donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Ghazal Numa
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Azad Gurudaspuri
Title :
   Ghazal Numa Ka Maujid Kaun

غزل نما کا موجد کون؟
 
آزاد گورواسپوری، جمشید پور
 
شاعر، ادیب اور فنکار قوم کاقیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، جواپنی تخلیقات کے ذریعے سماج کی بہبودی کیلئے لگاتار کوشاں رہتے ہوئے مینارہ نور کا کام سر انجام دیتے ہیں۔ اصل میں شاعر اپنے ایام کانباض یعنی نبض شناس ہوتا ہے جس کی رہنمائی میں سماج نئی منزلوں سے آشنائی حاصل کرتاہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ شاعرمعیاری واصلاحی ادب کی تخلیقات کے ذریعے ہی زموں، ملکوں اور زبانوں کی سرحدوں کوبار کرکے انسانی زندگی کوخوبصورت رنگ وروپ عطاکرتاہے۔
 
لیکن آج کی شاعری میں واردات قلب جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی جدیدیت زدہ نئی پود اس سے واقف ہے اور فنی لوازمات کا بھی یہی عالم ہے جس کاردعمل یہ ہوا کہ آج شاعری صرف خیال تک محدود ہوکررہ گئی ہے۔ جدیدشاعری میں تویہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ شاعر کہنا کیا چاہتا ہے لیکن اس کے باوجود جدیدشاعریہ سمجھتا ہے کہ مستندہے میرا فرمایاہوا۔ اسی بے راہ روی اور طبیعت کی نامور زینت کے باعث جناب مظہر امام نے آزاد غزل کی داغ بیل ڈالی اور جب اس وقت کے مشاہیراساتذہ نے اس کی مخالفت میں زمین آسمان ایک کردیے تو جناب مظہر امام نے کنارہ کشی اختیار کرنے میںہی عافیت محسوس کی اور اپنی چند ایک آزاد غزلیات کے ہمراہ پردہ نشین ہوگئے ۔
 
کچھ حضرات نے جب یہ دیکھا کہ غزلیہ شاعری کی طرح آزادغزل تخلیق کرنے میں فنی لوازمات کی چنداں ضرورت نہیں ہے تو کئی لوگ راتوں رات شاعر بن گئے۔ جبکہ ایک قاری کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہ تھی اور اس سے ادب کو جو نقصان پہنچ رہا تھا وہ باعث تشویش تھا۔ اور شاعر کے اعلیٰ مذاق کے علاوہ شاعری بھی متاثر ہورہی تھی۔بعض حضرات آزاد غزل کے تن مردہ میں روح پھونکنے کی کوشش کرتے رہے ان میں مناظر عاشق ہرگانوی کانام پیش پیش ہے۔ اور پھر ایسا ہوا کہ انہوں نے غزل نما کی ڈفلی بجادی، اس صنف کے بارے میں یہ افواہ چھاپی جاتی رہی کہ اس کے موجد ظہیرغازی پوری ہیں جبکہ جناب مناظر ہرگانوی کی گراں مایہ تحقیق نے اس دعویٰ کوصدفیصدغلط ثابت کردیاہے۔ کیونکہ موصوف کے پاس پختہ ثبوت موجود ہیں جویہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ غزل نما کے موجد جناب شاہد جمیل ہیں اور ان کی تخلیق کردہ تحریر بعنوان غزل نماہفتہ وار غنچہ ، بجنور کے یکم اکتوبر ۱۹۷۳کے شمارہ میں اشاعت پذیر ہوئی تھی جبکہ ظہیرغازی پوری کی آزاد غزل نما پہلی بار اگست ۱۹۸۱میں روزنامہ سالار بنگلورکے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوئی۔ وہ بھی آزادغزل کے نام ہے۔ پھر بھی ہردو غزل نما کی اشاعت کے درمیان آٹھ سال کاطویل ترین عرصہ موجودہے۔ اگر جناب شاہد جمیل کی غزل نما جنوری ۱۹۸۱میں بھی اشاعت پذیرہوئی ہوتی تب بھی انہیں ہی غزل نما کے موجد کے اعزازسے سرفراز کیاجاتا۔
ظہیرغازی پوری صاحب عرصہ دراز سے شعری ادب سے منسلک ہیں۔ انہیں مزید نام کی ہوس سے باز رہنا چاہئے خود ستائی وخود نمائی سے سوائے ذلت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا:
گوکاسہ طلب ہے لبالب بھراہو
پھر بھی لب ہوس پہ ہے کافی نہیں ہے یہ
آزادگورواسپوری
اب جبکہ بزرگ شاعر ناوک حمزہ پوری بھی جناب شاہد جمیل کے حق میں اپنا فیصلہ صادرفرماچکے ہیں کہ شاہد جمیل ہی کو غزل نما کا موجد تسلیم کرلیا جائے،تو ظہیرغازی پوری صاحب کو نہایت ہی خندہ پیشانی سے اسے تسلیم کرلینا چاہیئے، اور اس فضول کی بحث سے کنارہ کش ہوجاناچاہئے ، اسی میں ان کی بھلائی ہے۔
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 541