donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> For Women
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Naghma Zahoor
Title :
   Hamal Maut Aur Normal Delivery : Lamha Fikriya

حمل ،موت اور نارمل ڈلیوری لمحہ فکریہ

 ڈاکٹر نغمہ ظہور

naghmazahoor@gmail.com

عورتوں میں حمل ٹھہرنے کا پتا چلنا ایک لاثانی احساس ہے، باہرچلتے پھرتے ہوئے آپ کو یوں لگ رہا ہوتا ہے، جیسے آپ اپنے اندر ایک شاندار راز چھپائے جارہے ہوں۔جدید سماج  میں ایک طرف اگر سماجی علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کی کاوشوں نے عورتوں اور بچوں کی شرح اموات میں خاطر خواہ کمی لائی ہے تو دوسری طرف بہت سے معاشی اور معاشرتی مسائل نے ان شرح اموات کی شرح میں کمی کے بجائے زیادہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
گزشتہ پچیس برسوں کے دوران دنیا بھر میں زچگی کے دوران اور زچگی سے متعلق طبی پیچیدگیوں کے نتیجے میں خواتین میں شرح اموات تقریباً نصف رہ گئی ہے۔یہ ایک اچھی خبر ہے اور خواتین کے حیات بخش بھی ہے۔

اقوام متحدہ کے مختلف اداروں اور عالمی بینک کی ایک مشترکہ رپورٹ کے مطابق 1990ء اور 2015ء کے درمیان تک کے اعداد و شمار کا موازنہ کیا جائے تو عالمی سطح پر زچگی کے باعث پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیوں کے نتیجے میں خواتین کی جان چلے جانے کے واقعات میں 44 فیصد کمی آ چکی ہے۔

تاہم دوسری طرف یہ بات ابھی تک باعث تشویش ہے کہ مجموعی صورت حال مقابلتاً بہتر ہو جانے کے باوجود اس سال کے دوران اب تک اسی طرح کی طبی پیچیدگیاں تین لاکھ تین ہزار سے زائد خواتین کی جان لے چکی ہیں، جن میں سے زیادہ تر خواتین کی موت ایشیا اور افریقہ کے ترقی پذیر ملکوں میں ہو ئی ۔ 

برطانوی طبی تحقیقی جریدے ’دا لینسَیٹ‘ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق زچگی کے دوران پیدا ہونے والے طبی مسائل سے ماہرین کی مراد عام طور پر وہ پیچیدگیاں ہوتی ہیں، جن کا کسی بھی حاملہ خاتون کو دوران حمل یا پھر بچے کی پیدائش سے چھ ہفتے بعد تک کے عرصے کے دوران سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایسی وجوہات کی بنا پر 1990ء میں عالمی سطح پر پانچ لاکھ بتیس ہزار خواتین کی اموات ریکارڈ کی گئی تھیں ، جو 2015ء میں کم ہو کر تین لاکھ تین ہزار رہ گئی تھیں۔ جنیوا سے 2015 کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اپنے تحقیقی مطالعے میں عالمی ادارہ صحت WHO نے بھی اہم کردار ادا کیاہے۔عالمی ادارۂ صحت کی تحقیق اور طب تولیدی سے متعلقہ امور کی رابطہ کار ڈاکٹر لیل سے  Lale Say نے بتایا گزشتہ ربع صدی کے دوران ان وجوہات کی بنا پر عورتوں میں شرح اموات کم کرنے میں کافی مدد ملی ہے۔ اس عرصے کے دوران ایسی ہلاکتوں کی شرح میں 44 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے، ’’یہ پیش رفت بہت حوصلہ افزا ہے، لیکن یہ بہتری مختلف ملکوں اور خطوں میں مختلف تناسب سے دیکھنے میں آئی ہے۔‘‘

ماہرین کے مطابق انہی اعداد و شمار کو اگر ایک دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو 1990ء میں ہر ایک لاکھ زندہ پیدا ہونے والے بچوں کی ماؤں میں سے 385 حاملہ خواتین زچگی کے دوران یا زچگی کے چھ ہفتے کے بعد تک پیدا ہونے والے مسائل کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی تھیں۔ اب یہ تعداد کافی کم ہو چکی ہے اور ماہرین کو اندازہ ہے کہ آئندہ چند برسوں میں یہ شرح مزید کم ہو جائے گی۔

