donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Asam Assembly Intekhabat Se Qabal Firqa Parasti Ke Khooni Khel Ki Taiyari


آسام اسمبلی انتخابات سے قبل فرقہ پرستی کے خونی کھیل کی تیاری؟


تحریر:غوث سیوانی، نئی دہلی


    آسام میں کانگریس اپنی سرکار بچا پائے گی؟کیا مولانا بدرالدین اجمل کی اے آئی یو ڈی ایف اپنی سیٹوں میں اضافہ کرسکے گی یا پھر بی جے پی یہاں بازی مارنے میں کامیاب ہوجائے گی؟ ان سوالوں کے بیچ ہی آسام میں یہ اندیشے بھی ظاہر کئے جارہے ہیں کہ آئندہ مئی میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل کہیں ایک بار پھر قتل عام کا وہی خونی کھیل نہ دہرایا جائے جو ماضی میں یہاں ہوتا رہا ہے۔ دوسری طرف یہاں بی جے پی جیت حاصل کرنے کے لئے بنگلہ دیشی گھس پیٹھ کا معاملہ بھی زور وشور سے اٹھانے لگی۔ یہاں الیکشن جیتنے کے لئے بی جے پی نے اپنا پوار زور صرف کردیا ہے کیونکہ انتخابات جیتنا بی جے پی کے لئے ضروری ہے تاکہ اس کا گرتا گراف ٹھیک ہوسکے۔ ماضی میں وہ دلی اور بہار میں اسمبلی چنائو انتہائی شرمناک طریقے سے ہار چکی ہے اور اب جن ریاستوں میں چنائو ہونے والے ہیں ان میں سے مغربی بنگال، تمل ناڈو اور کیرل میں اس کی جیت کے آثار بالکل نہیں ہیں جبکہ کانگریس کے لئے یہاں چنائوجیتنا اس کے وجود کے لئے ضروری ہے۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں بری طرح ہارنے کے بعد اب وہ احیاء نو کی کوششوں میں جٹی ہے اور بہار میں کچھ سیٹیں جیتنے کے بعد اس کے حوصلے بڑھے ہیں۔اس کے ساتھ ہی اے آئی یو ڈی ایف، آسام گن پریشد (اگپ) اور بوڈو پیپلز فرنٹ (بی پی ایف) جیسی علاقائی پارٹیاں اقتدار میں حصہ داری کے لئے اپنی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کانگریس کے اقتدار میں ہونے کے ساتھ ساتھ ترون گگوئی حکومت کی طرف سے کئے گئے کام اور بہار میں غیر متوقع طور پر اچھے نتائج سے کارکنوں کے حوصلے بلند ہیں، لیکن اقتدار مخالف رجحانات کا خدشہ، کارکنوں کی ڈسپلن شکنی اور ہیمنت بسو شرما کی قیادت میں سینئر رہنماؤں کے کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں جانے کے چیلنج کا بھی اسے سامنا کرنا ہوگا۔

قتل وخون اور فرقہ پرستی کا کھیل

    آسام کا اسمبلی چنائو فرقہ پرستی کے ایجنڈے پر ہی لڑا جائے گا۔ یہ بات تقریبا طے ہوچکی ہے۔ بی جے پی نے ابھی سے بنگلہ دیشی گھس پیٹھ کا ایشو اٹھانا شروع کردیا ہے اور اس کے سبب بنگلہ بھاشی مسلمانوں میں خوف پایا جارہاہے۔ اسی کے ساتھ اس نے اعلان کیا ہے کہ مولانابدرالدین اجمل کی پارٹی اے آئی یو ڈی ایف سے اس کا مقابلہ ہے۔ اس اعلان کے ذریعے اس نے جہاں یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ کانگریس ہاری ہوئی جنگ لڑرہی ہے اور بی جے پی کے سامنے اس کا کوئی وجود نہیں ہے وہیں دوسری طرف اس نے انتخابی جنگ کو ہندوبمقابلہ مسلمان بنانے کی کوشش بھی کی ہے۔ آسام میں مسلمانوں کے قتل عام کی بھی پرانی تاریخ رہی ہے اور جیسے جیسے انتخابات کی تاریخ قریب آرہی ہے یہاں مسلمانوں کے اندرخوف بڑھتا جارہاہے کہ کہیں ماضی کی طرح اک بار پھر ان پر حملہ نہ ہوجائے۔ ماضی کے قتل عام سے پریشان مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ آج بھی یہاں پناہ گزیں کیمپوں اور محفوظ علاقوں کی جھگیوں میں رہنا پسند کرتا ہے۔

