donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   UP Ki Daurh Me Kaun Kis Se Aage


یوپی کی دوڑ میں ،کون کس سے آگے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    اترپردیش کے اسمبلی انتخابات قریب آچکے ہیں اور تمام سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی بساطیں بچھانے میں مصروف ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ اکھلیش یادو کی رخصتی ہوگی یا مایاوتی واپسی کر ینگی؟ کسی کو نہیں معلوم کہ بی جے پی لوک سبھا انتخابات کے نتائج کو ایک بار پھر یوپی میں دہراپائے گی یا ’’اچھے دن ‘‘کے بھرم میں آنے سے عوام بچ جائیںگے؟ کانگریس کے احیاء نو کی کوششیں کس قدر کارگر ثابت ہونگی اور چھوٹی پارٹیاں کیا کردار اداکریں گی؟ ان سوالوں کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں مگر قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ یہ سوالات ان دنوں ریاست میں عام لوگوں کی زبان پر ہیں اور میڈیا سے لے کر چائے خانوں تک بحثیں چل رہی ہیں۔ ان بحثوں کے بیچ جو بات عام طور پر نکل کر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ریاست کے عوام سماج وادی پارٹی کی سرکار سے ناراض ہیں اور کوئی طبقہ بھی اس سے خوش دکھائی نہیں دے رہاہے۔ عام لوگ غنڈوں اور بدمعاشوں سے پریشان ہیں اور لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال خراب ہے۔حالانکہ مرکز کی مودی سرکار کے تعلق سے بھی مایوسیوں میں اضافہ ہورہاہے اور ’’اچھے دن ‘‘ کے سپنوں سے لوگ باہر آنے لگے ہیں۔مایاوتی کے تعلق سے بھی لوگ پس وپیش کا شکار ہیں جن کی پارٹی کی کوئی پالیسی ہی نہیں ہے اور اقتدار میں آنے کے لئے کسی بھی پارٹی کے ساتھ جانے کا دروازہ کھلا رکھتی ہیں۔ حالانکہ ذات پات کے نام پر صف بندی اہم رول ادا کرسکتی ہے اور پارٹیوں وامیدواروں کی قسمت کا فیصلہ یہیں ہوتا نظر آرہاہے۔   

