donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On National Issue
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Rahul Badal Gaye Magar Kya Congress Bhi Khud Ko Badlegi


راہل بدل گئے مگر کیا کانگریس بھی خود کوبدلے گی؟


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    ان دنوں راہل گاندھی کے انداز بدلے بدلے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ ایک جمہوری ملک کے شہزادے کے بجائے خود کو عام آدمی کا ہمدرد بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ وہ لینڈ اکویزیشن بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔ وہ کسانوں سے مل رہے ہیں اور عام لوگوں کے قریب جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کے اندر بھی زبان کھول رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ راہل گاندھی بدل کیسے گئے؟ اور کیا وہ بدلے ہیں یا ان کی پارٹی بھی بدل گئی ہے؟ کیا یہ عقل اس لئے آگئی ہے کہ وہ اپوزیشن میں چلے گئے ہیں اورسابقہ کانگریس سرکارکو اس کی غلطیوں کی سزا عوام نے دے دی ہے؟یہ بدلائو کیا صرف اس وقت تک رہے گا جب تک کانگریس اپوزیشن میں ہے؟ ایک طویل انتظار کے بعد راہل گاندھی واپس آئے ہیں اور آتے ہی پارلیمنٹ میں تقریر کے ذریعے وہ چھا گئے۔ ان کے انداز بدلے بدلے دکھائی دیئے اور وہ ایک الگ قسم کے راہل لگے جو اس راہل سے مختلف ہے جسے اس ملک کے عوام وخواص جانتے ہیں۔انھوں نے پارلیمنٹ میں جو تقریر کی اسے میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک سراہا گیا اور سب نے محسوس کیا کہ ایک دنیا کے کئی ملکوں کے دورے اور گیان دھیان نے انھیں بدل دیا ہے۔ وہ ایک مدت سے غائب تھے اور پارلیمنٹ کے بجٹ سشن میں نہیں دیکھے گئے۔ ان کی غیر موجودگی میں ان کے پارلیمانی حلقے امیٹھی میں ’’تلاش گمشدہ‘‘ کے پوسٹر لگ گئے۔مخالفین ان کا مذاق اڑاتے رہے اور کانگریس پر طنز کرتے رہے مگر کانگریس کی طرف سے یہ واضح نہیں کیا گیا کہ راہل کہاں ہیں۔ آخر کار وہ واپس ہوئے تو لوگوں کو خوشی کے ساتھ حیرت ہوئی کہ وہ بہت بہت بدلے بدلے تھے۔ میڈیا نے خبریں دیں کہ وہ تھائی لینڈ میں کہیں میڈیٹیشن کر رہے تھے اور دوسرے کچھ ملکوں کے دورے بھی کئے۔ ادھر بھارت میں کانگریس کے اندر اختلاف نظر آرہا تھا کہ راہل کو کانگریس کا صدر بنایا جائے یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ راہل کی صلاحیتیں خود کانگریسیوں کی نظر میں مشکوک ہیں اور ان کے مخالفین انھیں ویسے بھی ’’پپو‘‘ کہتے رہے ہیں۔ راہل نے کبھی خود کو ثابت نہیں کیا اور ان کی ماں تک ان پر بھروسہ نہیں کرپائیں۔ راہل کو سیاست کا سبق سکھانے کے لئے دنیا بھر کے ماہرین کی خدمات لی گئیں مگر انھوں نے اپنے خیرخواہوں کو مایوس ہی کیا مگر پارلیمنٹ میں اپنی حالیہ تقریر میں انھوں نے تو چمتکار ہی کردیا۔ حالانکہ کہا جارہا ہے کہ انھوں نے اپنی تقریر لکھنے والوں کو بدل دیا ہے ،ممکن ہے یہ بات سچ بھی ہو مگر تقریر کے دورا ن جس طرح سے انھوں نے برجستہ جواب دیئے، وہ کسی لکھی ہوئی تقریر کا حصہ نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے ایک جگہ کہا’’ آپ کے پی ایم‘‘ اس پر بی جے پی کے ممبران کی طرف سے ٹوک ٹاک ہوئی اور کہا گیا کہ’’ ملک کے پی ایم‘‘کہیے۔ اس پر راہل نے برجستہ کہا کہ آپ ملک کا حصہ نہیں ہیں۔ ظاہر ہے یہ بات کسی ٹریننگ سے نہیں آتی ہے۔ اس تقریر کے دوسرے ہی دن راہل نے انٹرنیٹ کے سوال پر مودی سرکار کو گھیرنے کی کوشش کی۔