گزشتہ ڈھائی عشروں کے دوران اس حوالے سے سب سے زیادہ بہتری مشرقی ایشیائی ملکوں میں دیکھنے میں آئی، جہاں خواتین میں ہلاکتوں کی شرح 95 سے کم ہو کر 27 خواتین فی ایک لاکھ زندہ بچوں کی سطح تک آ گئی ہے۔

اقوام متحدہ نے اپنے لیے یہ ہدف مقرر کر رکھا ہے کہ 2030ء تک عالمی سطح پر زچگی کے دوران خواتین میں اموات کی شرح مزید کم کر کے 70 یا اس سے بھی کم خواتین فی ایک لاکھ زندہ بچوں کی سطح تک لائی جائے۔ہمارے یہاں عورتوں کی زچگی کے دوران اموات کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جن میں خون کا بہہ جانا بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔کیونکہ زچگی کے دوران خون کے زیادہ بہہ جانے سے ہر گھنٹے میں تین خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

علاوہ ازیں بچوں کی بہبود کیلئے کام کرنے والے بین الاقوامی امدادی ادارے ’’سیودی چلڈرن‘‘ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ہندوستان  میں پیدائش کے چوبیس گھنٹے میں ہی تین لاکھ بچے مر جاتے ہیں جو دنیا میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کا 29فیصد ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماؤں کو بچوں کی پرورش کرنے کیلئے سب سے مشکل جگہ جمہوریہ کانگو ہے۔رپورٹ کے مطابق ماں بننے کے تین بہترین ممالک میں فن لینڈ ،سویڈن اور ناروے ہیں۔فلاحی ادارے نے 176ممالک میں ماں کی صحت،بچوں کی اموات ،تعلیم اور آمدنی کے تناسب سے عوام کا موازنہ کیا۔’’سیودی چلڈرن‘‘ کی طرف سے جاری رینکنگ میں آخری دس ممالک کا تعلق سب صحارا افریقہ سے ہے۔جہاں اوسطاً تیس میں سے ایک عورت زچگی سے پیدا ہونے والے مسائل کی وجہ سے ہلاک ہوتی ہے اور سات میں سے ایک بچہ اپنے پانچویں سالگرہ سے پہلے مر جاتا ہے۔جمہوریہ کانگو میں جنگ اور غربت کی وجہ سے ماؤں کی زندگی میں مشکل وقت میں کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ،کم خوراک اور جسمانی کمزوری جیسے مسائل کا شکار ہوتی ہیں۔ماؤں کیلئے دوسرے بد ترین ممالک میں صومالیہ،سیرا لیون ،مالی،نائجر،گیمبیا ،نائجیریا ،چاڈ اور آئیوری کوسٹ ہیں۔سیودی چلڈرن کے مطابق سب صحارا افریقہ میں زچہ و بچہ کے اموات کی بڑی وجہ غذا کی کمی ہے۔رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر سال تین لاکھ سے زیادہ بچے پیدا ہونے کے چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی فوت ہوجاتے ہیں اور ماہرین کے مطابق اس کیلئے سیاسی عزم کی کمی اور حفظان صحت کا ناقص نظام ذمہ دار ہیں۔ادارے کے مطابق پاکستان میں یہ تعداد ساٹھ ہزار اور بنگلہ دیش میں اٹھائیس ہزار ہے اور ان اموات کی ایک بڑی وجہ ما?ں کو مناسب خوراک کی عدم دستیابی ہے۔رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں اگرچہ دنیا کی صرف چوبیس فیصد آبادی رہتی ہے لیکن یہاں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح غیر متناسب طور پر زیادہ ہے۔ادارے کے مطابق چوبیس گھنٹوں کے اندر فوت ہونے والے بچوں میں سے چالیس فیصد کا تعلق جنوب ایشیا سے ہوتا ہے کل تعداد میں سے انتیس فیصد بچے بھارت میں فوت ہوجاتے ہیں۔ادارے کے علاقائی ڈائریکٹر کے مطابق حالات میں بہتری تو آئی ہے لیکن پھر بھی بھارت،پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہر روز ایک ہزار سے زیادہ بچے ایسی وجوہات سے فوت ہوتے ہیں جن کا تدارک ممکن ہے۔ادارے کے مطابق ان اموات کی تین بنیادی وجوہات ہیں :زچگی کے دوران پیچیدگیاں،وقت سے پہلے بچوں کی پیدائش اور انفکیشن اور اگر ماؤں اور بچوں کو حفظان صحت کے مناسب نظام تک رسائی دستیاب ہو تو ان اموات میں پچھتر فیصد کمی کی جا سکتی ہے۔لیکن ادارے کے مطابق سیاسی عزم کی کمی کی وجہ ہے حفظان صحت کا نظام بہتر نہیں بنایا جا سکا ہے۔بھارت میں ہر سال زچگی کے دوران چھپن ہزار عورتوں کی موت ہورہی ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔بھارت میں تقریباً آدھی زچگیاں گھر پر ہی ہوتی ہیںاور تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرز کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان میں پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔دور درواز علاقوں میں نہ تو ڈاکٹر ہوتے ہیں اور نہ ہی ہیلتھ سنٹر جس کی وجہ سے بچوں کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

