donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Ghazal Numa
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Monazir Ashiq Harganvi
Title :
   Metro Channel Karanchi Se Ghazal Numa Per Muzakra


 

میٹر وچینل (کراچی) سے غزل نما پر مذاکرہ


ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی


    معروف شاعر عبید اﷲ ساگر(کراچی، پاکستان )کا ۱۵ مارچ ۲۰۱۲ کو فون آیا:


    ’’یہاں ٹی وی پر غزل نما کے سلسلے میں ایک مذاکرہ ۱۹ مارچ کو ٹیلی کاسٹ ہوگا۔ آپ سے مذاکرہ کے دوران لائیو سوالات کئے جائنگے۔ اس بارے میں پروڈیوسر شمیم جاوید کل آپ سے بات کریںگے۔‘‘ میں نے شکریہ ادا کیااور ان کے گوش گز ار کیا کہ غزل نما کے موجد شاہد جمیل سے بھی سوالات کئے جائیں۔ میرا مشورہ انہیں پسند آیا اور شاہد جمیل کاموبائل نمبر انہوں نے نوٹ کیا۔
        اگلے دن شمیم جاوید کا فون آیا۔ دس منٹ تک انہوں نے تفصیلی بات کی۔ اور بتایا کہ کراچی کایہ میٹرو ایک چینل انٹر نیشنل ہے اور دنیا کے ایک سو ا کتالیس ممالک میں دیکھا جاتا ہے۔ ۱۹؍ کی رات میں یہاں کے وقت کے مطابق ساڑھے گیارہ بجے اور ہندوستان کے وقت کے حساب سے بارہ بجے پروگرام ٹیلی کاسٹ ہوگا۔’ بزم شاعری ‘کے عنوان سے یہ پروگرام بیحد مقبول ہے ۔چونکہ مذاکرہ غزل نما پر ہے اس لئے ہماری خواہش ہے کہ پروگرام کے دوران آپ سے اور شاہد جمیل سے بعض سوالات کئے جائیں۔


        میں نے خوشی ظاہر کی اور شکریہ ادا کیا تو انہوں نے کہا کہ ۱۹ ؍کی شام آٹھ بجے بطور یاد دہانی آپ سے پھر بات کروں گا۔ ٹھیک آٹھ بجے شمیم جاوید کا فون آیا۔ انہوں نے بتایا کہ بارہ بجے اینکر افشاں سحر آپ سے مخاطب ہوں گی ۔


        اور بارہ بجے شمیم جاوید کی آواز آئی کہ لائن پر بنے رہئے۔


     چند لمحے بعد عبید اﷲ ساگر کی آواز سنائی دینے لگی۔ وہ غزل نما پڑھ ہے تھے۔ ان کے خاموش ہوتے ہی مناظر عاشق ہرگانوی اور     شاہد جمیل کا تفصیلی تعارف دیا جانے لگا۔ پھر مجھ سے کہا گیا شاہد جمیل کی آواز سنئے۔ اینکر کے سوال کے جواب میں شاہد جمیل بتارہے تھے کہ غزل نما کی ایجاد کا خیال غورو خوض کے بعد آیا۔ اس وقت آزاد نظم کا چر چا تھا اور مظہر امام کی آزاد غزل توجہ کا مرکز بن رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ آزاد غزل میں ارکان کی تعداد کا سسٹم نہیں ہے۔ اسی لئے تجربہ برائے تجربہ ڈیڑھ مصرع کے التزام کی دو غزل نما کہی اور یہ ۱۹۷۳ء میں شائع بھی ہوئی۔ لیکن کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ میں اس تجربے کو بھول گیا تھا کہ ۲۰۰۹ ء میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے بجنور کے’ رسالہ غنچہ ‘میں اسے دریافت کیا اور مجھ سے رابطہ کرکے غزل نما کہنے کی فرمائش کی اور اپنے رسالہ’’ کو ہسار جرنل‘‘ میں شائع کی تو یہ صنف تو قع سے زیادہ مرکز نگاہ بن گئی۔ایک دوسرے سوال کے جواب میں شاہد جمیل نے بتایا کہ غزل نما کا مستقبل روشن ہے۔ بیکل اتساہی، قیصر شمیم، علقمہ شبلی، عتیق احمد عتیق، مہدی پرتا بگڑھی جیسے اساتذہ کے ساتھ بعض دیگر اہم شعر ا ء غزل نما کہہ رہے ہیں۔ ۲۰۱۰ ء میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے ڈھائی درجن شعر ا ء کا انتخاب شائع کیا تھا اور اب کتاب’’ غزل نما:  سمت و رفتار‘‘اور’ کوہسار‘ کا’ غزل نما نمبر ‘منظر عام پر لا کر اس کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے۔  پاکستان میںصابرؔ عظیم آبادی، سہیل ؔغازی پوری، عبیدؔ اﷲ ساگر اور دیگر شعر اء اس صنف سخن کے فروغ میں حصہ لے رہے ہیں۔

*******************

Comments


Login

You are Visitor Number : 688