آسام کے نسلی گروپ

    آسام میں بہت سے نسلی گروپ ہیں۔ ان گروپوں کے درمیان حدود نہ تو یقینی ہیں، اور نہ ہی مستقل۔ اس لئے یہاں کے عوام کو کسی محدود زمرے میں رکھنا اور ان پر عام معیار لاگو کرنا غلط ہو گا۔ جغرافیائی اور آبادی کے حساب سے آسام کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔برہمپتر گھاٹی، براک گھاٹی اور قبائلی خود مختار علاقے۔گوالپارا، کامروپ، درانگ، ناگائوں، شیوساگر اور ڈبروگڑھ ضلعے برہمپتر گھاٹی میں ہیں اور یہاں زیادہ تر آسامی بولنے والی آبادی ہے۔ قبائلی خود مختار علاقے کے کاربی آنگ لانگ اور اتری کچھار پہاڑی اضلاع میں اکثریتی آبادی میکیر(کاربی) اور ڈوماسا قبائلی زبانیں بولنے والوں کی ہے۔ بنگلہ بولنے والے لوگ بنیادی طور براک گھاٹی میں رہتے ہیں۔آسام میں ہندو سب سے بڑے مذہبی گروپ ہیں۔ تاہم ان کا فیصد گرا ہے۔ 1971 میں ہندو آبادی 72 فیصد تھی جو 2011 میں کم ہو کر 61.5 فیصد رہ گئی ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کی آبادی 1971 میں 24 فیصد سے چالیس سال میں بڑھ کر 34.2 فیصد ہو گئی ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق سات اضلاع میں مسلم ووٹ فیصلہ کن ہیں اور دیگر تین میں ان کے کردار انتخابات کے نتائج کو متاثر کرنے والے ہیں۔ بدرالدین اجمل کی اے آئی یو ڈی ایف مسلم ووٹروں، خاص طور سے بنگلہ بھاشی مسلمانوں پر مکمل کنٹرول رکھتی ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے ووٹ کا ایک بڑا حصہ کانگریس کو بھی جاتا ہے۔

    قبائلیوں کی آسام میں صرف 10 فیصد آبادی ہے، لیکن پہاڑی اضلاع میں وہ اکثریت میں ہیں۔ دیگر اضلاع میں ان کی آبادی 10 سے 5 فیصد اور اس سے بھی کم ہے۔لگ بھگ چارفیصد عیسائی ہیں جوبنیادی طور قبائلی ہیں۔ ایک اور اختلاف دیشی  تارکین وطن کو لے کر ہے۔ چائے باغات کے کارکنوں میں، بنگالی ہندو، بنگالی مسلمان، مارواڑی اور نیپالی تارکین وطن ہیں۔ یہ لوگ کل آبادی کا چھٹا حصہ ہیں۔ آسام کے نسلی گروہ سبھی سیاسی پارٹیوں کے لئے بڑا مسئلہ ہیں کیونکہ انتخابات کی حکمت عملی بناتے وقت ہر پارٹی کو نسلی گروپوں کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے۔پہاڑی اور میدانی قبائلی دیگر مسائل کے علاوہ اپنی شناخت اور سطح برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔کچھ قبائلی ایس ٹی فہرست میں نہیں ہیں۔وہ اس فہرست میں شامل کئے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جن کی دیگر مخالفت کر رہے ہیں۔ آسامی ہندو ،بنگالی ہندوؤں کو پناہ گزین زمرہ دیے جانے کے مخالف ہیں۔ ان تمام باتوں پر سیاسی جماعتوں کو توجہ دینی ہوگی۔