آگئے راہل ،چھا گئے راہل

    یہ سوٹ بوٹ کی حکومت ہے۔ آپ کی حکومت بڑے لوگوں کی حکومت ہے۔ ان الفاظ کے ساتھ کانگریس نائب صدر نے لوک سبھا میں مودی حکومت پر زور دار حملہ بولا۔ گزشتہ سال کے انتخابات کے بعد پہلی بار سیاسی طور پر واپسی کرتے ہوئے راہل نے الزام لگایا کہ مودی حکومت صنعت کاروں کے لئے کسانوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔ راہل کے بدلے تیور اور تیکھی تقریر کے بعد کانگریس کے حلقوں میں بھی سوال پوچھے جا رہے ہیں کہ ان کی تقریر کس نے لکھی تھی؟ راہل نے وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری کو ان اس بیان کے لئے آڑے ہاتھوں لیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کسانوں کو خدا یا حکومت کے آسرے نہیں رہنا چاہئے۔ سوٹ بوٹ کی حکومت والے راہل کے بیان پر جب بی جے پی ممبران پارلیمنٹ نے اعتراض جتایا، تو راہل نے کہا، 'چلو سوٹ کی بات ختم ہو گئی ہے۔آپ نے اسے نیلام کر دیا ہے۔ اب میں اس کی بات نہیں کروں گا. اب تو خوش؟ راہل نے مزید کہا، مودی کو صنعت کاروں اور طاقتور لوگوں کا ساتھ چھوڑ کر کسانوں اور مزدوروں کے پالے میں آ جانا چاہئے۔ اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔راہل نے اپنی بات اعداد و شمار کی بنیاد پر زوردار طریقے سے رکھی اور کھیتی باڑی پر خاصا توجہ کیا۔راہل کی تقریر میں ایک بڑا سیاسی پیغام تو تھا ہی، وہ اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ تقریبا ایک دہائی کی پارلیمانی زندگی میں یہ پارلیمنٹ میں ان کی چوتھی تقریر تھی۔ لوک سبھا میں راہل کے ارد گرد جیوتی رادتیہ سندھیا، گورو، راجیو ساٹو، اشوک چوان اور کچھ دیگر اہم کانگریسی لیڈر موجود تھے، جو وقت وقت پر انہیں مشورہ دے رہے تھے۔ کانگریس کے ذرائع نے کہا کہ راہل ان کے لیڈر ہیں اور اگر وہ اپنے ساتھیوں سے رہنمائی لے رہے ہیں تو اس میں برا کیا ہے۔

    راہل کی تقریر مکمل ہونے کے بعد سندھیا نے ٹی وی چینلوں سے کہا، 'انہوں نے ان (بی جے پی) کو خاموش کر دیا تھا۔راہل کی تقریر کے بعد کانگریس صدر سونیا گاندھی نے کہا کہ بیٹے کی تقریر سے وہ خوش ہیں۔کانگریسی لیڈروں نے دعویٰ کیا کہ اب انہوں نے بی جے پی کو بیک فٹ پر دھکیل دیا ہے۔راہل نے جب بی جے پی پر الزام لگایا کہ اس کی حکومت کے وزیر الگ الگ حقیقتیں پروستے رہتے ہیں تو کانگریس ممبران پارلیمنٹ نے خوشی میں میزیں تھپتھپائی۔راہل نے یکے بعد دیگرے کئی معاملات پارلیمنٹ میں اٹھائے اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ پپو اب پپو نہیں رہا۔
تقریر کس نے لکھی؟

