donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Ghazal Numa
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Haqqaniul Qasmi
Title :
   Ghazal Numa : Sanfi Tashkeel Aur Tashakkus

غزل نما:صنفی تشکیل اورتشخص
 
نگاہِ شوق سے نئے منطقے روشن ہوتے ہیں!
 
حقانی القاسمی ’’دہلی‘‘
 
ممکنات کی دنیاہرایک پرمنکشف نہیں ہوتی۔ ایک متجس ذہن ہی اختراع اور ایجاد جیسے تخلیقی یااکتشافی عمل سے گزرسکتاہے۔ تجربہ تخیل اور داخلی قوت سے ہی اختراع کی راہیں روشن ہوتی ہیں۔ ذہن کی آنکھیں جب مشاہدات کی منزلوں سے گزرتی ہیں تو نئے خیالات کی لہریں وجود میں آتی ہیں اور اس کیلئے کسی بھی کیفیت کی قید نہیں ہے، خواب میں بھی اتفاقیہ بھی اور دیوانگی اور شعور میں بھی یہ اکتشافی عمل وقوع پذیرہوسکتا ہے۔ آئن اسٹائن کے ذہن میںنظریہ اضافیت کا عکس عالم خواب میں نظرآیا تو شعور کی روکی تکنیک جیمس جوائس کے شعور کی رہین منت تھی مگر انتظارحسین کی بات مان لی جائے تویہ تکنیک تودراصل دیوانگی کی دین ہے۔ انہوں نے حسن عسکری کے حوالے سے بہت پتے کی بات لکھی ہے کہ مولانا محمد حسین آزاد نے دیوانگی بھی نئی تکنیک میں کی ہے۔ یہ کہتے کہتے کسی قدر سنجیدہ ہوئے اور کہنے لگے عجب ہے، جوائس وغیرہ نے ہوش وہواس میں رہ کرکتنے تردوسے جس تکنیک کو برتاتھا اسے آزاد نے عالم دیوانگی میں کس بے تکلفی سے استعمال کیاہے۔ انتظارحسین نے اسی لیے آپ حیات کواردو کا پہلا ناول قراردیاہے، جس میں شعور کی رو کی تکنیک ہے۔
 
اختراع اور ایجاد کے لئے ذہانتیں مخصوص ہوتی ہیں تمام علوم فنوں میں اختراع کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے اور ان اختر اعات اور ایجادات کی وجہ سے ان کی اہمیت برقرارہے۔ ادب میں بھی ایسے اختراع اور ایجاد کرنے والے رہے ہیں جنہوں نے نئی شاخ نئی لہر،نئی ہئیت نئے اسلوب ، نئے اظہارسے ادب کی ثروت اور وسعت میں اضافہ کیاہے اور اس سے ادب کونیا تحرک ملاہے۔ آج بھی دنیاایڈگرایلن پوکوجاسوسی ناول کے معمارSavinien cyrano De Bergeracکوسائنس فکشن کے موجد، مراساکی ، شکی بوکرومانی ناول کے بنیاد گزار اور میری شیلی کولٹریری ہوررکی اساس رکھنے والی اور Procopiusکو اسکینڈل لٹریچر کے واضع کے طور پر یادرکھتی ہے اردو ادب بھی ایسے تجربوں سے عاری نہیں ہے یہاں کی ذہانتوں نے بھی مختلف اصناف میں تجربے کیے ہیں اور مختلف صنفوں کی تشکیل بھی کی ہے، جیسے کہہ مکرنی ،تروینی، ہائیکو، آزاد غزل اور دیگر اصناف ایسا ہی ایک صنفی تجربہ غزل نما بھی ہے جس کاہئتی انصرام متعین کرتے ہوئے مناظرعاشق ہرگانوی نے لکھاہے کہ غزل نما کے تمام اشعار غزل ہی کی طرح ایک ہی بحر میں لکھے جاتے ہیں،مناظرعاشق ہرگانوی نے لکھاہے کہ غزل نما میں شعرکا مصرع خود بھی ایک بحر میں ہوتاہے مثلاشعر کے پہلے مصرع میں اگر فاعلاتن چار بار آتاہے تو دوسرے مصرع میں دوربارفاعلاتن آئے گا ، اسی طرح مصرع اول میںاگر آٹھ بارفعولن آیاہے تو مصرع ثانی میں چار بار فعلون آئے گا۔ یہ التزام غزل نما کے تمام اشعار میں یکساںہوگا۔ غزل نماکیلئے سالم بحروں میں طبع آزمائی افضل ہے، خوہ وہ مفرد ہویامرکب بحرہو، غیر یکساں یامختلف افاعیل والی مزاحف بحروں میں غزل نمالکھنامستحسن نہیں۔ البتہ یکساں زخاف والے ارکان میں غزل نما کے اشعار لکھے جاسکتے ہیں۔ کیونکہ صوتی اور بصری اعتبار سے یہ ارکان سالم بحروں کے ارکان جیسے ہوتے ہیں۔
 