ایک سروے رپورٹ  

     اترپردیش اسمبلی انتخابات میں اب محض چند مہینے ہی باقی بچے ہیں ۔ چند مہینے قبل ایک سروے آیا تھا جس میں مایاوتی کو وزیراعلیٰ کے عہدے کے لئے سب سے مقبول امیدوار بتایا گیا تھا۔ ASUME ریسرچ کی طرف سے کرائے گئے سروے کے مطابق مایاوتی کی اقتدار میں واپسی ہو سکتی ہے۔ وہیں اکھلیش یادو کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔انگریزی روزنامہ ’’ میل ٹوڈے‘‘ میں شائع اس سروے کے مطابق لوگوں کے درمیان سماج وادی پارٹی کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ ایس پی حکومت لاء  اینڈ آرڈر، مہنگائی اور روزگار کے معاملے میں عوام کی کسوٹی پر کھری نہیں اتر پائی، جس کا نقصان اسے سال 2017 کے اسمبلی انتخابات میں اٹھانا ہوگا۔ 12 اپریل سے 25 اپریل کے درمیان کرائے گئے اس سروے میں تقریبا 26 ہزار لوگوں نے حصہ لیا۔ سروے کے مطابق ایس پی کی تصویر جہاں بگڑی ہے تو وہیں انتخابات میں اہم ٹکر بی ایس پی اور بی جے پی کے درمیان ہونے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ ایس پی سے ناراض مسلم ووٹ بی ایس پی کی جانب جاتا نظر آرہا ہے تو وہیں اونچی ذاتیں بی جے پی کی جانب جھکی ہیں۔ سروے کے مطابق اتر پردیش کے عوام نے وزیر اعلی کے طور پر مایاوتی کو اپنی پہلی پسند قرار دیا ہے ، جبکہ اکھلیش دوسرے اور ورون گاندھی تیسرے نمبر پر ہیں۔ سروے میں 26 فیصد لوگوں نے مایاوتی کو وزیر اعلی کے عہدے کے لئے پہلی پسند کے طور پر منتخب کیا ہے، جبکہ 22 فیصد لوگوں نے اکھلیش یادو کو ووٹ دیا ہے۔ وہیں ورون گاندھی کو 20 فیصد لوگوں نے پسند کیا ہے۔انہیں میں 12 فیصد ایسے ہیں جو پرینکا گاندھی کو وزیر اعلی کے طور پر پسند کر رہے ہیں۔جب کہ 10 فیصد لوگ راج ناتھ سنگھ کے چاہنے والے بھی ہیں۔ بات جب بی جے پی میں سب سے بہتر کی ہوتی ہے تو سروے میں 45 فیصد ورون تو 34 فیصد راج ناتھ کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیںجب بی جے پی میں اور لوگوں کے نام پوچھے جاتے ہیں تو 5 فیصد یوگی آدتیہ ناتھ کو، 4 فیصد کلراج مشرا کو، 2 فیصد منوج سنہا کو اور صرف ایک فیصد اسمرتی ایرانی کو وزیر اعلی کے قابل سمجھتے ہیں۔ یوپی میں مایاوتی کو ووٹ نہ دینے والے بھی ایک بات سے انکار نہیں کر پائے کہ مایاوتی کے دور حکومت میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال بہتر رہتی ہے اور مجرم ریاست چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ اس سروے میں لوگوں نے یوپی میں قانون اورنظام کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ شاید اسی لیے بطور وزیر اعلی مایاوتی کو فرسٹ ڈویژن تو ملا ہے لیکن مارکس انہیں صرف 26 فیصد ہی ملے ہیں۔ سروے میں لوگوں نے اکھلیش حکومت کی پرفارمنس کو لے کر ناخوشی ظاہر کی ۔ کرپشن اور قانون لوگوں کے لئے سب سے بڑی تشویش کی بات ہے۔اس میں بے روزگاری کو 22 فیصد لوگوں نے بڑا مسئلہ مانا ہے اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کو 24 فیصد لوگوں نے مسئلہ مانا ہے لیکن سب سے زیادہ 25 فیصد لوگوں نے اتر پردیش کے لاء اینڈ آرڈر پر تشویش ظاہر کی ہے۔

مایاوتی کی واپسی؟

    کسی کے وزیراعلیٰ امیدوار کے طور پر مقبول ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس کے تمام امیدواروں کو عوام ووٹ کرینگے۔ خاص طور پر یوپی میں ہر سیٹ پرذات اور مذہب فیکٹر ہوتا ہے۔ ویسے بھی اوپر مذکور سروے اس زمانے کا ہے جب تک دلتوں پر مظالم کی باتیں سامنے نہیں آئی تھیں اور دلتوں کا ایک طبقہ بی جے پی کے ساتھ آیا تھا مگر اب حالات مختلف ہوسکتے ہیں اور ممکن ہے الیکشن تک عوام کے موڈ میں کئی بدلائو آئیں۔ اترپردیش میں مایاوتی اس بات سے خوش ہیں کہ سماج وادی پارٹی کی سرکار سے عوام نارض ہیں اور اس کا فائدہ انھیں مل سکتا ہے۔ وہ اپنی تقریروں میں اکثر لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ اٹھاتی رہتی ہیں، دلتوں اور مسلمانوں پر مظالم کو ایشو بناتی ہیں اور حالیہ دنوں میں انھوں نے اس معاملے میں زیادہ آواز بلند کی ہے۔ان کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو اپنی طرف کریں جن کی اکثریت گزشتہ انتخابات میں سماج وادی پارٹی کے ساتھ چلی گئی تھی ۔جس طرح سے عام لوگوں کے ساتھ مسلمان بھی اکھلیش سرکار سے ناراض نظر آرہے ہیں اس سے مایاتی کا کام آسان ہوتا نظر آرہاہے۔ البتہ سماج وادی پارٹی خوف پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ مایاوتی کو ووٹ دینے کا مطلب ہے بی جے پی کو ووٹ دینا۔ اگر مسلمان بی ایس پی کو ووٹ دیتے ہیں تو وہ سیٹیں کم پڑنے کی صورت میں بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملاسکتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ مایاوتی کا ماضی کا رکارڈ بھی ایسا ہی رہا ہے مگر ملائم سنگھ یادو کے حالیہ رویوں کو دیکھا جائے تو ان کی بھی بی جے پی سے کم ملی بھگت دکھائی نہیں دیتی۔گزشتہ بہار اسمبلی الیکشن سے لے کر پارلیمنٹ کے اندر تک جس طرح انھوں نے بی جے پی کا ساتھ دیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ ملائم سنگھ یادوسنگھ پریوار کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں۔ان کے فیصلوں نے سیکولر قوتوں کو کمزور کیا ہے نیز اترپردیش میں سماج وادی سرکار نے بھگوا غنڈوں کو پھلنے پھولنے کا بہتر موقع فراہم کیا ہے۔

