donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Uttar Pradesh Ka Siyas Mustaqbil Kya Hai


اترپردیش کا سیاسی مستقبل کیا ہے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    اترپردیش میں کیا ہوگا؟ کیا سماج وادی پارٹی کی سرکار دوبارہ بن پائے گی؟ کیا مایاوتی کی واپسی ہوگی؟ کیا کانگریس کا کارڈ کامیاب ہوگا اور وہ کنگ میکر کے کردار میں نظر آئے گی یا پھر سنگھ پریوار کی حکمت عملی کامیاب ہوگی اور بی جے پی لوک سبھا انتخابات کی طرح ودھان سبھا میں بھی بازی مار لے گی؟ ان سوالوں پر اترپردیش ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں بحث شروع ہوچکی ہے حالانکہ اسمبلی انتخابات میں فی الحال ایک سال باقی ہیں۔کانگریس نے الیکشن مینیجر شانت کشور کی خدمات لی ہیں جن کا مشورہ ہے کہ پرینکا گاندھی کو وزیراعلیٰ کا امیدوار بنایا جائے تو کانگریس کا احیاء نو ہوسکتا ہے جب کہ بی جے پی ریاست میں فرقہ وارانہ تقسیم پر امید لگائے بیٹھی ہے۔ ادھر مایاوتی ابھی سے امیدواروں کا فیصلہ کرچکی ہے اور کسی بھی پارٹی کے ساتھ اتحاد کے بغیر الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ ریاست میں بی ایس پی کی حمایت میں ہوا بھی بننے لگی ہے مگر ایسا نہیں لگتا کہ مایاوتی تنہا الیکشن لڑکر کوئی بڑا تیر مارپائینگی۔ کانگریس یہاں حکمت عملی کے ساتھ الیکشن لڑ رہی ہے اور چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد بنانے میں لگی ہوئی ہے مگر اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ زمینی سطح پر کہیں نہیں ہے۔آج یہاں عوامی محفلوں میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ اترپردیش میں مہاگٹھبندھن بنے گا؟ کیا یہ اتحاد اسی طرح کامیاب ہوگا جس طرح بہار میں ہوا تھا؟ کیا سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے بغیر یوپی میں کوئی اتحاد بامعنیٰ ہو گا؟ ان سوالوں کے بیچ بہار کی طرح اترپردیش میں بھی مہاگٹھبندھن کی تیاریاں چل رہی ہیں اور اس کے مرکز میں کانگریس ہے۔ تمام چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر آنے کے لئے بات چیت کر رہی ہیں۔ اس لئے امکان بڑھ گیا ہے کہ بہاراسمبلی انتخابات کا اتحاد اتر پردیش میں بھی دہرایا جا ئے۔ مہاگٹھبندھن کے بینر تلے بہار میں انتخابی پرچم لہرا چکا جے ڈی یو اتر پردیش میں بھی غیر بی جے پی سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں لگ گیا ہے۔اس کے شارے ان سبھی پارٹیوں کی طرف سے ملنے لگے ہیں جن کے مہاگٹھبندھن میں شامل ہونے کی امید ہے۔ جنتادل (یو) کے صدر شرد یادو اس سلسلے میں کوشاں ہیں اور انھوں نے اس کا اشارہ بھی دیا ہے جب کہ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار سے اترپردیش کی سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔راشٹریہ لوک دل کے چودھری اجیت سنگھ نے حال ہی میں نتیش کمار اور شرد یاود سے ملاقات کی ہے جب کہ کہ پیس پارٹی کے رہنما ڈاکٹر محمد ایوب بھی نتیش کمار اور جنتادل یو کے لیڈران سے مل رہے ہیں۔اپنادل نے بھی اتحاد میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ کانگریس ،جنتا دل یو اور راشٹریہ جنتادل تو بہار میں بھی مہاگٹھبندھن کا حصہ رہے ہیں مگر اترپردیش میں عام آدمی پارٹی کے بھی مہاگٹھبندھن میں شامل ہونے کی امید کی جارہی ہے۔