چند سال پہلے آج کی طرح ٹیکنالوجی میسر نہیں تھی لیکن لوگ پھر بھی بہت خوش تھے بچے اس وقت بغیر آپریشن کے پیدا ہوتے تھے کیونکہ اس وقت کی عورت زیادہ پڑھی لکھی نہ ہونے کے باوجود بھی اپنا اور اپنے بچے کی صحت کا ہر لحاظ سے خیال رکھتی تھی لیکن اس کے برعکس آج کی عورت کو دیکھیں اس کے پاس تعلیم نہ بھی ہو تو سوشل میڈیا کے ذریعے سب باتوں کی آگاہی مل جاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ ان باتوں پر عمل پیرا نہیں کرتی جس کی وجہ سے آج کل ہر دوسرے بچے کی پیدائش ہسپتال میں آپریشن سے ہوتی ہے اور اس میں سے بھی بیس سے تیس فیصد بچے کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں کیونکہ حمل کے دوران عورتیں احتیاط سے کام نہیں لیتی ہیں ان میں کچھ قصور عورت کا ہے اور کچھ گھریلو لیکن ہمیں اپنی آنے والی نسل کی بھی فکر کرنی پڑتی چاہیے عورتوں کو حمل کے دوران بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے حمل کے دوران عورت کے جسم میں مختلف قسم کی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں یہ تبدیلی عام طور پر معمولی سی ہوتی ہے لیکن اگر وقت پر اس کا خیال نا رکھا گیا تو اس سے کئی قسم کے جلدی امراض پیداہوجاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ درج ذیل مزید تبدیلیاں بھی پیدا ہونے کا خدشہ ہو سکتا ہے-

قبض  : حمل کے دوران ہارمون کی تبدیلی کی وجہ سے عورت کے جسم میں سب سے پہلے قبض کی شکایت پیدا ہوتی ہے اس سے بچنے کے لئے صحت مند اور بھرپور غذائیت والی خوراک استعمال کرنی چاہیے جیسا کہ اناج۔ فروٹ۔ سبزیاں۔ پھلیاں اور دالیں وغیرہ اور اس کے ساتھ روزانہ ورزش کریں اور اس کے ساتھ پانی کا استعمال زیادہ کریں

جسم کے نچلے حصے میں درد : یہ ایک ایسا درد ہے جو اچانک سے اور تیزی سے ہوتا ہے یہ عام طور پر پاوئں میں یا پیچھے کے عضلات میں اور اکثر رات کے وقت ہوتا ہے اس درد کی اصل وجہ کے بارے میں کوئی نہیں جانتا ہے لیکن اس سے بچاؤ کے لئے ٹانگ اور ٹخنے کی ورزش کرنی چاہیے جو خون کی گردش کو بہتر بناتی ہے جس کی وجہ سے عورت درد سے محفوظ رہتی ہے اس کی ورزش کا طریقہ یہ ہے۔

