donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Ghazal Numa
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Monazir Ashiq Harganvi
Title :
   Gazal Numa Mein Aleem Saba Navedi Ki Khoon Rezi

غزل نما میں علیم صبانویدی کی خوں ریزی
 
ڈاکٹرمناظرعاشق ہرگانوی
 
علیم صبانویدی کی ۲۰۱۱میں نئی کتاب غزل شکن، کے نام سے آئی ہے۔ اس میں آزاد غزلوں کے ساتھ غزل نما بھی شامل ہیںجو صفحہ ۶سے ۱۸تک محیط ہیں۔
غزل نما کے حوالے سے بات کروں تو کئی نکتے گمراہ کن ہیں جن کی نشاندہی ضروری ہے۔الف۔کتاب کے سرورق سے لے کر آخری صفحہ تک دیکھنے سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ صرف اور صرف آزادغزل کامجموعہ ہے جبکہ اس میں غزل نما بھی شامل کی گئی ہے۔
 
’ب‘صفحہ۶ پر غزل نما کی سرخی لگا کر سوالیہ نشان قائم کیا گیاہے اگر یہ غزل نما ہے تو سوالیہ نشان کا جواز کیاہے؟
’ج‘صفحہ ۶ پر ہی غزل نما کی سرخی کے نیچے درج ہے ایک نیا تجربہ!
سچائی یہ ہے کہ اب یہ نیا تجربہ نہیں رہا۔ بعض شاعروں نے فردیات اور ابیات کو غزل نما کا نام دیا کاظم نائطی نے ۱۹۷۹میں مدراس کے ہفت روزہ اتحاد میں اس صنف سخن کی تحریک چلائی تھی اور خود انہوں نے تجربہ کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کاظم نائطی کی پوری توجہ آزاد غزل کی طرف ہوگئی تھی لیکن انہوں نے اپنے تجربے کانام غزل نما دیا تھا۔ مگر پھر میری تحقیق سے یہ پہلو سامنے آیا کہ غزل نما کے موجد شاہد جمیل ہیں جن کی دوغزل نما ۱۹۷۳میں شائع ہوچکی تھیں۔ اس لیے علیم صبا نویدی  نے اسے نیا تجربہ لکھ کر کیا ثابت کیا ہے 
 
غزل نما کے لئے درج ذیل ہئیت شاہد جمیل کی غزل نما سے سامنے آئی ہے اور اسے ہی اپنا کر پچاسوں شاعرنے تجربے کیے ہیں:
غزل نما کے تمام اشعار غزل ہی کی طرح ایک ہی بحر میں لکھے جاتے ہیں جن میں ردیف وقافیہ ہوتے ہیں۔
غزل نما کے شعر کا مصرع ثانی اور زان ارکان کے اعتبار سے مصرع اول کا نصف ہوتاہے جس میں ردیف وقافیہ ہوتے ہیں۔ یہ مصرع خود بھی ایک بحر میں ہوتا ہے مثلا شعر کے پہلے مصرع میں اگر آٹھ بارفعولن آیا ہے تو مصرع ثانی میں چار بار فعولن آئے گا۔ یہ التزام غزل نما کے تمام اشعار میں یکساں ہوگا۔
غزل نما کے لئے سالم ہجروں میں طبع آزمائی افضل ہے خواہ وہ مفرد بحرہویا مرکب بحرہو۔ غیریکساںیامختلف افاعیل والی مزاحف بحروں میں غزل نما لکھنا مستحسن نہیں ۔ البتہ یکساں زحاف والے ارکان میں غزل نما کے اشعار بخوبی لکھے جاسکتے ہیں کیونکہ صوتی اور بصری اعتبارسے یہ ارکان سالم بحروں کے ارکان جیسے ہی ہوتے ہیں۔
 