ایک سروے رپورٹ

    اترپردیش میں کانگریس نے ابھی سے احیاء نو کی کوششیں شروع کردی ہیں اور پرشانت کشور سیدھے طور پر راہل گاندھی کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اس دوران ایک انتخابی سروے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مایاوتی کی پارٹی بی ایس پی سب سے اچھی پوزیشن میں ہے اوراسے دوسو سے کچھ کم سیٹیں مل سکتی ہیں۔ اس سروے کے مطابق اگر مایاوتی کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرتی ہیں تو انھیں اکثریت مل سکتی ہے ورنہ وہ کسی بھی حال میں اکثریت نہیں پاسکتیں۔ اس سروے میں بی جے پی کو دوسرے نمبر پر دکھایا گیا ہے جو سو سے کچھ زیادہ سیٹیں حاصل کرسکتی ہے۔ سروے کے مطابق سماج وادی پارٹی کی حالت پتلی ہے اور اسے سو سیٹیں بھی ملنا مشکل ہے۔سروے میں دعوی کیا گیا ہے کہ ریاست کی 403 سیٹوں میں سے 185 نشستیں بی ایس پی کے کھاتے میں جائیں گی۔ 2012 کے اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی 80 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی تھی لیکن، موجودہ وقت کو دیکھتے ہوئے بی ایس پی حکومت بناتی ہوئی نظر آرہی ہے، تاہم اکثریت کے لئے 202 نشستوں کی ضرورت پڑے گی۔ اس کو دیکھتے ہوئے مایاوتی کو بیرونی مددکی ضرورت حمایت پڑ سکتی ہے۔سروے میں کہا گیا ہے کہ سماج وادی پارٹی اس بار محض 80 سیٹوں پر ہی جیت حاصل کرپائے گی۔ گزشتہ انتخابات میں اسے 228 سیٹیں ملی تھیں۔2017 کا یوپی اسمبلی الیکشن یہ طے کرے گا کہ نریندر مودی حکومت 2019 کے عام انتخابات جیت پائے گی یا نہیں؟ تاہم، سروے میں بی جے پی کی حالت اچھی بتائی گئی ہے۔ وہ120 نشستیں جیت کر دوسرے نمبر پر رہے گی۔کانگریس کو محض 13 سیٹیں ہی ملتی دکھائی دے رہی ہیں۔سروے کے مطابق، وزیر اعلی کے طور پر لوگوں کی پہلی پسند مایاوتی (31 فیصد) ہیں۔ وہیں، 30 فیصد لوگوں کی پسند موجودہ وزیر اعلی اکھلیش یادو ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ اور ریاست کے سابق وزیر اعلی راج ناتھ سنگھ 18 فیصد لوگوں کی پسند ہیں۔

ملاقاتوں کا سلسلہ

    یوپی میں مہاگٹھبندھن کی تیاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حال ہی میںبہار کے وزیر اعلی نتیش کمار اور جد (یو) کے صدر شرد یادو نے قومی لوک دل کے صدر چودھری اجیت سنگھ سے ملاقات کی ہے۔ چودھری اجیت سنگھ کے گھر دوپہر کے کھانے پر ہوئی ملاقات میں یوپی انتخابات میں متحدہ طور پر کام کرنے پر ابتدائی اتفاق رائے ہو گئی ہے۔ اس درمیان، اپنا دل کی صدر کرشنا پٹیل نے بھی بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار سے ملاقات کر مہاگٹھبندھن میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔جب کہ سول سوسائٹی کے کچھ مسلم دانشوروں نے بھی نتیش کمار سے مل کر مہاگٹھبندھن کی کوششوں پر اتفاق کیا ہے۔ پیس پارٹی کے صدر ڈاکٹر ایوب انصاری بھی وزیر اعلی نتیش کمار سے جلد ہی مل سکتے ہیں۔وہ ماضی میں بھی نتیش کمار سے ملاقات کر چکے ہیں۔ادھر آر ایل ڈی صدر چودھری اجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ وزیر اعلی نتیش کمار، جے ڈی (یو) کے صدر شرد یادو اور بہار انتخابات میں پرچارکی کمان سنبھالنے والے پرشانت کشور سے ملاقات ہوئی ہے۔ ملاقات کے دوران اجیت سنگھ کے بیٹے اورسابق ممبر پارلیمنٹ جینت چودھری بھی موجود تھے۔ اسمبلی انتخابات میں ساتھ الیکشن لڑنے پر بات ہوئی ہے۔ یہ یوپی میںمہاگٹھبندھن بننے کا آغاز ہے۔ جد (یو) کی کوشش ہے کہ آر ایل ڈی، اپنا دل، پیس پارٹی، سمیت تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کو ساتھ لے کر مہاگٹھبندھن کو اسمبلی انتخابات میں عوام کے سامنے ایک متبادل کے طور پر پیش کرے۔

