donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Sheen Muzaffarpuri
Journalist
--: Biography of Sheen Muzaffarpuri :--

 

شین مظفر پوری 

Name: Md.Waliur Rahman
Pen Name:- Sheen Muzaffarpuri
Father's Name:- Hafiz Md. Aainul Haq
Date of Birth:- 15, July 1920
Place of Birth::- Bath Asli (Sitamadhi)
Date of Death:- 14, August 1996
Place of Lying: Bath Asli (Sitmadhi)
 
اصل نام : محمد ولی الرحمن
ولدیت : حافظ محمد عین الحق
تاریخ پیدائش : ۱۵ جولائی ۱۹۲۰
جائے پیدائش : باتھ اصلی (سیتا مڑھی)
تاریخ وفات : ۱۴اگست ۱۹۹۶
مدفن : آبائی قبرستان، باتھ اصلی (سیتامڑھی)
شین مظفر پوری کا صحافتی سفر ۱۹۴۱سے دربھنگہ سے شائع ہونے والا ماہنامہ ’’ہمالہ‘‘ سے شروع ہوا اور دسمبر ۱۹۹۳میں بہار اردو اکاڈمی کے ادبی رسالہ ’’زبان وادب‘‘ کے ساتھ ختم ہوا۔ اس طرح شین مظفر پوری کی صحافتی زندگی پانچ دہائیوں پر محیط ہے۔ ان پچاس برسوں میں بذات خود شین مظفر پوری کی فراہم اطلاع کے مطابق—
’’…۱۶/۳۰×۲۰ سائز کے کم از کم دس ہزار صفحات کے اخباری ایڈیٹوریل پانچ سو صفحات سے بھی زیادہ صفحات کے اخباری طنز و مزاح، تخمینا ایک ہزار صفحات کے ادبی ادارئے، اندازا ایک لاکھ صفحات کے اخباری ترجمے لکھ چکا ہوں—‘‘
(خود نوشت تہنیت نامہ ش۔م۔ مریخ، جولائی ۱۹۸۸ئ؁)
اور اتنے سارے صحافتی صفحات لکھنے کا صلہ کیا ملا، یہ بھی دیکھئے— شین مظفر پوری اپنی خود نوشت’’ رقص بسمل‘‘ میں اپنے کرب کا اظہار یوں کرتے ہیں۔
’’…واضح رہے کہ زندگی میں میری سب سے زیادہ تحقیر و توہین اور حق تلفی تینوں ساتھ ساتھ بہار اردو اکاڈمی، پٹنہ میں ہوئی، بلکہ برسوں تک ہوتی رہی…‘‘
(خود نوشت’’رقص بسمل۔ ش۔م)
شین مظفر پوری کی حق تلفی کا سلسلہ ، ان کے انتقال کے بعد بھی جاری ہے اتنے سال گزر گئے، لیکن ان پر کوئی خاص نمبر نہیں، کوئی مونو گراف نہیں اور کوئی شام نہیں— نہ ہی ان کے نام پر کوئی ایوارڈ۔
شین مظفر پوری کی حق تلفی، تحقیر و توہین کی وجوہات تلاش کئے جائیں تو سب سے اہم اور بڑی وجہ یہ نظر آئیگی کہ شین مظفر پوری نہ صاحب ثروت تھے نہ ہی صاحب منصب— وہ ایک سید ھے سادے، منکسر لمز اج، نیک دل اور شرافت و ایمانداری کے پیکر تھے۔ ظاہر ہے ان ساری خصوصیات کے رہتے ہوئے، عصر حاضر میں ثروت و منصب کہاں سے ملتا؟ شین مظفر پوری نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ۔کلکتہ یونیورسٹی سے ۱۹۳۷ میں فرسٹ ڈویژن سے میٹرک پاس کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ایک ذہین طالب علم تھے، اگر وہ آگے تعلیم جاری رکھتے تو کامیابیاں یقینا ان کے قدم چومتی۔ لیکن معاشی طور پر وہ اس لائق نہیں تھے کہ اپنی تعلیم آگے جاری رکھ سکے اور وہ اپنی خدا داد صلاحیتوں سے اردو فکشن و صحافت کی خدمات سے اپنی گزر بسر کا سامان کرنے لگے۔ ذریعہ معاش کے لئے انہوں نے کلکتہ ، کانپور، دربھنگہ، دہلی، لاہور، کراچی اور پھر پٹنہ تک کی دھول اڑائی۔ مغلوک الحالی اور بے سرو سامانی ان کی زندگی کے ساتھ ساتھ رہی۔ ادب و صحافت سے ان کا گہرا لگائو تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے خاندان کے گزر اوقات کے لئے ریلوے کی نوکری چھوڑ کر تاحیات قلم کی مزدوری کرتے رہے اور اپنی بے پناہ صحافتی صلاحیتوں کے نقوش ہمالہ (دربھنگہ)، فلم لائٹ (دہلی)، آرٹسٹ (دہلی)، مسلم (لاہور)، نورجہاں (لاہور)، آبشار (لاہور)، مضراب (کراچی)، جنگ (کراچی)، اخوت (کلکتہ)، کارواں (کلکتہ) نقاش (کلکتہ)، مرقع (کلکتہ) عصر جدید (کلکتہ)، ہند (کلکتہ) سنگم (کلکتہ۔ پٹنہ) ہاتف (پٹنہ)، ہمارا بہار (پٹنہ)، قومی دھارا (پٹنہ) فکر جمیل (پٹنہ ) خبر نامہ (پٹنہ) اور زبان و ادب (پٹنہ) جیسے اخبار و رسائل میں چھوڑے ہیں۔ افسوس کہ اس وقت میرا موضوع صرف صحافیوں کا تعارف کرانا ہے، ان کی صحافتی خدمات پر روشنی ڈالنا نہیں، ورنہ ان کے دس ہزار صفحات ہر لکھے صرف ایڈیٹوریل پر نظر ڈالی جائے تو پانچ سو صفحات پرتو ضرور ہی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ افسوس کہ ان کی صحافت نگاری پر اب تک کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔ ویسے سنا ہے کہ رانچی یونیورسٹی نے حسن رضا کو ’’شین مظفر پوری: شخصیت اور کارنامے‘‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھنے پر ڈائرکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔ اس تحقیقی مقالہ کی تلخیص ہی شائع ہو جاتا تو بھی کسی حد تک حق ادا ہوتا، جو نہ ہو سکا۔
شین مظفر پوری جیسے با صلاحیت اورخود دار صحافیوں کی وجہ کر ہی بہار کی اردو صحافت کی عظمت بچی ہوئی ہے۔
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)
 