غزل نما کے ان تینوں اصول کوسامنے رکھ کر علیم صبانویدی کی غزل نما کا جائزہ لیں تویہ اندازہ فوراًہوجاتا ہے کہ وہ عروض واوزان میں لنگ کھاتے ہیں پہلی غزل نما،صفحہ۶، کامطلع ہے۔
دلدلی زمینوں سے کیا خزانے نکلیں گے
صرف ڈھانچے نکلیں گے
پہلا مصرع فاعلن مفاعیلن فاعلن فعاعیلن اور دوسرا مصرع فاعلن مفاعیلن میں ہے یہ اظہر من الشمس ہے کہ نویدی نے شاہد جمیل کی ہئیت میں غزل نما کہی ہے۔ لیکن کتاب میں ایک نیا تجربہ لکھ کر کھلم کھلا ادبی ڈکیتی، کی ہے۔ خود کوPresentکرنے کی یہ احمقانہ چالاکی ہے۔ شترمرغ کی طرح آنکھیں موند کر دزدروزروشن کاتمغہ بردار کہلواناکہاں کی دانش مندی ہے۔
نویدی کی دوسری غزل نما کامطلع دیکھئے 
سفرہوگا جدھراک راستہ ہو
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
یہ ایک غیرسالم بحرہے اور دوسرا مصرع پہلے کا نصف نہیں ہے۔ پوری غزل نما اصول کے خلاف ہے۔
نویدی کاتیسراکلام
پشت پرجیسے نمک کی بوریاںہیں
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
گھلنے والی نیکیاں ہیں
فاعلاتن فاعلاتن
پہلے مصرعہ میں اگر چارفاعلاتن ہوتے تو غزل نما کے اصول کے مطابق یہ شعردرست ہوتا۔ سبھی اشعار
لنگڑے لولے ہیں۔ غزل نما نہیں ہے۔
نویدی کاچوتھا کلام
مطلع:خوشی نصیبی ساتھ ہے
فاعلاتن فاعلن
میرے کاندھے پر کسی کاہاتھ ہے
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
یہ کلام غزل نما ہر گزنہیں ہے، اصول سے ناواقفیت ظاہرہوتی ہے۔ دوسرے مصرعہ میں ایک رکن زیادہ ہے۔ پھرسالم بحرمیں نہیں ہے۔
پانچواں کلام
مطلع: تعلق پرسش احوال تک ہے
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
صرف قیل وقال تک ہے
فاعلاتن فاعلاتن
یہ کلام بے بحر ہے، دونوں مصرعوں کی بحرالگ الگ ہے پھر کسی شعر کے پہلے مصرعہ میں رکن کم ہے اور دوسرے مصرع میں زیادہ ہے۔ اسی ڈھب پر ساراکلام ہے۔
صفحہ۱۱کاکلام:
مطلع:آپ کی کیاذات ہے
فاعلاتن فاعلن
جوملاوہ سیدالسادات ہے
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
یہ کلام بھی صفحہ۹ کے ڈھب پر ہے اور غزل نما کے اصول کے خلاف ہے۔
صفحہ۱۲کاکلام:
مطلع: جاں مری چلاتی ہے دیکھو
عیل مفاعیل فعولن
سینے میں بھلاکس کی صداآتی ہے دیکھو
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
ارکان کاخون صاف چلاتا نظر آتاہے دوسرے مصرعے کی بحر، مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن، میں سے کچھ حصے مفعول مفا، کوتہہ تیغ کر نے کے بعد باقی ماندھ حصے، عیل مفاعیل فعولن، کوپہلا مصرع بنایاگیا ہے۔ سارے مصرعے ایسے ہی الٹے سیدھے اور بے تکے طریق پر ہیں۔
صفحہ۱۳کاکلام:
اپنے مزاج کی کئی باتیں یہاں نہیں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
پھر بھی یہ دنیا گراں نہیں
لات مفاعیلن فاعلن