    راہل کی پارلیمنٹ کے اندر کی تقریر وں اور کئی ایشوز کو اٹھانے کے سبب کانگریس کے حلقے میں خوشی ہے۔اس درمیان، کانگریس کے سینئر لیڈر راحت کی سانس لے رہے ہیں کہ راہل نے پہلے سے بنائی گئی سکرپٹ کے مطابق اچھا مظاہرہ کیا۔کانگریس میں اب سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آخر ان کی تقریر لکھ کون رہا ہے؟ ایسا مانا جاتا ہے کہ ابھی تک موہن گوپال راہل کی تقریر لکھتے رہے ہیں۔تاہم، اس بار بحث ہے کہ ان کی تقریر کے پیچھے کوئی نوجوان لیڈر ہے۔سب سے زیادہ نام کانگریس کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے انچارج سرجیوالا کالیا جارہاہے۔حالانکہ سرجیوالا کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی الگ الگ کانگریسی لیڈروں سے بات چیت کرتے ہیں لیکن ڈرافٹ ان کا خود کا ہوتا ہے۔وہ خود جو محسوس کرتے ہیں وہی دل سے بولتے ہیں۔جو آپ دیکھتے اور سنتے ہیں وہ زبان، انداز اور الفاظ تمام راہل گاندھی کے ہیں۔ سرجیولا کا جواب اپنی جگہ پر تاہم، لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے وہ کئی بار سکرپٹ کو دیکھنے کے لئے لمبا گیپ لیتے نظر آئے تھے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کانگریس صدر کے عہدہ پر قابض ہونے کی تیاری کر رہے راہل گاندھی نے اپنی پوری ٹیم بدل لی ہے۔انہوں نے وہ لوگ بھی بدل لئے ہیں جو ان کی تقریر لکھتے تھے۔ کانگریس کے ایک دوسرے ترجمان م، افضل نے بھی اس بات سے صاف انکار کیا کہ راہل تحریری تقریر پڑھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ راہل گاندھی پوائنٹ ضرور لکھتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر بولتے ہیں۔کانگریس کے ترجمان نے کہا کہ پارلیمنٹ میں جس طرح سے راہل گاندھی نے ریسپانس کیا اس سے آپ کو کہاں لگا کہ ان کی تقریر تحریری تھی۔

    بہرحال طویل چھٹی کے بعد واپس آئے کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کی  20 اپریل کو 16 ویں لوک سبھا میں کی گئی پہلی تقریر بحث میں ہے۔ قریب 20 منٹ کے ان کی تقریر میں محض جارحیت نہیں تھی بلکہ راہل 'سوٹ بوٹ کی حکومت'، 'بڑے لوگوں کی حکومت' اور 'آپ کے پی ایم' جیسے الفاظ کا استعمال کر پورے اعتماد سے طنز اور وینگ کا سہارا بھی لے رہے تھے۔بی جے پی لیڈر وینکیا نائیڈو نے حالانکہ اسے ’’شیطان کے منہ سے پروچن‘‘ جیسا بتایا ہے، لیکن کانگریسی راہل کی تقریر سے خوش ہیں۔ ایسے میں ہرکوئی یہ جاننے کے لئے بے چین ہے کہ آخر راہل کے اس بدلے انداز کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

