donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Ghazal Numa
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Kausar Siddiqui
Title :
   Ghazal Numa : Shoara Ki Tawajja Ki Matqazi

غزل نما:شعرا کی توجہ کی متقاضی
 
کوثرصدیقی،بھوپال
 
زندگی سے متعلق تمام شعبوں میںتجربوں کی اہمیت غیرمتنازعہ ہے۔ ادب میں بھی نئے تجربے ہوتے رہناضروری ہیں۔ گزشتہ صدی میں تجربوں کے طفیل میں ہی اردو شاعری میں کئی اصناف مثلاماہیا، ہائیکو، سانٹ، آزادنظم، آزادغزل، تنکا، رینگا، سین ریوز، ترانہ وغیرہ معرض، وجود میں آئی جس سے اردوشاعری کادامن وسیع ہوا۔ ان اصناف کومقبولیت کے پیمانے سے ناپنا ایک علیحدہ بحث طلب موضوع ہے جس کا یہاں موقع نہیں ہے۔
 
جب کوئی نئی صنف وجود میں آنے کے بعد اپنے پیروںپر کھڑی ہوجاتی ہے اور اہل ِنظرکو اپنی طرف توجہ کرتی ہے تو اس کاحسن وشباب دیکھ کر اس کے بہت سے ماں باپ پیداہوجاتے ہیں اور ان کی چھیناجھپٹی میں اصل خالق گم ہوجاتاہے۔ تحقیق وجستجو کرنے والے اپنی تحقیق کی بنا پر اپنے چہیتوں کوخالق کا تاج پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
غزل نما کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اس کے موجدہونے کے دعویداروں میںسب سے پہلے ظہیرغازی پوری منظر پر آئے جن کی تجرباتی غزل پہلی باراگست ۱۹۸۱میں روزنامہ سالار بنگلور کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد مناظرعاشق ہرگانوی نے تمل ناڈو کے شاعر کا ظم نائطی کو غزل نما کاموجد قراردیا۔ ان کی تحریر کے مطابق کاظم نائطی کی پہلی غزل نما ۱۹۷۹میں مدراس کے ہفت روزہ اخبار،اتحاد، میں شائع ہوئی۔ مذکورہ انکشاف سے ظہیرغازی پوری کادعویٰ خارج ہونے کے بعدکاظم نائطی کے سرغزل نما کے موجدہونے کاسہرابندھ گیا، لیکن ڈاکٹر مناظرعاشق ہرگانوی کی تازہ تحقیق نے کاظم نائطی کے سرسے یہ سہرااتارکر شاہد جمیل کے سرباندھ دیا شاہد جمیل کے غزل نما کے موجد ہونے کے ثبوت میں ان کے ایک مقالے کامندرجہ ذیل اقتباس پیش ہے۔
 
انہوں نے شاہدجمیل نے صحیح، منفرد اور متوازن ہئیت میں تجربہ کیاہے۔ اس میں دونوں مصرعوں کے ارکان میں کمی بیشی اس طرح کی گئی ہے کہ پہلا مصرع جتنے ارکان میں ہے،تیسرا پانچواں ، ساتواں ، نواں،گیارہواںوغیرہ بھی اتنے ہی رکن میں ہوں گے اور دوسرا مصرعہ جتنے رکن میں ہے، چوتھا، چھٹا، آٹھواں ، دسواں، بارہواں وغیرہ مصرعے بھی اتنے ہی رکن میں ہوں گے۔ باقی سب لوازم ایک جیسے ہوں گے۔ یعنی مناسبت اور مطابقت کے باوجود ایک باریک فرق ہے۔ ایسی مساوی الوزن اورکان کی نابرابری کانام غزل نما رکھاگیاہے جس کاپہلا تجربہ ہفتہ وار غنچہ بجنور کے یکم اکتوبر۱۹۷۳کے شمارے میںملتاہے۔ شاعرشاہدجمیل کاپہلا تجربہ دیکھے:
 
نہ ہنسنے ہنسانے میں دل لگ رہا ہے، نہ پڑھنے پڑھانے کوجی چاہتاہے
فقط مار کھانے کوجی چاہتاہے۔
 
ہراک فرد میری خوشامد کرے اور اس طرح دل کومسرت ہوحاصل
وہ نخرے دکھانے کوجی چاہتاہے!
 
