافت کو ایک اعلیٰ معیار اور وقار بخشا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے صحافت کو کبھی تجارت نہیں سمجھا، بلکہ عبادت ریاضت اور مشن کے طور پر قبول کیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اردو صحافت عموماً آزادی ہند سے قبل تک ایک مشن تھی، بعد میں تجارت بن گئی۔ بے شک ایسا ہوا۔ لیکن آزادی ہند کے بعد ملک کے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و استبداد اور استحصال ہوتا رہا، اس کے خلاف نبرد آزما رہنا یہ ایک مشن ہی تھا اور ہے۔
رضوان احمد نے آزادیٔ ہند کے چوبیس دنوں بعد اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی میں واقع ایک بے حد معمولی گائوں موئی کے معمولی زمیندار گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔ ابتدائی تعلیم اسی گائوں کے ایک اوسط درجہ کے مکتب اسلامیہ میں اور پرائمری اسکول میں انہوں نے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ آگے کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے کانپور آئے، جہاں تین سال کے قیام کے دوران انہوں نے ارد گرد کی فیکٹریوں سے اٹھتے کالے دھوئیں میں طرح طرح کے ظلم اور ناانصافی دیکھی۔ ایک حساس ذہن نے اس کے خلاف اپنی بے حد ناتواں، آواز اٹھانے کی کوشش کی اور ایک ساتویں درجہ کے طالب علم نے اپنے احساس کی ترجمانی کے لئے ایک قلمی اخبار ’’اصلاح‘‘ نکالا۔ ٹوٹی پھوٹی زبان میں اس قلمی اخبار کے چار  پانچ شمارے نکلے۔ ان چار پانچ شماروں میں اس نو عمر صحافی نے اپنے اندر کی بھڑاس ہی نکالی ہوگی، لیکن یہ تو اندازہ ہو گیا کہ اس وقت کی یہ چنگاری آگے جا کر شعلہ بنے گی اور وہی ہوا۔ ان کے والد تلاش معاش کے لئے پٹنہ آگے تھے، کانپور کی فضا رضوان احمد کو راس نہیں، وہ گائوں آ گئے اور اپنے گائوں سے روزانہ نو میل کی مسافت سائکل سے طئے کر کے ہائی اسکول جاتے تھے اس اسکول میں اردو کی پڑھائی نہیں ہوتی تھی۔ لہٰذا انہیں ہندی اور سنسکرت پڑھنا پڑی۔ اسی زمانے میں انہوں نے تلسی داس کی رام چرتر مانس کے ساتھ ساتھ سوز، میرا بائی، کبیر اور رحیم خان خاناں کو دلچسپی کے ساتھ پڑھا۔ اس دوران ۱۹۶۱ میں ان کے دادا مولانا نثار احمد خاں نثار کا و صال ہو گیا اور رضوان احمد اپنے والد کے پاس پٹنہ آ گئے، جہاں کے مسلم ہائی اسکول میں داخل ہوئے، میٹرک یہاں سے کرنے کے بعد انٹر، بی۔اے۔ آنرز اور پٹنہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم۔ اے۔ کی تعلیم مکمل کی۔
