donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Bihar Me Secularism Nahi Iqtedar Ki Jang Nitish Lalu Kitni Door Sath Chal Payenge


بہار میں سیکولرزم نہیں ،اقتدار کی جنگ


نتیش۔لالو کتنی دور ساتھ چل پائیں گے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    لالو اور نتیش کمار اب ساتھ مل کر الیکشن لڑیںگے مگر یہ اتحادکہاں تک چل پائے گا؟ کیا نتیش کی انانیت اور لالو کی رعونت میں ٹکرائو نہیں ہوگا؟ کیا سیٹوں کی تقسیم میں وہ دونوں ایک دوسرے سے نہیں لڑینگے؟ کیا الیکشن کے بعد بھی یہ اتحاد جاری رہے گا اور اگر یہ محاذ سرکار بنانے میں کامیاب ہوگیا تو لالو اطمینان وچین سے نتیش کو سرکار چلانے دیںگے؟اس وقت جس طرح سے دونوں لیڈروں کے بیچ کبھی پیار اور کبھی تکرار کی خبریں آرہی ہیں،اس سے بی جے پی کو فائدہ نہیں ملے گا؟آخر لالو اور نتیش کے بیچ اتحاد کی صورت میں بی جے پی کیا حکمت عملی اپنائے گی؟ کیا اب وہ مان چکی ہے کہ بہار میں اس کی شکست پکی ہے یا وہ کسی نئی حکمت عملی کی شکل میں جیتن رام مانجھی کو لے کر کھیل کھیلے گی؟یہ سوالات اب زور پکڑنے لگے ہیں کیونکہ دن بدن انتخابات قریب آرہے ہیں اور سیاسی سرگرمیاں تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔لالو نے نتیش کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار خوشی سے نہیں تسلیم کیا ہے بلکہ مجبوری میں قبول کیا ہے اور ممکن ہے اسی وجہ سے انتخابات کے بیچ دونوں ایک دوسرے کے امیدواروں کو خفیہ طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔بہ ظاہر دونوں کہہ رہے ہیں کہ ان کے بیچ گہرے اختلافات نہیں اور وہ ایک دوسرے کے تئیں صاف دل ہیں مگر اس پر اس قدر زور دیا جارہا ہے کہ لوگوں کو شک ہونے لگا ہے کہ ان کے دل ایک دوسرے کے تئیں صاف نہیں ہیں اور لالو نے واقعی زہر کا گھونٹ پیا ہے۔ حالانکہ سیٹوں کی تقسیم میں بھی کسی کو زہر کا گھونٹ پینا پڑے گااور یہ مرحلہ آسان نہیں ہوگا۔ ممکن ہے یہاں بھی ملائم سنگھ یادو اور راہل گاندھی کو ریفری کا کردار ادا کرنا پڑے۔

  یہ اتحاد نہیں ،سیاسی مجبوری ہے

     اختلافات اور بیان بازیوں کے بیچ آر جے ڈی اورجے ڈی یو اتحاد کی جانب مزید ایک قدم بڑھ گئے ہیں کیونکہ لالونے  نتیش کمار کوآئندہ بہاراسمبلی انتخابات کے لئے وزیر اعلی کا امیدوار تسلیم کرلیا ہے۔ حالانکہ لالوپرساد یادو نے اس پر کہا کہ وہ زہر کا گھونٹ پی رہے ہیں۔یہ معاملہ ملائم سنگھ یادو اور راہل گاندھی کی کوششوں سے طے ہوپایا۔یہ اتحاد بھی ملک کی بدلتی سیاست کا غماز ہے ورنہ ماضی میں جنتاپریوار کی پارٹیاں کانگریس کے خلاف مورچہ بنا تی رہی ہیں۔۱۹۸۹ میں ایسا ہوا تھا کہ جنتادل کانگریس کے خلاف تھا تب لالو اور نتیش کمار ایک ساتھ تھے اور انھوں نے بہار سے کانگریس کا صفایا کردیا تھا،لیکن باہمی اختلافات اور انا کے ٹکراؤ کی وجہ سے دونوں الگ ہوئے اور دونوں نے اپنی الگ الگ پارٹی بنائی۔بعد میں نتیش کمار نے بی جے پی کا دامن تھاما اور دونوں نے مل کر بہار سے لالو رابڑی کی 15 برسوں کی حکمرانی کا خاتمہ کیا۔اب انھیں لالو یادو سے نتیش کمار کا ہاتھ ملانا ان کی سیاسی مجبوری ہے،جن کے جنگل راج کے خلاف انہوں نے کبھی بہار میں طویل لڑائی لڑی تھی اب انہی لالو یادو کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر وہ اپنی پرانی ساتھی بی جے پی سے لوہا لینے کو تیار کھڑے ہیں۔حالانکہ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ الیکشن کے بعد ان کے رشتوں کے بیچ ایک بار پھر درار آسکتی ہے۔دونوں ہی کو خوف ہے کہ اگر انھوں نے ایک ساتھ الیکشن نہیں لڑا تو بی جے پی ان کا صفایا کردے گی جیسا کہ لوک سبھا الیکشن میں کرچکی ہے۔جس طرح سیلاب اور طوفان میں سانپ اور چھچھوندر ایک ہی شاخ پر پناہ لیتے ہیں وہی حال اس وقت لالو اور نتیش کا ہے۔ حالانکہ وہ سیکولرزم کی دہائی دے رہے ہیں مگر اس سچائی سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ نتیش کمار نے ہی بی جے پی کو بہار میں مضبوط کیا ہے۔