اپنے پاؤں کو تیس مرتبہ بند کریں اور کھولیں۔آٹھ مرتبہ سیدھی اور آٹھ مرتبہ الٹی سائیڈ میں گھمائیں۔

یہ طریقہ کار دونوں پاؤں کے ساتھ روزانہ ایک مرتبہ لازمی کریں اگر کسی اجانک سے یہ درد شروع ہو جاتا ہے تو اپنے پاؤں کی انگلیوں کو جھٹکے سے اوپر کریں اور پاؤں کے عضلات کو رگڑیں-

چڑچڑاپن : بعض دفعہ عورتوں میں حمل کے دوران چڑ چڑاپن ہو جاتا ہے یہ دماغ تک صاف خون نہ پہنچنے سے دماغ میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے یہ اکثر تیزی سے اٹھنے یا پیٹھ کے بل زیادہ دیر تک لیٹنے کی وجہ سے ہوتا ہے اس سے بچنے کے لئے اپنے اٹھنے اور بیٹھنے کا عمل آرام سے کریں اور اگر کھڑے ہونے کے دوران آپ چڑچڑاہٹ محسوس کریں تو فوری طور پر بیٹھ جائیں اور اگر سونے کے دوران محسوس کریں تو سائیڈ تبدیل کر لیں-

حمل کے دوران گرمی محسوس کرنا : بعض دفعہ عورت ضرورت سے زیادہ گرمی محسوس کرتی ہے یہ ہارمون کی تبدیلی کی وجہ سے جلد کی طرف خون کا زیادہ دباؤ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے پسینہ زیادہ آتا ہے اس سے بچنے کے لئے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہننے سے سانس میں آسانی ہوتی ہے کیونکہ یہ روشنی کو جذب کرنے میں مدد کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ اپنے کمروں کو بھی ٹھنڈا رکھیں اور اپنے جسم کے کھلے اعضائ￿  کو تازہ پانی سے اچھی طرح دھوتے رہیں اس عمل سے آپ اپنے آپ کو تازہ دم محسوس کریں گے-

غصہ آنا : حاملہ عورتوں کو غصہ ضرورت سے زیادہ آتا ہے جو ہارمون کی تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس دوران اس پر کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اس سے بچاؤ کیلئے سبز پتوں والی سبزیوں کا استعمال زیادہ فائدہ مند ہے-

پیشاب کی زیادتی : حمل کے دوران اکثر عورتوں میں پیشاب کی زیادتی ہو جاتی ہے جو پیدائش کے وقت تک رہتی ہے اگر آپ کو رات کے وقت پیشاب کی زیادتی ہوتی ہے تو شام کے وقت مشروبات سے پرہیز کریں چائے اور کافی سے بھی -

جلد اور بالوں میں تبدیلی : ہارمون کی تبدیلی کی وجہ سے جلد کی رنگت ہلکی ڈارک ہوجاتی ہے اور معدے والی جگہ پر ہلکی ڈارک لائن بھی بن جاتی ہے حمل کے دوران عورت میں بالوں کی زیادتی ہوجاتی ہے جو کہ پیدائش کے بعد گرنے شروع ہو جاتے ہیں-

وینز کی سوجن : حمل کے دوران عام طور پر عورت کے پاؤں کی نسیں یا وینز سوج جاتی ہیں لیکن یہ کوئی خطرے والی بات نہیں ہے کیونکہ پیدائش کے بعد یہ اپنی اصلی حالت میں آ جاتی ہیں اس سے بچنے کے لیے زیادہ دیر تک کھڑے رہنے سے اور ٹانگوں کے اوپر ٹانگیں چڑھانے سے اور زیادہ وزنی چیزیں اٹھانے سے پرہیز کریں اور اس کے ساتھ ساتھ بیٹھنے اور سونے کے دوران اپنی ٹانگیں ہلکی سی اوپر ہونی چاہئیں۔