 شین مظفرپوری 
نام:محمدولی الرحمٰن
قلمی نام:شین مظفرپوری ،ابتدائی دور میںشیدااورش مظفرپوری کے نام سے کہانیاں لکھتے تھے،
والد کا نام:حافظ محمد عین الحق ،مرحوم،
تاریخ ولادت : ۱۵،جولائی ۱۹۲۰ء
مستقل پتہ: موضع وڈاکخانہ باتھ اصلی وایا رائے پور،ضلع سیتامڑھی۔
اقامتی پتہ:نواب لاج مراد پور، پٹنہ،
تعلیم : میٹرک
اعزازات وانعامات: راشٹربھاشا پریشد اور بہار اردواکادمی نے ادبی خدمات کے سلسلے میں ایوارڈ دئے اتر پردیش اردو اکادمی نے دو کتابوں پر اور بہار اردو اکادمی نے ایک کتاب پر انعام دیا، 
مشغلہ: فی الحال بہار اردو اکادمی کے رسالہ زبان وادب کی ادارت کررہے ہیں، ماضی میں کلکتہ ،دلی، لاہور، کراچی اور پٹنہ میں متعدد اخبارات ورسائل کی ادارت کی خدمات انجام دے چکے ہیں، دوتین نیوز میگزین خود بھی جاری کیا تھا لیکن معاشی کمزوری کے باعث یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا، لکھنے اور پڑھنے سے جنون کی حد تک لگائوہے، 
پہلاافسانہ: ’’بیروزگاری‘‘ کے عنوان سے کلکتہ کے ایک ہفتہ وار’’ہند‘‘۱۹۳۸ء میں چھپا تھا۔
افسانوں کی تعداد : کم وبیش تین سو،
رسائل کے نام جن میں افسانے شائع ہوئے:’’عالمگیر‘‘لاہور‘‘ خیام‘‘ لاہور‘‘ ادب لطیف‘‘ لاہور‘‘ ادبی دنیا‘‘ لاہور‘‘ شمع‘‘ دہلی‘‘ آج کل‘‘ دہلی‘‘ زبان وادب ‘‘ پٹنہ‘‘ مریخ‘‘ پٹنہ ‘‘ صنم‘‘ پٹنہ ‘‘ نگار‘‘ لکھنؤ‘‘ ہمالہ‘‘ دربھنگہ‘‘ ظفر‘‘ ممبئی‘‘ وغیرہ کے علاوہ بر صغیر کے بے شمار اخبارورسائل ۔
افسانوی مجموعے: سات،۱۔آوارہ گرد کے خطوط، دوسراایڈیشن بندکمرہ‘‘ کے نام سے ۱۹۴۵ء،۲۔ دکھتی رگیں،۱۹۵۶ء،۳۔ کڑوے گھونٹ، ۱۹۴۶ء، ۴۔لڑکی جوان ہوگئی، ۱۹۵۶ء،۵۔دوسری بدنامی ،۱۹۶۵ء، ۶۔حلالہ،۱۹۷۶ء،۷۔ طلاق طلاق طلاق،۱۹۸۷ء۔
دیگر تصنیفات: ۱۔فرحت ،ناولٹ،۱۹۴۸ء ۲۔ہزار راتیں ،ناول ۱۹۵۵ء ،۳۔چاند کاداغ ،ناول ۱۹۵۶ء، ۴۔کھوٹہ سکہ ،ناول ،۱۹۶۱ء، ۵۔ تین لڑکیاں ایک کہانی ،ناولٹ ،۱۹۵۹ء، ۶۔آدھی مسکراہٹ دانشایئے خاکے، ۱۹۸۰ء،۷۔خون کی مہندی ،ڈرامے،۱۹۸۴ء، ۸۔بچوں کیلئے دو کتابیں ۔
اخبارات ورسائل میں بہت سے فلمی، سماجی سیاسی مضامین کے علاوہ طنزومزاج کے کالم میں بے شمار چیزیں۔
بہت سی کہانیوں کے ترجمے ہندی ،گجراتی، مراٹھی اسامی، پنجابی اور انگریزی میں ہوچکے ہیں ،
ابتدامیں انہوں نے خود بھی ہندی اور انگریزی کی کچھ کہانیوں کے ترجمے کئے تھے۔
شین مظفرپوری تقریبا پچاس پچپن برسوں سے لکھ رہے ہیں انہوں نے بہار میں اردو افسانہ نگاری کے دوسرے دور سے لکھنا شروع کیا اور اب افسانہ نگاری کے چوتھے دور میں پہنچ چکے ہیں، لیکن اھی تک ان کا قلم تھکا نہیں ہے۔ افسانہ نگار اور ناول نگار دونوں حیثیتوں سے ان کا نام معتبر ومحترم بن چکا ہے، بہار میں ان سے زیادہ لکھنے والا شاید ہی کوئی نثر نگار ہوانہوں نے ایک جگہ لکھاہے ،چھوٹے بڑے کم ازکم تین سو افسانے، دو ناولٹ ، تین ناول سیکڑوں مضامین، بچوں کیلئے دو کتابیں اور تین کہانیاں ، پچیس ڈرامے ، پچاس انشایئے خاکے وغیرہ۔ 