راہل نے انٹرنیٹ کی آزادی کا مسئلہ بھی اٹھایا

    کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے لوک سبھا میںانٹرنیٹ کی آزادی کا مسئلہ اٹھایا۔ انہوں نے مرکزی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ انٹرنیٹ کو بھی کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھوں فروخت کر رہی ہے جبکہ یہ پورے ملک کے نوجوانوں کا حق ہے۔راہل گاندھی نے کہا کہ روزگار اور کھانے کے حقوق کی بات ہوتی ہے، ویسے ہی ہر نوجوان کو نیٹ کا حق ملناچاہئے۔ مودی حکومت انٹرنیٹ کو بھی بڑے بڑے صنعت کاروں کو بانٹنا چاہتی ہے۔ تقریبا ایک ملین لوگوں نے اس کے خلاف اپیل کی ہے۔ میری حکومت سے اپیل ہے کہ انٹرنیٹ کے لئے قانون میں تبدیلی کریں۔راہل گاندھی کی اس تجویز پر حکومت نے ایوان میں صفائی دی۔ انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے وزیر روی شنکر پرساد نے ایوان کو یقین دلایا کہ مرکزی حکومت انٹرنیٹ کو لے کر سنجیدہ ہے اور ملک میں نیٹ کا مستقبل محفوظ ہے۔روی شنکر پرساد نے کہا، 'اس تنازعہ کے آغاز سے پہلے ہی ہماری حکومت نے کہا ہے کہ ہم نوجوانوں کے جذبات کی قدر کرتے ہیں۔مودی حکومت نے ڈیجیٹل انڈیا کی شروعات کی ہے۔ ہم ملک کے ہر شہری کو نیٹ سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ مسئلہ معلوم ہونے کے بعد حکومت نے جنوری 2015 میں کمیٹی بنائی تھی۔ یہ کمیٹی مئی کے دوسرے ہفتے میں رپورٹ دے گی۔ ٹرائی کو سروے کرنے کا حق ہے، پر فیصلہ روی شنکر پرساد اور نریندر مودی کی حکومت کو کرنا ہے۔ میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری حکومت 125 کروڑ عوام تک نیٹ کو پہنچانا چاہتی ہے،اور سب سے اہم بات یہ کہ ہماری حکومت نہ کسی کارپوریٹ کے دباؤ میں آتی ہے، نہ ہی آئے گی۔غورطلب ہے کہ کسانوں کے مسئلہ پر لوک سبھا میں زوردار طریقے سے آواز اٹھانے کے بعد کانگریس نے انٹرنیٹ کی آزادی کے معاملے پر بھی حکومت کو گھیرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    اس دوران راہل گاندھی نے کیدارناتھ کی یاترا بھی کی،جس کے کئی مفہوم نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ سنگھ پریوار کی ہندتو کے جواب میں راہل نے بھی ’’ہندواور ہندی‘‘ کی راہ پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ویسے کانگریس کے لئے یہ کوئی نہیں بات نہیں ہے۔ اس نے ہمیشہ سے نرم ہندوتو کی پالیسی اپنارکھی ہے جو بھارت کے ماحول کی مناسبت سے اسے ٹھیک لگتی ہے۔

راہل کی تاجپوشی کب ہوگی؟

    راہل گاندھی ایک مدت تک ملک سے غائب رہے۔ اس دوران خبر اائی کہ وہ اپنی ماں سے ناراض ہوکر گئے ہیں اور اس وقت تک نہیں آئیں گے جب تک کہ انھیں پارٹی کا صدر بنانے کا فیصلہ نہیں لیا جاتا۔ اب اطلاع ہے کہ مستقبل میں کسی مناسب وقت پر انھیں پارٹی صدر بنادیا جائے گا۔ حالانکہ شیلادکشت سمیت پارٹی کے بہت سے سینئر لیڈران اس کے خلاف ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ راہل میں قائدانہ صلاحیت کی کمی ہے اور وہ کانگریس کا بیڑا غرق کردیں گے۔ بہر حال اب کوشش چل رہی ہے کہ ان کے نام پر اتفاق رائے قائم کیا جائے اور جن لوگوں کی مخالفت کی خبریں آرہی ہیں انھیں کی زبان سے ان کا نام پیش کرایا جائے۔ کانگریس کے نوجوان لیڈر سچن پائلٹ نے مانا ہے کہ اتفاق رائے بننے کے بعد راہل گاندھی کانگریس کے صدر بن جائیں گے۔ اس مسئلے پر اب تک کچھ نہیں بولنے والے پائلٹ نے کہا کہ بغیر اتفاق رائے کے یہ فیصلہ نہیں ہوگا۔


رابطہ

Email:ghaussiwani@gmail.com
Facebook/Ghaus Siwani

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 746