کیسے ممکن ہوا یہ اتحاد؟

    بہار کے اسمبلی انتخابات میں لالو پرساد یادو اور نتیش کمار کو ایک ساتھ لانے کا سہرا بھلے ہی جنتاپریوار کے سربراہ ملائم سنگھ یادو لیتے دکھائی دے رہے ہوںمگر دونوں لیڈروںکے درمیان اتحاد کو لے کر چل رہی رسہ کشی کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کے ماسٹر سٹروک سے ہی ختم ہو پائی ہے۔دراصل، کانگریس کے کھل کر نتیش کی حمایت میں آنے سے لالو کے پاس اختیارات کم ہوتے چلے گئے۔بی جے پی مخالف دیگر جماعتوں میں بھی نتیش کو لے کر بنی رضامندی کے بعد لالو کے لئے اتحاد سے الگ ہونا ممکن نہیں تھا۔کئی دنوں کی ناراضگی کے بعد آر جے ڈی سربراہ کے اچانک نتیش کو وزیر اعلیٰ عہدے کا امیدوارتسلیم کرلینے کے پیچھے نتیش اور راہل کی ملاقات کو سب سے بڑی وجہ سمجھا جا رہا ہے۔ اس کے بعد لالو کو احساس ہو گیا کہ اگر انہوں نے اپنی ضد نہیں چھوڑی تو نتیش، کانگریس کے ساتھ مل کر انتخابات میں اتر سکتے ہیں۔ ایسے میں بائیں بازو اور این سی پی جیسے دل بھی ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔تب لالو کے لئے صرف جیتن رام مانجھی ہی بچتے جنھوں نے اب بی جے پی کے اتحاد میں شامل ہونا قبول کرلیا ہے۔ وزیر اعلی کے عہدے کی دعویداری کو لے کرلالوپرساد کے اختیارات اسی وقت مشکوک ہونے لگے تھے جب انھیں کی پارٹی کے عبد الباری صدیقی نے ایک بیان میں کہا کہ اگر مانجھی وزیر اعلی بن سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں۔مطلب،واضح تھا کہ راشٹریہ جنتا دل کے اندر بھی سی ایم کے عہدے کے لئے صرف نتیش ہی قبول ہیں۔

زہر کا گھونٹ

    نتیش کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کا امیدوار تسلیم کرنے کا اعلان لالو نے ملائم سنگھ یادو کے گھر پر مٹینگ کے بعد کیا تھا اور ایسا کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے نتیش کو بی جے پی سے بچایا ہے جن کا اغوا بی جے پی نے کرلیا تھا۔ سماج وادی پارٹی سربراہ ملائم سنگھ یادو کے گھر پر میٹنگ کے بعد سامنے آئے لالو نے کہا کہ بہار انتخابات میں فرقہ وارانہ طاقتوں کا فن کچلنے کے لئے ہم سب ایک ہوکر انتخابات لڑیں گے۔ الیکشن میںدونوں جماعتیں نتیش کمار کی قیادت میں ہی اتحاد کے تحت اترینگی۔حالانکہ یہ اعلان ا نھوں نے مسرور ہوکر نہیں کیا بلکہ مجبور ہوکر کیا تھا۔ انہوں نے اتحاد پر روز روز آ رہے دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات پر بھی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میری دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں سے اپیل ہے کہ چپ رہیں۔ جو بولنا ہوگا میں بولوں گا یا ہمارے بڑے ملائم سنگھ جی بولیں گے۔نتیش کی دعویداری کے سوال پر اڑے لالو اتنی جلدی نہیں ٹوٹے۔ اس بات کا احساس اس وقت بھی ہو گیا جب انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ بہار میں جیت کے لئے میں کوئی بھی زہر پینے کو تیار ہوں۔ انہوں نے اپنی مجبوری بھی گنائی کہ میں الیکشن لڑ نہیں سکتا اور میرے خاندان میں کوئی اس قابل نہیں کہ وزیر اعلی کے عہدے کا دعویدار ہو سکے، اس لئے نتیش کی قیادت میں ہی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔حالانکہ پہلے لالو کا اصرار تھا کہ رابڑی یا میسا کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کا امیدوار بنایا جائے۔ اس پر ملائم اور راہل نے سمجھایا کہ وہ ایسا نہ کریں اگر ایسا کیا گیا تو بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔رابڑی اور میسا بھارتی کے نام پر عوام کو متاثرنہیں کیا جاسکتا۔اس موقع پر لالو نے دعوی کیا کہ بہار انتخابات سے ہی بی جے پی کو پٹخنی دے کر ملک بھر میں اس کے خلاف ماحول تیار کیا جائے گا۔ سیٹوں کی تقسیم پر بولے کہ جب دل مل گیا ہے تو نشستوں کی تقسیم بھی مل بیٹھ کر کر لیں گے۔نتیش کو اپنے خاندان کا ہی بتاتے ہوئے لالو نے کہاکہ میں اور نتیش دونوں ایک ہی خاندان، ایک ہی گھر سے نکلے ہیں، لہٰذا ہمارے بیچ اختلافات تو ہو سکتے ہیں لیکن دل صاف ہیں۔