والدین کی خواہش تھی کہ رضوان احمد ڈاکٹر بنیں، لیکن قدرت ان سے آمرانہ نظام کے خلاف کام لینا چاہتا تھا۔ ۱۹۶۵ سے ۱۹۷۵تک مسز عزیزہ امام کی سرپرستی میں ’’ماہنامہ زیور‘‘ پٹنہ سے نکالتے رہے، جس میں وہ خواتین کے حقوق کی پا مالی اور ان کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی استحصال کے خلاف صف آرا رہے تقریباً ہر شمارہ میں مناظرعاشق ہر گانوی کا قومی اور بین الاقوامی شہرت یافتہ خاتون پرمضمون شائع ہوتا۔ ’’آرسی‘ کے عنوان سے اداریہ ہوتا۔ ’’میرا صفحہ‘‘ کے عنوان سے رضوان احمد کا مختلف مسائل پربے حد اہم تبصرہ ہوتا۔ دسمبر ۱۹۷۳کے شمارہ میں ’’ہندی خواتین افسانہ نمبر‘‘ کا اعلان بھی ہوا۔ لیکن (غالباً) شائع نہیں ہو سکا۔ اس ماہنامہ کو ملک کی صف اول کی ادیبہ و شاعرات کا بھی تعاون حاصل تھا۔ عصمت چغتائی عفت موہانی، عطیہ پروین، ہاجرہ نازلی، واجدہ تبسم، صالحہ عابدحسین وغیرہ وغیرہ کی تخلیقات اکثر و بیشتر ’’زیور‘‘ میں نظر آتیں۔ اکتوبر ۷۳کے شمارہ میں رضوان احمد نے لکھا تھا—’’اردو رسالے کا مدیر آ ج کے دور کا سب سے مظلوم ترین طبقہ ہے ’’ ان کا جملہ آج بھی اسی شدومد سے قائم ہے۔
رضوان احمد اس وقت تک سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشرتی، اقتصادی ادبی اور لسانی مسائل کو بہت اچھی طرح سمجھنے لگے تھے۔ صحافتی تجربہ سے فائدہ اٹھانے کے لئے انہوں نے ۲۶ جنوری ۱۹۷۴سے ہفتہ وار اخبار ’’عظیم آباد اکسپریس‘‘ نکالنا شروع کیا۔ اس ہفتہ وار نے خوب تہلکہ مچایا۔ ان کے ادارئے ہر خاص و عام میں مقبول ہونے لگے۔ مصلحت پسندی، مفاد پرستی اور ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنے اندر کے احساسات و جذبات کی اس انداز سے ترجمانی کرتے کہ لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا کہ یہ ان ہی کے دل کی آواز ہے۔ شہرت اور مقبو لیت نے ان کے اندر مزید خود اعتمادی پیدا کر دیا اور انہوں نے ایک قدم اور آگے بڑھکر اپنے اس اخبار کو۱۹۸۰ سے روز نامہ میں تبدیل کر دیا۔ اس روزنامہ میں ان کے اداریوں کی دھوم مچ گئی۔ اس زمانہ میں ایسا لگتا تھا، جیسے سارا زمانہ ان کا فین ہے۔ ۱۹۹۳ سے انہوں نے اخبار سے علیحدگی اختیار کر لی اور۱۹۹۴سے ’’قومی تنظیم‘‘ میں ’’مجھے بولنے دو‘ کے عنوان سے کالم نگاری شروع کر دی۔ جو ہنوز جاری ہے۔ اس دوران وہ ۱۹۹۶ میں بہار اردو اکاڈمی کے سکریٹری بنائے گئے۔ ۲۰۰۱میںوائس آف امریکہ (اردو سروس) کے نامہ نگار ہو ئے۔ بی۔ بی۔ سی۔ (لندن) کے لئے بھی کئی سال تک کام کیا۔ ۲۰۰۶سے ان کے کالم ملک کے کئی بڑے اردو اخبارات مثلاً ’’قومی تنظیم‘‘ سیاست ، اتحاد، انقلاب، اردو ٹائمز، آگ، ہمارا سماج جدید خبر وغیرہ میں متواتر شائع ہو رہے ہیں۔
رضوان احمد نے اب تک جو کچھ لکھا ہے، وہ اردو صحافت میں قابل قدر اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے جس طرح معاشرے ، سماج اور سیاست کے تعفن کو اجا گر کیا ہے اور نیا سماج اور معاشرہ کی تشکیل و تعمیر میں جو رول ادا کیا ہے، وہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ رضوان احمد کے ہزاروں صفحات پر بکھر  ے اداریوں اور تبصروں کو چند صفحات پر سمیٹنا مشکل ہے، اس کے لئے پورا ایک دفتر چاہئے۔
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)
 
 
You are Visitor Number : 1937