یہ ہے میرے تھپڑ کی نغمہ سرائی، بہت دیر سے رورہی ہے جوبے بی 
کہ اب چپ کرانے کوجی چاہتاہے
 
عذابِ سکونِ دل وجاں ہے یہ سب ،کتابیں ،قلم کاپیاں کہ انہیں اب
کہیں پھینک آنے کو جی چاہتاہے
 
بصدشوق واخلاص مجھ کو اے شاہد اسی وقت بھیاکے تھپڑملے ہیں
جب انگور کھانے کوجی چاہتاہے،
 
گفتنی ،مناظرعاشق ہرگانوی،
شاہد جمیل کی ایک دوسری غزل نما جو۲۴اکتوبر۱۹۷۳کے غنچہ، بجنور میں شائع ہوئی ملاحظہ فرمایئے۔
 
نہ ادھرجائے ہے نہ ادھرجائے ہے، کیاکہوںذہن کس طرح ڈرجائے ہے
صورتِ مولوی جب نظرآئے ہے
 
چوٹی باجی کی صاف، ابا کی جیب ختم اور بھیاکی ساری کتب حوض میں
میری سادہ طبیعت جب اٹھلائے ہے
 
گینڈا، کہہ چڑانے سے موٹے میاںگالیاںبکتے ہیں توبلاسے بکیں 
اس طرح میراجی توبہل جائے ہے
 
آنکھیںدھنس دھنس گئیں چہرے زرداگئے ،قہراس پر ہویارب تراکہ بہت
امتحاں کازمانہ ستم ڈھائے ہے
 
لوگ کہتے ہیں میں کچھ بھی پڑھتانہیں، یہ غلط ہے میں پڑھتاہوں ہردم مگر علم ہی مجھ تک آنے سے گھبرائے ہے
 
کوئی مہماںکی آمد کی اڑتی خبر، گھر میں سب کیلئے ہے مصیبت اگر
تومرے واسطے سرخوشی لائے ہے
 
قابلِ دید ہوتے ہیں شاہد بہت ، مرغیوںکے بدن روشنائی ہیں تب
جب کبھی مجھ پہ فرزانگی چھائے ہے
 
شاہدجمیل کی مندرجہ بالاغزلیںچونکہ بچوں کیلئے ہیںاس لیے ان میں حسن وعشق یاعصری تقاضوں کاذکرکرنہیں کیاگیاہے۔ اس کے باوجود چونکہ ہرشعر کانفیس مضمون جداہے اور غزل کے ردیف وقافیہ کی پابندی ہے اس لیے یہ نظم کے ذیل میں ہرگز نہیں آتی ۔اس کے علاوہ ہرغزل کے پہلے مصرعے کے ارکان کی تعدادکے مقابلے میں دوسرے مصرعے میں ارکان کی تعدادآدھی ہے اس لیے یہ غزل نما کی تعریف میں ہی آتی ہے۔ غزل نما کووجود میں آئے اگر چہ قریب چاردہے گزرچکے ہیں مگر ہمارے شعرانے اس کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔ کچھ اہل نظر نے اسے ایک صنف کے بطورتسلیم کیاہے تو کچھ نے اسے سرے سے ہی خارج کردیا۔ جن شعرا نے اسے تسلیم کیاانہوں نے بھی کسی ایک ہئیت پراتفاق نہ کرتے ہوئے مختلف بحروں میں اشعار کہہ کران کے مصرعوںمیں کمی بیشی کرکے غزل نما کہی ہیں، چند نمونے کے اشعار ملاحظہ ہوں:
 