کانگریس کوکیا ملے گا؟

    سیٹوں کی تقسیم پر بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار اور آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو کے درمیان چاہے جتنے اختلافات ہوں لیکن کانگریس کو کم نشستیں دینے پر دونوں ہی رہنما متفق ہیں۔اتحاد میں اہم رول ادا کرنے میں پردے کے پیچھے سے اہم کردار ادا کرنے والے کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کو دو درجن سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑ سکتا ہے۔بہار کانگریس کے رہنماؤں میرا کمار، نکھل کمار، شکیل احمد اور اشوک چودھری نے اعلی کمان کو نتیش کی قیادت میں الیکشن لڑنے کی صلاح دی ہے۔ کانگریس کے ذرائع کی مانیں تو ان لیڈروں کے خاندان کے کچھ ارکان کو بھی ٹکٹ ملنا تقریبا طے ہے۔کانگریس نے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں چار سیٹیں جیتی تھیں اور اس کے 19 امیدوار دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ اس بنیاد پر کانگریس کا دعوی صرف 23 سیٹوں پر ہی بنتا ہے۔ بہار میں کانگریس کا عوامی حلقہ سکڑ گیا ہے اور پارٹی میں بھی جوش نہیں دکھائی دیتا۔دوسری طرف پارٹی لیڈروں کی گروپ بندی مسلسل بڑھتی رہی ہے۔یہاں کی زمینی حقیقت سے کانگریس اعلی کمان بھی واقف ہے۔ اس لئے پارٹی دو درجن سیٹوں پر ہی اکتفا کرنے کے موڈ میں ہے۔نتیش نے کانگریس پر کہا کہ وہ تو پہلے سے ہی جے ڈی یو کی حمایت کر رہی ہے جو انتخابات کے دوران بھی جاری رہے گی۔

سیٹوں کی تقسیم کیسے ہوگی؟

    جنتادل (یو )اور راشٹریہ جنتا دل کے انضمام کا مسئلہ فی الحال پیچھے چلا گیا ہے اور ان دونوں کے لئے بڑا مسئلہ سیٹوں کی تقسیم بن گیاہے۔ لالو اور نتیش یوں تو کہہ رہے ہیں کہ یہ کوئی بڑا ایشو نہیں ہے مگر حقیقت میں یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ نتیش کمار کا کہنا ہے کہ سیٹوں کی تقسیم کے لئے دونوں جماعتوں کے تین تین لوگوں کی کمیٹی بنائی گئی ہے جو نشستوں کی تقسیم طے کرے گی۔لالو سے اختلافات کی بات کو انہوں نے ٹالتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ان کی پارٹی کا راشٹریہ جنتا دل سے اتحاد ہو جائے گا۔انھوں نے کہا دونوں پارٹیوں کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہے ۔حالانکہ سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ سیٹوں کی تقسیم کامرحلہ مشکل ترین مرحلہ ہے۔ ایک بات یہ بھی ممکن ہے کہ جہاں جس کی پارٹی کے مضبوط دعویدار کو ٹکٹ نہیں ملا وہ بی جے پی یا مانجھی کے امیدوار کی مدد کرکے اپنے ہی اتحاد کو نقصان پہنچاسکتا ہے۔

ذات اور مذہب کے نام پر ووٹوں کااتحاد

    لالو اور نتیش کے اتحاد سے بہار میں بی جے پی کے لئے مشکل کھڑی ہونا لازمی ہے۔ اس کے پاس یہاں کوئی چہرہ نہیں ہے جس کو آگے کرکے وہ الیکشن لڑے اس لئے مودی کے چہرے پر وہ چنائو میدان میں جانا چاہتی ہے۔دوسری طرف لالو اور نتیش کمار کو لگتا ہے کہ ان کے اتحاد کے سبب مسلم، یادو، کوئری، مہادلت ووٹ متحد ہوجائے گا اور وہ اچھا رزلٹ کرسکتے ہیں۔الیکشن کی اس گہماگہمی میں اس بار مسلمانوں کی خوشامد بھی نہیں ہورہی ہے کیونکہ سب کو لگتا ہے کہ ان کے سامنے کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے۔ وہ مجبور ہوکر اسی اتحاد کو ووٹ دیںگے۔حالانکہ مسلمانوں کے نام پر کچھ چھوٹی پارٹیاں بھی انتخابی میدان میں اتر رہی ہیں مگر ایسا نہیں لگتا کہ مسلمان انھیں قبول کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور ان کے سامنے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ بی جے پی کے خوف میں اسی اتحاد کو ووٹ دیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 497