اہم مقابلے

    اہم حریف کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ تین علاقائی پارٹیاں انتخابی میدان میں ہیں۔ آسام گن پریشد نے دو بار ریاست میں حکومت کی ہے، لیکن 2011 میں اس کی نشستیں کم ہو کر 12 رہ گئی تھیں۔اے آئی یو ڈی ایف نے اپنا ووٹ فیصد 2006 میں 9 سے بڑھا کر 2011 میں 12.8 فیصد کر لیا اور 18 سیٹیں جیت لیں۔ اس طرح یہ اہم اپوزیشن پارٹی بن گئی۔ بی پی ایف بوڈو لینڈ علاقائی کونسل میں اپنا اثر رکھتی ہے۔ اس نے 2011 میں 12 نشستیں جیتی تھیں۔ کانگریس کے آسام کے کچھ علاقوں، خاص طور سے چائے باغات والے علاقے، نیپالی اور ہندی بولنے والی آبادی میں ووٹر ہیں۔ اہم، موران، مٹک اور نسلی ہندو کافی وقت سے کانگریس کے ساتھ رہے ہیں۔2011 کے انتخابات میں گگوئی نے بنگلہ دیشی ہندوؤں کو لے کر رخ بدل دیا تھا۔ انہوں نے انہیں غیر قانونی تارکین وطن کی جگہ پناہ گزین قرار دیا تھا۔ ہندو ووٹوں کی طاقت پر کانگریس نے 2011 کا الیکشن جیتا۔ بی جے پی کا 2011 میں 27 میں سے 23 اضلاع میں کھاتا بھی نہیں کھلا۔ صرف 5 نشستیں برہمپتر وادی میں ملیں جبکہ کل 126 سیٹوں میں کانگریس کو 78 اور اے آئی یو ڈی ایف کو 18 نشستیں حاصل ہوئیں۔لیکن نریندر مودی نے جب کمان سنبھالی ، بی جے پی کے حالات بدلے ۔ اس نے 2014 کے عام انتخابات میں یہاں 14 میں سے 7 لوک سبھا سیٹیں جیتیں۔جبکہ کانگریس اور اے آئی یوڈی ایف کو تین تین سیٹیں ملیں۔ فروری 2015 میں مقامی بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی نے کانگریس کو بری طرح شکست دیا۔ کانگریس، بی پی ایف اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے ممبران نے بی جے پی کی رکنیت حاصل کی ہے۔ ان میں ممبران اسمبلی بھی شامل ہیں۔ مرکز میں 2003 میں جب این ڈی اے کی حکومت تھی، تب اس نے الگ بوڈو لینڈ علاقائی کونسل کی تشکیل کی تھی اور اچھی خاصی تعداد میں ایسے بوڈو ہیں جو چاہتے ہیں کہ اگلی حکومت کوئی ایسی پارٹی بنائے جو مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے والی نہ ہو۔ بی جے پی اس احساس کو بھنا سکتی ہے۔شاید ترقی کے وعدوں سے بھی کچھ فائدہ اسے مل جائے حالانکہ اب پورے ملک میں اس کی پول کھل چکی ہے لیکن اگر غیربھاجپا ئی پارٹیاں ہاتھ ملا لیتی ہیں تو وہ بہار کی طرح آسام میں بھی بی جے پی کا راستہ روک سکتی ہیں۔

کیا مہاگٹھبندھن بنے گا؟

    آسام میں انتخابات کا اعلان کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ بی جے پی نے پہلے ہی تیاری شروع کردی ہے اورمرکزی وزیر سربانند سونووال کو آسام میں اپنا وزیر اعلی کا امیدوار اعلان کر دیا ہے۔سونوال چند سال قبل آسام گن پریشد سے بی جے پی میں آئے تھے۔تاہم کانگریس پس وپیش میں ہے۔ وزیراعلیٰ ترون گگوئی واضح نہیں کرپا رہے ہیں کہ وہ اے آئی یو ڈی ایف کے ساتھ انتخابی سمجھوتہ کریںگے یا نہیں۔ ان دونوں پارٹیو ں کے اتحاد کے بغیر بی جے پی کاراستہ روک پانا مشکل لگ رہاہے کیونکہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو سب سے زیادہ 37فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ کانگریس کو 30فیصد اور اے آئی یو ڈی ایف کو 15فیصد ووٹ ملے تھے۔ جب کہ دیگر کے حصے میں 14فیصد ووٹ آئے تھے۔اس وقت اگربی جے پی مخالف پارٹیوں کا اتحاد نہیں ہوتا ہے تو اس کی راہ آسان ہوجائے گی۔یہاں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی کوشش ہے کہ کانگریس اور اے آئی یو ڈی ایف اتحاد کرلیں۔ البتہ شاید اسے مہاگٹھبندھن کا نام نہ دیا جائے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 625