۳۰۔۲۰ سائز کے کم از کم دس ہزار صفحات کے اخباری ایڈٹیوریل پانچ سو صفحات سے بھی زیادہ صفحات کے اخباری طنز ومزاج تخمینا ایک ہزار صفحات کے ادبی ادارے ، انداز اً ایک لاکھ صفحات کے اخباری ترجمے ایک چوتھائی شوٹنگ کے بعد دم توڑ دینے والی فلم کا مکمل اسکرپٹ ٹی وی کے لئے بند ہوتے ہوتے رہ جانے والا ایک پلے، فرضی ودیگر کئی ناموں سے کئی درجن پیشہ ورانہ افسانے ڈھائی سو صفحات کا ایک اور غیر مطبوعہ ناول ایک محتاط انداز ے کے مطابق کم وبیش پچاس ہزار مختصر اور طویل خطوط لکھ چکا ہوں، شین مظفرپوری کے افسانوں میں گھر یلو زندگی کی ناہمواریاں، معاشی ناآسودگی، سماجی نابرابری، اخلاقی زوال کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ فسادات اور جنسی مسائل جیسے موضوعات کثرت سے ملتے ہیں بعض کہانیوں میں انہوں نے نفسیاتی گتھیوں کو بھی سلجھا نے کی کوشش کی ہے۔ جہیز پر ان کی بہت ساری کہانیاں آچکی ہیں، ان کے افسانوں سے ان کے وسیع اور گہرے مشاہدہ کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں ہمیشہ شمالی بہار کے دیہات کو لیا ہے، کردار عام طور پر غریب اور نچلے درمیانی طبقے کے ہوتے ہیں اور معاشرتی ماحول مسلم گھرانوں کا ہوتا ہے۔چونکہ انہوں نے شمالی بہار کو بہت قریب سے دیکھا ہے غریب اور نچلے طبقے سے برابر سابقہ پڑتا رہا ہے، مسلم گھرانوں کے معاشرتی ماحول سے کافی لگائو رہا ہے اس لئے ان کے یہاں زیادہ تر ان ہی کرداراور ماحول کی عکاسی ملتی ہے ان کے یہاں غیر مسلم کرداروں پر افسانے ڈرامے اور ناول وغیرہ نہ کے برابر ہیں، ان کی کہانیوں میں جابجا لطیف جنسی اور رومانی چاشنی کے استعارے بھی ملتے ہیں، مختصر یہ کہ وہ کسی خاص موضوع یا مسئلہ پر نہیں لکھتے ہیں بلکہ ان کی کہانیاں رنگارنگ ہوتی ہیں انہوں نے خود ہی لکھاہے۔
میں کسی خاص موضوع یا مسئلہ پر افسانے نہیں لکھتا میرے افسانے رنگارنگ ہیں عام طور پر سماجی مسائل، انسانی نفسیات، حادثات، سیاسی غلط کاریاں وغیرہ میرے عام موضوعات ہیں ،خداترسی اور خد اپرستی اور روحانی احساسات میرے فکر وفن میں under curreut محرکات کی حیثیت رکھتے ہیں، عام طور پر شین مظفرپوری کی کہانیوں کے پلاٹ سیدھے سادے ہوتے ہیں اس میں کوئی الجھائو نہیں ہوتا ہے ماجر انگاری ان کی سب سے بڑی خوبی ہے انہوں نے ترقی پسند تحریک کے اثرات قبول کئے اس موضوع پر بہت ساری کہانیاں بھی لکھیں لیکن اس کے باوجود افسانہ نگاری کے فنی مطالبات کو کبھی نظر انداز نہیں کیا، جدید افسانے کادور آیا ، شعور کی روپر کہانیاںلکھی