برائے تفہیم غزل نما کاایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔
کئی صدیوںسے ویراں ہے خداکاگھرذراٹھہروں
جھکالیںسرذراٹھہرو
ہمیشہ رات ہی میں کیوں سفر کرتاہے صحرامیں
کوئی لشکر ذراٹھہرو
یہ کیسا شہر ہے جاناں کہ سب انگلی اٹھاتے ہیں
محبت پر ذراٹھہرو
چمن میں رقص کرتاہے گلابوں کی قطاروں کا
وہی منظر، ذراٹھہرو
صدائیںدے رہا ہے گائوں کاکچا مکان محضر
کبھی آکر ذراٹھہرو
مشرف حسین محضر
ڈاکٹرفرازحامدی کی بھی غزل نما کاایک منظر ملاحظہ ہو:
نہیں آتے مجھے حیلے، میں مکاری نہیں کرتا
یوںدلداری نہیں کرتا
قلم سے گیت لکھتاہوںلہو کی روشنائی سے
میں گل کاری نہیں کرتا
وطن سے جس کونسبت ہے وطن سے جس کورغبت ہے
وہ غداری نہیں کرتا
ہمیں تو اس پہ حیرت ہے زناکاروں کی بستی میں
زنا کاری نہیں کرتا
زمانہ مجھ سے واقف ہے مرے ظاہرسے باطن سے
اداکاری نہیں کرتا
اگرچہ خامیاں ہوں گی مگر میں برملاکہہ دوں
سیہ کاری نہیں کرتا
وہ غالب ہوکہ مومن ہومجھے تسلیم ہے، لیکن 
طرف داری نہیں کرتا
مناظرعاشق ہرگانوی نے غزل نما کی صنفی تشکیل کاسہراشاہدجمیل کے سرباندھاہے اور دلائل کے ذریعہ ٹائم لائن کی بنیاد پر ثابت بھی کیاہے۔ ہفت وار غنچہ بجنور یکم اکتوبر ۱۹۷۳میں شائع شاہد جمیل کی پہلی تجرباتی غزل نما کے حوالے سے لکھاہے کہ شاہد جمیل کی ذہانت نے ۱۹۷۳میں غزل نما کی نئی دنیاتخلیق کی تھی اور اردو شاعری کی اختراعی ارضی سطح کوچھونے اوربرتنے کی گل افشانی کی تھی صوفی منش مزاج کی وجہ سے انہوں نے نہ تو دعویٰ کیا اور نہ ہی مشتہرکرنے کی کوشش کی، لیکن اتنادعوے کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ غزل نما کے اصل موجد شاہد جمیل ہیں۔ مناظرعاشق ہرگانوی کے اس خیال سے بہتوں کواختلاف ہوسکتا ہے کیوں کہ اس دشت میں کئی اور دیوانے بھی ہیں، جو دامن دشت کوگلزار بنانے کے مدعی ہیں۔ لیکن انہوں نے جس شہادت، سیاق ، معیار معقولیت اور معروضیت کے ساتھ اپنی رائے پیش کی ہے اس کی تردیدتغلیط شاید آسان نہ ہو، مناظر عاشق کامعاملہ یہ ہے کہ ان کے ذہن کے Inboxمیں اتنے سارے تازہ ترین نئے نکات کے ذخیرے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ دراصل ان کے یہاں دومتضادذہنی لہروں کاانضمام بھی ہے اور افتراق بھی وہ ایک لمحے میں معروضی ہوتے ہیں تو دوسری ساعت میں موضوعی تخلیق اور تنقید کے امتزاج کی وجہ سے ان کی یہ کیفیت ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بھنور میں بھی نئی موج کی شناخت کرلیتے ہیں۔ غزل نما بھی ایک نئی تجرباتی لہرے، جس کے ہیتی تعین کی شکلیں انہوں نے شاہد جمیل کے تجربو ں میں تلاش کیں۔ پھر تو غزل نما بھی ایک نئی تجرباتی لہرہے، شاہد جمیل کے علاوہ صابرعظیم آبادی نذیر فتح پوری، فرازحامدی، روئرف خیر، محبوب راہی ، محمد نورالدین موج، قمربرتر، یوسف جمال ، منصورعمر، عثمان قیصر،شاہد نعیم، حفیظ انجم، امام اعظم، احسان ثاقب، شارق عدیل، عبیداللہ ساگر، مظفرحسن عالی، شمیم انجم وارثی رفیق شاکر، مجیب الرحمن بزمی، حفیظ انجم کریم نگری، مشرف حسین محضر، نیناجوگن، قدر پاروی ، م اشرف ،سیدعبیداللہ ہاشمی، زیڈانورسہسرامی اورمناظر عاشق ہرگانوی کی تجرباتی تخلیقات شامل ہیں جوبقول ہرگانوی ایک سمت نماہے جس سے تحرک پیداہوگا، روشنی منعکس ہوگی اور اردو غزل کونیا افق ملے گا۔
 
مگرمناظر عاشق کی اس بات سے بھی بہتوں کواتفاق نہیں ہوگا کہ غزل نماکایہ تجربہ ادبی معاشرہ کو شاید ہی قبول ہو۔ ایسے لوگوں کاکہنا ہے کہ جس طرح ساڑی میں عورت Sensousنظرآتی ہے اور منی اسکرٹ میںاس کی لطافت ، نزاکت اداختم ہوجاتی ہے، اسی طرح غزل کومختلف یااپیبریویٹ کرنے سے غزل کی موزونیت موسیقیت اور کیفیت مجروح ہوجائے گی۔ لیکن میرے خیال میں جب پوراعہد ہی اپناذائقہ اور ذوق بدل رہا ہے تو غزل کی ہیتی صوری تبدیلی یاتحول صورت میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تجربوں سے ہی کائنات وسیع ہوتی ہے۔ تجربے نہ ہوں تو تعطل کی کیفیت پیداہوجاتی ہے۔ ہمیں ہرنئے تجربے کاخیرمقدم کرنا چاہئے تاکہ تحرک کی صورت برقراررہے اور داب کاقافلہ رواں دواں رہے۔ نئے پانی سے تخلیق کارشتہ قائم رہے تو پھرتخلیق بھی تروتازہ اور سرسبز شاداب رہتی ہے ورنہ تخلیق کومرجھاتے ہوئے دیر نہیں لگتی غزل نما بھی غزل کی توسیع کاایک تجربہ ہے کہ بقول غالب 
بقدرشوق نہیں ظرف تنکنائے غزل
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 584