حمل کے دوران یہ کچھ ابتدائی تبدیلیاں ہیں اگر وقت پر ان کو دور نا کیا گیا تو اس کے بعد درج ذیل بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے-سر درد،خون کا آنا،مسوڑھوں سے خون آنا،کمر کا درد،بلند فشار خون، بد ہضمی ، سینے کی جلن،صبح کا بخار،نکسیر، بواسیر، نیند کا نہ آنا، تھکن، جوڑھوں پر سوجن وغیرہ وغیرہ اور اس کے ساتھ اور بھی بہت سے زنانہ بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں اس لیے عورت کو حمل کے دوران اپنے کھانے کا خاص خیال رکھے جتنا ہو سکے اپنی غذا میں فروٹ کا استعمال کرے اپنے آپ کو پر سکون ماحول میں رکھے زندگی کی پریشانیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے اور اس مقصد میں اس کا خاوند بھی اس کا ساتھ دے اور اس کو ہر وہ سہولت مہیسر کرے کیونکہ یہ صرف ایک بچے کا مسئلہ نہیں ہے یہ ایک نسل کی گروتھ کا مسئلہ ہے۔

برطانیہ میں چار مہینے بعد پہلا الٹراساؤنڈ ہوتا ہے اور اگر کوئی جاننا چاہتا ہو تو بچے کی جنس بتا دی جاتی ہے۔ڈیلیوری کے وقت خاوند عورت کے پاس ہوتا ہے اور کمرے میں ایک یا دو نرسیں ہوتی ہیں۔ کسی قسم کی دوائی نہیں دی جاتی، عورت درد سے چیختی ہے مگر نرس اسے صبر کرنے کا کہتی ہے اور99 فیصد ڈیلیوری نار مل کی جاتی ہے۔ نہ ڈیلیوری سے پہلے دوا دی جاتی ہے نہ بعد میں۔ کسی قسم کا ٹیکہ نہیں لگایا جا تا ۔ 

عورت کو حوصلہ ہوتا ہے کہ اس کا خاوند پاس کھڑا اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہے۔ ڈیلیوری کے بعد بچے کو عورت کے جسم سے ڈائریکٹ بغیر کپڑے کے لگایا جاتا ہے تاکہ بچہ ٹمپریچر مین ٹین کر لے۔ بچے کو صرف ماں کا دودھ پلانے کو کہا جاتا ہے اور زچہ یا بچہ دونوں کو کسی قسم کی دوائی نہیں دی جاتی سوائے ایک حفاظتی ٹیکے کے جو پیدائش کے فوراً بعد بچے کو لگتا ہے۔ پہلے دن سے ڈیلیوری تک سب مفت ہوتا ہے اور ڈیلیوری کے فوراً بعد بچے کی پرورش کے پیسے ملنے شروع ہو جاتے ہیں۔ 

پاکستان میں لیڈی ڈاکٹر ڈیلیوری کے لئے آتی ہے اور خاتون کے گھر والوں سے پہلے ہی پوچھ لیتی ہے کہ آپ کی بیٹی کی پہلی پریگنینسی ہے، اس کا کیس کافی خراب لگ رہا ہے جان جانے کا خطرہ ہے، آپریشن سے ڈیلیوری کرنا پڑے گی۔  99فیصد ڈاکٹر کوشش کرتی ہے کہ نارمل ڈیلیوری کو آپریشن والی ڈیلیوری میں تبدیل کر دیا جائے۔ ڈیلیوری سے پہلے اور بعد میں کلوگرام کے حساب سے دوائیاں دی جاتی ہیں ڈیلیوری کے وقت خاوند تو دور کی بات خاتون کی ماں یا بہن کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور اندر ڈاکٹر اور نرس کیا کرتی ہیں یہ خدا جانتا ہے یا وہ خاتون۔ 