جانےلگیں، افسانہ نگاری کے فنی لوازم کو چھوڑ کر لوگ علامتی، تمثیلی اور تجریدی کہانیاںلکھی جانے لگیں، افسانہ نگاری کے فنی لوازم کو چھوڑ کر لوگ علامتی، تمثیلی اور تجریدی کہانیاں لکھنے لگے اس وقت بھی ان کا طرز تحریرنہیں بدلا، وہ کہانی میں قصہ پن کے ہمیشہ قائل رہے، آدھی رات کے سناٹے میں دروازے پر دستک کی آوازنے گورے کو چونکا دیا، دوسری بار ذرا زور سے دستک ہوئی تو گورے کی ماں بھی جاگ پڑی، وہ ڈرے ہوئے لہجے میں بڑبڑائی، ذرادیکھ  اے گورے! کون دروازہ پیٹ رہا ہے۔ 
ہوگا کوئی، وہ بظاہربے پروائی سے بولا، آخر کون ہوگا اتنی رات گئے؟
شیطان ویطان ہوگا، پھردستک ہوئی، اس بارذراجھنجھلاہٹ سے ،ذرا دیکھ تو سہی کون ہے۔کون ہے، پکارتا ہوا گورے کھٹیا پر اٹھ بیٹھا۔
’’کینسرکینسر‘‘
شین مظفرپوری صاحب کی ایک اور خوبی یہ کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اجتماعی مسائل پر زوردیا انفرادی مسائل پر انہوں نے بہت کم توجہ دی ان کے زیادہ تر افسانے بدلے ہوئے سماجی رویوں کی عکاسی کرتے ہیں ان کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ایک ہی موضوع کے مختلف پہلوئوں پر قلم اٹھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے افسانے کافی مقبول ہو جاتے ہیں اس کی اچھی مثال ان کے افسانوی مجموعے ’’طلاق طلاق طلاق‘‘ کی کہانی’’ماجراجو گزرگیا‘‘چمپا چمیلی کارواں‘‘ سرخ لہو اور سفید دودھ‘‘ ودیا نگر کی مسجد‘‘اور ’’دوسرارخ ہے‘‘ ان سبھی کہانیوں میں انہوں نے فرقہ وارانہ فسادات کے مختلف پہلوئوں کو پیش کیا ہے۔ شریعت پر بھی انہوں نے بہت سی کہانیاں لکھی ہیں جو کافی مقبول بھی ہوئی ہیں ’’حلالہ ‘‘اور’’طلاق طلاق طلاق ‘‘وغیرہ تو اس موضوع پر لکھی گئی ان کی مقبول ترین کہانی ہے۔
شین مظفرپوری کی زبان سادہ، رواں اور پرتاثیر ہوتی ہے مقامی الفاظ کا برمحل استعمال ہوا ہے جیسے اوسارا ،گھمواں، بھربھرا ،گمچھا، ٹٹولنا وغیرہ عبدا مغنی صاحب نے اس سلسلے میں ٹھیک ہی فرمایا ہے۔ فنی اعتبار سے بھی شین مظفر پوری ایک کامیاب افسانہ نگار ہیں وہ ترتیب ماجراا ور تعمیر عروج کا گرجانتے ہیں اور اپنے قارئین کو دلچسپ قصے سناسکتے ہیں، اس کامیاب فنکاری میں شین کا اسلوب تحریر بہت ہی کارگر ہے وہ نہایت سلیس ونفیس اور پختہ وشستہ نثر لکھتے ہیں۔ مختصر یہ کہ شین مظفرپوری نہ صرف بہار کے بلکہ برصغیر کے مشہور ومعروف نثر نگارہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ ابھی تک ان پر بہت کم لکھا گیا ہے ان پر بہت کچھ لکھا جاناباقی ہے رانچی یونیورسٹی کے ایک صاحب نے ان کی حیات اور افسانہ نگاری پر ۱۹۸۵ء میں پی ایچ ڈی کا مقالہ تیار کیا ہے لیکن وہ بھی ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا ہے۔
 