  بی جے پی کیا کرے گی؟

    یوپی میں بی جے پی کو گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں امید سے زیادہ کامیابی ملی تھی اور اس نے تمام سیاسی پارٹیوں کو صفایا کردیا تھا۔ بی ایس پی تو یہاں سے اپنا کھاتا بھی نہیں کھول پائی تھی۔ ملائم سنگھ کے اپنے خاندان کے لوگ مشکل سے جیتے تھے۔ اب اس کے سامنے بڑا مسئلہ ہے گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں ملے اپنے ووٹ کو بچانا۔تب مودی لہر تھی اور اس کا کام بہت حد تک اس لہر نے آسان کردیا تھا مگر آج حالات مختلف ہیں۔ اب نریندر مودی کومرکز میں اقتدار سنبھالے ہوئے  دوسال سے زیادہ بیت چکے ہیں اور عام لوگ اچھے دن کے سپنے سے جاگنے لگے ہیں۔ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ جیسے نعروں کی بھی پول کھل چکی ہے اور حالیہ دنوں میں دلتوں پر مظالم کے جو واقعات سامنے آئے ہیں انھوں نے ان دلتوں کو بھی بھاجپا سے دور کردیا ہے جو لوک سبھا میں مودی لہر کی زد میں آگئے تھے۔ ریاست کے فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرنے کی بھی  کوئی کوشش اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ تبدیلی مذہب، لو جہاد، ہندووں کی نقل مکانی اور بیف جیسے ایشوز بی جے پی کا زیادہ کچھ بھلا نہیں کرپائے،دوسری طرف کانگریس نے جو برہمن کارڈ کھیلنا شروع کیا ہے اس سے بی جے پی کا ہی نقصان ہوگا۔ایسے میں اس کا سارا دارومدارچند برادریوں کی سیاست پر ٹکا ہوا ہے۔ اس نے کیشو ،موریہ کے ہاتھ میں ریاست کی کمان دے دی ہے جو پسماندہ طبقے سے آتے ہیں۔اس طرح اس نے پسماندہ برادریوں کے ووٹ کو اپنے ساتھ لانے کی کوشش کی ہے ۔ اعلیٰ ذات کے ووٹروں کو ساتھ لانے کے لئے وہ کسی برہمن کو وزیراعلیٰ کی کرسی کے لئے امیدوار بنانا چاہتی تھی مگر اس سے پہلے کانگریس نے شیلا دکشت کو میدان میں اتار دیا ہے۔ یہی نہیں وہ نصف سیٹوں پر اونچی ذات کے امیدوار بھی اتارنے جا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندووں کا ووٹ بی جے پی کو جاتا رہاہے اور کانگریس کے اس قدم سے بی جے پی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پہلے ہی سے دلت اس سے دور ہیں اور اب اعلیٰ ذات کے ووٹروں کی دوری اس کے ہلاکت خیز ہوسکتی ہے۔