کاظم نائطی:
بڑی وحشتیںتھیں صدائیں بہت تھیں،فعلون چاربار
مرے گردو پیش ایسی ہنگامہ آرافضائیں بہت تھیں، فعلون چھ بار
برے لفظ نوک زباں پر جولائے تامل تھا تم کو، فعولن چھ بار
مجھے کوسنے کودعائیں بہت تھیں، فعلون چاربار
نگاہوں کے پوروں پہ آبی بدن کی جولاشیں پڑی ہیں، فعولن چھ بار
انہیں بس کسی کی دہکتی نظر کی چتائیںبہت تھیں فعولن چار بار
مخاطب کئی لوگ تھے ہم سے کاظم، فعولن چاربار
مگر گفتگومیں انائیں بہت تھیں، فعولن چاربار
حنیف ترین:
زندگی ہے یہی ، فاعلن دوبار
علم فن آگہی، فاعلن دوبار
رابطہ اخلاص کی بات اب کیاکریں، فاعلن چار بار
دوستی بھی نہ جب رہ گئی دوستی، فاعلن چاربار
غم انڈیلے ہیں قرطاس پر، فاعلن تین بار
لوگ سمجھے انہیںبھی خوشی، فاعلن چاربار
پتتے صحرامیں ہم آگئے ہیں مگر، فاعلن چاربار
آگ اگلنے کوکیسے کہیں شاعری، فاعلن چاربار
آج گھر گھر میں ہے ،فاعلن دوبار
شور، شر، دشمنی، فاعلن دوبار
ابتدامیں شاہد جمیل کی دوغزل نما کے جونمونے پیش کیے گئے ہیں ان دونوں کے پہلے مصرعہ میں مساوی الوازن ارکان آٹھ بار اور دوسرے مصرعے میں چار بار استعمال کیے گئے ہیں۔ راقم الحروف کے نزدیک غزل نماکے لئے یہ بہترین ہئیت ہے اور اس کو قبول کرکے شعرا کوغزل نما کی شناخت قائم کرنے کی کوکوشش کرنی چاہئے،ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے بھی اسی ہئیت کوقبول کرنے کی سفارش کی ہے۔ ان کے ایک متعلقہ مقالے کااقتباس ملاحظہ فرمائیں:
 
یکساں؍سالم؍غیر تبدیل شدہ؍ غیر مزاحف ارکان پر مبنی بحروں پر غزل نما کی تخلیق بہرحال افضل ہوگی۔ حالانکہ مزاحف ؓھرمیں پہلا مصرع لکھنے کی صورت میں قدرتی طورپر دوسرے مصرعے کیلئے پہلے مصرعے کانصف دوئم حصہ خودبخودسامنے آکھڑاہوتاہے۔ لہذااصول نمبردوکی پابندی نہ ہونے کے باوجود آہنگ کی روسے اسے جائزقراردینے کی سفارش کی جاتی ہے۔ لیکن یہ مستحسن نہیں کیونکہ دوسرے مصرع کوبہرحال آزادانہ طورپر بحر میں ہوناچاہئے۔
بیشترشعرا نے مذکورہ ہئیت میں ہی غزل نما کہی ہیں۔ نمونے ملاحظہ ہوں:
 
مناظر عاشق ہرگانوی، مری پیاس میں ایک صحرارواں ہے
سمندرکہاںہے
 
نذیرفتح پوری: ،اکثرسیرچمن سے یارولوٹ کے جب گھرآیاہوں
بس کانٹے ہی لایاہوں
 
محبوب راہی:، سربہ سجدہ دیر سے راہی پڑا جورورہاہے
داغ عصیاں دھورہاہے
 
قمربرتر:،اب جوانسان میں شیطان کااندازہے
کیساآغازہے
 
شاہدنعیم:،عجیب آدمی تھادل میں چپکے سے اترگیا
نہ جانے پھرکدھرگیا؟
 
کوثرصدیقی:، نشتردست گلچیں کے چلے ہوئے
پھول کیسے ہنسے
 
کوئی بھی صنف سخن ہو، جب تک سنجیدگی کے ساتھ اس پر توجہ نہ دی جائے، محنت اور ریاض کرکے اچھے سے اچھے فن یاپارے پیش کرنے کی کوشش نہ کی جائے، معتبراور وقیع، تخلیق ممکن نہیں ہے غزل نما کو بھی مسند شعر وادب پر متمکن کرنے کیلئے ضروری ہے کہ شاعری میں نئی اصناف کومتعارف کرانے اور انہیں وقیع بنانے والے ہم خیال شعرامع اساتذہ اس صنف کی طرف متوجہ ہوں۔
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 582