’’بشکریہ بہار میں اردو افسانہ نگاری ابتدا تاحال مضمون نگار ڈاکٹر قیام نیردربھنگہ‘‘’’مطبع دوئم ۱۹۹۶ء‘‘
 

BIOGRAPHY OF  LATE "SHEEN MUZAFFARPURI"


Wali-ur-Rahman ‘Shaida’ (Sheen Muzaffarpuri) was born in 1920 in a village Baath Asli in Nanpur of Sitamarhi subdivision in the then district of Muzaffarpur in north Bihar. Even though he experimented with all genres of creative oeuvres, he was essentially a fiction writer, with no formal education. He published around 10 collections of short stories. Starting in 1937 he published his first collection of short stories, “Awarah Gard Ke Khutut” (Letters of a Bohemian) in 1946, which finds resonance with the wrings of Saadat Hasan Manto. The second edition of this collection was published under the title “Band Kamray” (Closed Rooms). Besides, he also published three novels Hazaar Raatein (Thousand Nights) 1955, Khota Sikka (Fake Coin)1961 and Garm Raakh (Hot Ash), which remained incomplete; and two novelettes namely, Farhat (Joy) 1949 and Teen Larkiyan Ek Kahaani (Three Girls, A Story) 1959... When he started his journey of creative writing, it was an assertively popular age of the Progressive Writers, which had an influence on him even though he never became a part of it formally. His stories therefore carry the issues of social inequalities, class conflicts, capitalist and feudal exploitations, and deprivations of the underprivileged. He also addressed the issues of criminality, corrupt and inefficient policing and flawed-exploitative judicial system. His story ‘Kya Jeena Kya Marna’ (What to live and die for) 1981 is precisely treating this issue with Sarju Ustad being the criminal character of the story, who garners enough social support despite having committed the horrible crime of killing Hatim Miyan, and after a judicial trial, because of the social support the criminal, comes out unpunished. Sheen himself belonged to a family of lower/poor peasantry. This class location gets reflected in his stories with simple and candid language, symbols, similes, metaphors, and imageries. He edited many journals/periodicals in Calcutta, Patna, and Delhi. The Partition of 1947 left strong impact on him that led him to narrate his tales in his memoir ‘Raqs-e-Bismil’ (Dance of the Wounded) 1995. As he was also the editor of ‘Zaban-o-Adab’, the literary monthly of the Bihar Urdu Academy, the Nov-Dec 1996 issue of the journal devoted a special section on him in his commemoration...!!!

By : Ahmad Helal, Son of Janab Sheen Muzaffarpuri

 
You are Visitor Number : 3010