بی جے پی کو رام کا سہارا

    انتخابات سے قبل عموماً بی جے پی کو رام کی یاد آتی ہے  اور وہ رام مندر کا راگ الاپنا شروع کردیتی ہے۔ ایک بار پھر یوپی میں انتخابات ہیں اور وہ ایودھیا کے ایشو کو ہوا دینے میں مصروف ہوگئی ہے۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لئے وشو ہندو پریشد نے اپنی آخری تاریخ کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔ اجین میں کے کمبھ میلے میں وشو ہندو پریشد کے سنتوں نے رام مندر کی تعمیر میں ہو رہی تاخیر کے لئے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اس کی تعمیر کے لئے 31 دسمبر تک کا وقت دیا ہے۔ وشو ہندو پریشد کے جنرل سکریٹری چمپت رائے نے کہا ہے کہ 31 دسمبر سے پہلے مندر کی تعمیر کا کام شروع ہو جائے گا۔ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار نہیں کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بہت صبر رکھا، اب صبر نہیں رکھ سکتے ہیں۔ چمپت رائے نے کہا کہ اس سے پہلے رام مندر کی تعمیر کے لئے 1 نومبر کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا جو کہ غلط ہے۔ کچھ تنظیمیں صرف شہ سرخیوں میں آنے کے لئے ایسی باتیں کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مندر کی تعمیر کا 90 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے، باقی کام سادھو اور سنتوں کی مدد سے کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے 15 مئی کو اجین کے مہا کمبھ میں حصہ لینے سے قبل وی ایچ پی کا یہ اعلان کافی اہم مانا جارہاہے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے جگدگرو رام بھدراچاریہ نے رام مندر کی تعمیر کی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔ مختلف ہندو تنظیموں کی طرف سے بھی رام مندر کی تعمیر کی تاریخ کا اعلان کیا جاچکاہے لیکن معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التواء ہونے کی وجہ سے مندر کی تعمیر پر روک لگی ہے۔ گزشتہ دنوں یوپی کے بلرام پو رمیں رام جنم بھومی ٹرسٹ کے نائب صدر اور سابق ممبر پارلیمنٹ رام ولاس ویدانتی نے کہا تھا کہ ایودھیا میں رام جنم بھومی پر مندر کی تعمیر 2019 تک ہوسکتی ہے۔ ویدانتی نے کہا کہ ایودھیا میں رام جنم بھومی پر مندر کی تعمیر آئندہ 2019 تک ممکن ہے۔ جب کہ مرکزی وزیر کلراج مشرا نے ایک بار پھر رام مندر کا راگ الاپتے ہوئے کہا ہے کہ رام مندر ہمیشہ سے نمبر ایک انتخابی مسئلہ رہا ہے۔انھوں نے آنے والے یوپی اسمبلی انتخابات میں رام مندر مسئلے کے بھی ہونے کی بات کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی ،قانون، فرقہ وارانہ اور سماجی ہم آہنگی کا مسئلہ رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی رام مندر مسئلہ تو ہمیشہ ہمارے لئے پہلے نمبر پر رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر اچانک تمام بھگوا لیڈروں کو رام مندر کی یاد کیوں آنے لگی؟  ظاہر ہے کہ تمام لیڈران اور تمام سنگھی جماعتوں کی ایک زبان خواہ مخواہ ہی نہیں ہے بلکہ اسے لے کر اندر اندر بھی کچھ کھچڑی پک رہی ہے مگر اصل مسئلہ اسمبلی انتخابات ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سنگھ پریوار کو نہ تو رام سے محبت ہے اور نہ ہی رام مندر بنانے میں کوئی دلچسپی ہے، اصل میں اسی ایشو کے سبب بھاجپا کا وجود ہے اور ایک بار پھر وہ اسے ووٹ کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 516