پہلے مصرع کے وزن سے مفعول فاع، کاٹ کرنکالنے والے نویدی نے دوسرے مصرع کے وزن کی شروعات لات سے کی ہے۔ ارکان اور اورزان کے ساتھ ایسی جوتالات شاید ہی پہلے کسی شاعر نے کی ہو۔ اس قسم کی اوٹ پٹانگ، لات ،گزاری دوسرے مصرعوں میں بھی ملتی ہے۔ بحر بھی سالم نہیں اور دوسرا مصرع پہلے مصرع کانصف بھی نہیں ہے۔
صفحہ۱۴کاکلام:
مطلع:
خواب اور خیال اپنی افتادہ کے موافق ،مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
اپنی شرافتیں اور اپنی عداوتیں سب اجدادکے مطابق
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
یہاں افتادہ غلط ہے۔ افتادصحیح ہے، پھر دوسرا مصرع پہلے مصرع کانصف نہ ہو کر الٹے زیادہ ارکان پر مشتمل ہے جوغزل نما کے خلاف ہے۔ بقیہ اشعار بھی ان ہی بدعنوان کے شکارہیں:
صفحہ۱۵کاکلام:
مطلع:
بیکار تھا جذبات کادیوان
فاعیل مفاعیل فعولات
چھپنے سے رہا میرے خیالات کادیوان ،مفعول مفاعیل مفاعیل فعولات
بے چارے لرزتے ارکان ،بقیہ اشعارکاہرمصرع اول فاعیل مفاعیل فعولات کے بدلے مفعول فعولن پرہے، مثلامحشرمیں طلب کر؍غالب کی قسم ہے؍ بھول آئے نکیرین؍مت ڈھونڈکہیں اور ؍تھامے ہے مجھے بھی۔ وغیرہ وغیرہ۔
صفحہ۱۶کاکلام:
مطلع لوگ جب نکلے سمندرکی طرف، فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
ہم چلے گھر کی طرف، فاعلاتن فاعلن
اس کلام میں کل چھ اشعار ہیں جن میں صرف چار میں اسی وزن کاانصرام ملتاہے غزل نما کے اصول کے مطابق اس قبیل کی بحروں میں مصرع دوم کی یہ صورت جائز قراردی گئی ہے۔ بشرطیکہ دوسرے مصرعے میں ارکان کی تعداد پہلے مصرع کانصف ہو۔ اس بابت میں نے غزل نما کے پہلے انتخاب کے پیش لفظ میں سیر حاصل گفتگوکی ہے۔ علیم صبانویدی کے تیسرے شعر اور پانچویں شعر کے مصرعہ ثانی اس طرح لکھے گئے ہیں:
اول سے آخری کی طرف
بے باک منظرکی طرف
ان دونوں میں الف زائد اور بے زائد کاخیال نہیںرکھاگیا ہے۔ اور اس طرح یہ مصرع ،فاعلاتن فاعلن، سے نکل کر، مستفعلن مستفعلن، جیسی دوسری بحر کے علاقے میں چلاگیاہے۔ آخراور ساغرکاقافیہ بھی محل نظرہے:
صفحہ ۱۷کاکلا:مطلع:
وہی اچھے لگے ہیںمفاعیلن فعولن
اگر مجھ کووہ کڑوے لگے ہیں، مفاعیلن مفاعیلن فعولن
غزل نما کایہ اصول نہیں ہے اس لیے غلط ہے۔
صفحہ۱۸کاکلام:
مطلع: تیراکیوں ہے میلاروپ، فعلن فعلن فعلن فاع
گدلی چادر میں کیوںہے،چندھیاجانے والاروپ
فعلن فعلن فعلن فع ، فعلن فعلن فعلن فاع
صفحہ۱۷کے کلام کی طرح اس میں بھی ارکان کی تعداددوسرے مصرعے میں زیادہ ہے اس لیے غزل نما کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔
قرولی ، چھری اور شمشیرکے ذریعہ غزل نما کے مصرعوں میں ارکان کی خون ریزی کی ایسی مثال شایددوسری جگہ نہ ملے۔
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 869