    جد (یو) کے سیکرٹری جنرل کے سی تیاگی نے کہا ہے کہ اتر پردیش کی کئی جماعتوں نے وزیر اعلی نتیش کمار سے مل کر ساتھ کام کرنے اور الیکشن لڑنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ جن میں پیس پارٹی کے صدر ڈاکٹر ایوب انصاری بھی شامل ہیں۔یہ سوال کئے جانے پر مہاگٹھبندھن میں سماج وادی پارٹی بھی شامل ہو گی تو، انہوں نے کہا کہ سماج وادی پارٹی کسی بھی پارٹی سے اتحاد کرنے سے انکار کر چکی ہے۔

سماج وادی پارٹی نے اڑایا مذاق

    جہاں ایک طرف جنتادل (یو) اور کچھ دوسری پارٹیاں مہاگٹھبندھن کی تیاری کر رہی ہیں وہین دوسری طرف سماج وادی پارٹی نے بہار کی طرح اتر پردیش میں بھی مہاگٹھبندھن بنانے کا مذاق اڑایا ہے۔ایس پی نے کہا ہے کہ جنہوں نے کبھی جدوجہد نہیں کی اور ہمیشہ اقتدار میں رہے وہ اب مہاگٹھبندھن کی ہوائی بحث میں لگے ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے صوبائی ترجمان راجندر چودھری نے کہا کہ سماج وادی پارٹی کے خلاف مہاگٹھبندھن کے حامی جب بی جے پی مخالف کسی مہم میں شامل نہ ہونے کی بات کرتے ہیں تو ان کی دانشورانہ صلاحیت اور سیاسی سمجھ بوجھ مذاق بن جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتر پردیش میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی فرقہ وارانہ سیاست پر صرف ایس پی نے ہی روک لگایا ہے۔ سماج وادی پارٹی کا اٹوٹ اتحاد پہلے ہی ریاست کے22 کروڑ عوام کے ساتھ ہے۔ایس پی ترجمان نے جے ڈی یو کے صدر شرد یادو پر بالواسطہ طور پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ جنہیں عوام پر یقین نہیں ہے و ہی مہاگٹھبندھن کی بات کرتے ہیں۔ ترجمان نے طنز کیا کہ جس طرح روس میں بارش ہونے پر بھارت کے کمیونسٹ چھتری تان لیتے تھے وہی حال مہاگٹھبندھن والوں کا ہے جو پڑوسی بہار کی جیت پر انتہائی جوش و خروش کے شکار بن گئے ہیں۔

یوپی کا سیاسی مستقبل

    یوپی اسمبلی کا الیکشن تقریبا مارچ 2017 میں ہونا ہے۔ نومبر دسمبر سے اس کا عمل بھی شروع ہو سکتا ہے۔ تین چار ماہ میں تصویر کچھ صاف ہونے کے بعد ہی بہار کی سیاسی سرگرمیوں کی یوپی میں سرگرم انٹری ہوگی۔ فی الحال یوپی کی دو بڑی پارٹیوں بی ایس پی اور ایس پی نے صاف کر دیا ہے کہ وہ اتحاد کی سیاست نہیں کریں گی۔ مایاوتی اور ملائم سنگھ یادو دونوں ہی ’’اکیلا چلو ‘‘کی راہ پر ہیں۔ کانگریس مہاگٹھبندھن کا اہم حصہ ہوگی۔جب کہ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی بھی اب رائج الوقت سیاست کا حصہ بنتی جارہی ہے اور کجریوال کی جس طرح سے نتیش کمار سے قربت بڑھی ہے، اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ بھی یوپی میں مہاگٹھبندھن کا حصہ بنے گی ۔ ادھرلوک سبھا انتخابات کے نتائج کو دیکھ کر جے ڈی یو یہ مان کر چل رہا ہے کہ ایس پی اور بی ایس پی اپنے طور پر بی جے پی سے مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ حالانکہ سماج وادی پارٹی کو مجوزہ مہاگٹھبندھن ساتھ لینے کو تیار نہیں اور بی ایس پی کسی کے ساتھ جانے کو تیار نہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ آر جے ڈی اور جے ڈی یو دونوں کے پاس یوپی میں کچھ نہیں ہے۔ ایسے میں کانگریس، آر ایل ڈی اور دوسری چھوٹی علاقائی جماعتوں کا ہی سہارا ہے، جس کے دم پر بہار کے وزیر اعلی نتیش کماریوپی میں اپنی بنیاد کو مضبوط کر سکتے ہیں مگر باوجود اس کے یہاں مایاوتی ہی سب پر بھاری پڑتی دکھائی دے رہی ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 602