نارمل ڈیلیوری بیس تیس ہزار میں اور آپریشن والی ڈیلیوری اسی نوے ہزار میں ہو تو ڈاکٹر کا دماغ خراب ہے کہ نارمل کی طرف آئے۔ آخر کو اس کے بھی تو خرچے ہیں بچوں نے اچھے سکول میں جانا ہے۔ نئی گاڑی لینی ہے بڑا گھر بنانا ہے۔ اسلام کیا کہتا ہے انسانیت کیا ہوتی ہے سچ کیا ہوتا ہے بھاڑ میں جائے، صرف پیسہ چاہئیے۔ پاکستان میں گائنی کالوجسٹ کی چالاکیاں اپنی جگہ لیکن تساہل پسند پیسے والی خواتین بھی ڈلیوری کیس کو مشکل بنا دیتی ہیں۔ ایسے میں گائنی کولوجسٹ کو رقم بنانے کا جواز مہیا کرتی ہیں۔آجکل کی خواتیں بغیر درد کے بچہ پیدا کرنا چاہتی ہیں یا وہ آپریشن سے گزرکر بچہ پیدا کرنا پسند کرتی ہیں۔وہ زمانہ اتنا پرانا نہیں جب خواتین کو مشقت اور محنت کا عادی بنا کر انہیں نارمل ڈلیوری دایہ کے ہاتھوں بھی کراتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔غریب عورت آج بھی گھروں میں نارمل ڈلیوری کراتی ہیں۔ ماں کے دودھ سے اعلیٰ غذا نہیں۔تساہل پسند عورت اپنے بچے کو اس نعمت سے بھی محروم رکھتی ہیں۔ماں کے دودھ میں جادوئی اثر پایا جاتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد کے چند ہفتوں کے دوران اس کا مکمل نظام ہضم ماں کے دودھ سے ہی نشو و نما پاتا اور مضبوط ہوتا ہے۔ ماں کا دودھ بچے کو آنتوں کی انفیکشن یا عفونت سے بچاتا ہے، اس کے نظام ہضم کو مضبوط بناتا ہے۔ ماں کا دودھ پینے والے بچے کے پیٹ میں ابھار یا سوجن نہیں ہوتی، نہ ہی اسے قبض کی شکایت ہوتی ہے۔ بچے کا مدافعتی نظام مضبوط بنانے اور اسے مختلف الرجیز سے محفوظ رکھنے میں ماں کے دودھ سے بہتر دنیا کی کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ ماں کا دودھ پینے والے بچے کے مسوڑھے اور جبڑے بھی مضبوط ہوتے ہیں۔ تساہل پسندی اور خواتین میں جسمانی مشقت کم ہونے سے انہیں زچگی کے دوران پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ایسی خواتین کے بچوں کی صحت بھی قابل رشک نہیں ہوتی۔خواتین کے لیئے یہ بات انتہائی حیران کن ہوگی کہ صدیوں پہلے یورپ میں خواتین کو بیلی ڈانس سکھا کر انہیں زچگی کے لئے تیار کیا جاتا تھا جس سے وہ ڈلیوری کے دوران بیلی ڈانس کے اندازِ رقص سے صحت مند بچہ پیدا کرتیں اور انہیں درد بھی نہیں ہوتا تھا۔ مغرب میں آج بھی عورت بچے کی پیدائش تک جسمانی محنت مشقت والی جاب جاری رکھتی ہیں۔ڈاکٹر آپریشن سے پیسہ بنانے کی بجائے نارمل ڈلیوری کو ترجیح دیتے ہیں۔زچہ بچہ کو دو دن بعد ہسپتال سے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔مغرب میں ملازمت پیشہ خواتین بھی اپنے بچے کو ماں کا دودھ پلاتی ہیں۔ہندوستان میں پڑھی لکھی خواتین بھی حمل اور بچہ کی پیدائش سے دودھ پلانے تک کے مراحل میں کاہلی اور غفلت کا شکار ہو رہی ہیں۔ حیلے بہانے کرتی ہیں۔فطری نظام سے محروم ہو کر مصنوعی طریقوں کو ترجیح دے رہی ہیں۔ 
 
****************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 694