donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Ghazal Numa
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Nooruddin Mauj
Title :
   Ghazal Numa Aur Iska Pahla Intekhab

غزل نما اور اس کا پہلا انتخاب
 
محمد نورالدین موج،کراچی
 
ڈاکٹرمناظرعاشق ہرگانوی نے میدانِ شعروسخن میں نئے نئے جوہردکھائے ہیں اور دکھارہے ہیں۔ اس میدان کارزارمیں ماہرفن بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہے ہیں۔ غزل نما اور اس کاپہلا انتخاب، میں سارے ہی قلمکار کامیاب دکھائی دے رہے ہیں۔ مناظر صاحب کامقصد صرف یہ ہے کہ اک زمانہ ہوگیا لوگ پرانی اور روایتی روش پر گامزن ہیں۔ کیوں نہ اب نئے راستے تلاش کیے جائیں اس تلاشِ راہِ نو کو قلمکاروں نے لبیک کہا اور شامل کارواں ہوتے گئے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مناظرصاحب خودبھی نئی راہ کی تلاش میں ہیں اور دوسروں کوبھی اس کی دعوت دے رہے ہیں۔ ایک حقیقت یہ ہے کہ جوماہر تیراک ہیں انہیں جھیل اور سمندرسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ آنکھیں بند کرکے بلاخوف وخطر کودپڑتے ہیں۔ ڈاکٹرمناظرصاحب یقیناخوش ہوں گے۔ یہی معاملہ ادھر بھی ہے۔ عبیداللہ ساگر، عثمان قیصراورراقم الحروف اس بحرکے شناور ہیں۔ نئی نئی منزلیں اور راہیں ہم بھی تلاش کررہے ہیں اور مناظر صاحب کی ڈگرکواپنا بھی رہے ہیں، ان کاساتھ بھی دے رہے ہیں۔
 
ڈاکٹرمناظرصاحب کتاب، غزل نما، میں ایک جگہ لکھتے ہیں:غزل نما کایہ انتخاب سمت نما ہے جس سے تحرک پیداہوگا اور روشنی منعکس ہوگی اور اردو غزل کوایک نیا افق ملے گا۔ لیکن معذرت کے ساتھ میرا خیال ہے کہ اردو غزل کی بجائے اردو غزل گوکونیا افق ملے گا۔ ڈاکٹر صاحب سے درخواست ہے کہ میرے اس خیال پر نظرثانی فرما لیجئے گا۔
 
غزل نما کی یہ تحریک نہایت کامیاب ہے۔ میں نے غزل نما کے بارے میں جوبات محسوس کی ہے وہ یہ کہ چند ایے ارباب سخن کومیں جانتاہوں جو غزلیں تو کہتے ہیں لیکن ان کے اشعارمیں خیالات کی وسعت یاخاص پیغام نہیں ہوتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ غزل نما میں ان ہی شعرا کرام کے خیالات اور الفاظ کی بندش اور برجستگی اس قدر کھل کرسامنے آئی کہ بے ساختہ واہ واہ کہناپڑا۔ اس سے یہ اندازہ ہوگیا کہ غزل کی بہ نسبت غزل نما میں وہ زیادہ کامیاب ہیں۔ اس کتاب میں شامل تھام شعرائے کرام کومبارکباد دیتا ہوں کہ سبھوں نے بہت اچھے انداز اور کامیابی کے ساتھ غزل نما کو نبھایاہے۔ مختصریہ کہ غزل نما کی جوترکیب ہے اس کے ثانی مصرعے میں بڑی برجستگی پائی گئی ہے جس سے غزل نماخوبصورت اورحسین غزل نما کے لئے مناظر صاحب نے جن بندشوں اور شرائط کاانتخاب کیاہے وہ اس لحاظ سے درست ہے کہ بحرسالم ہی اس کیلئے مناسب ہے۔ کیونکہ ثانی مصرعے کیلئے انہیں ارکان میں سے انتخاب کرناہے۔ اگر مصرعہ مختلف الارکان میں ہوتو پھریہ فیصلہ مشکل ہوجاتاہے کہ ثانی مصرعے کے کن ارکان کا انتخاب کرناہے۔ شاہد جمیل نے ایسی ہی بحروں کواپنا کر موجد ہو نے کاسہرااپنے سرباندھاہے۔ انہوں نے یقینانئی روشنی دکھائی ہے۔
 
غزل نما کاانتخاب، میں صفحہ نمبر آٹھ پر مناظر عاشق نے آسان بحر کا انتخاب ہی نہیں کیابلکہ اس کے ٹکڑے کرکے بھی واضح کردیا ہے کہ جہاں تک چھوٹی بحرکااستعمال ہوزیادہ بہترہے۔ 
مری نظروں میں اس اعتبارسے غزل نماکو ایک انفرادیت حاصل ہے!جس طرح ہائیکو، ثلاثی، ماہیا، دوہاوغیرہ ایک صنف ہے، اسی طرح سے غزل نما بھی ایک صنف ہے۔ دیگر اصناف کی صورت اس صنف میں بھی حمد نعت یا منقبت کہی جاسکتی ہیں۔ میری نظروں میں صنف کی حیثیت پاجانے کے بعد قدرتی طور پر اس کا میدان وسیع ہوگیا ہے۔ لہذا میری رائے یہ ہے کہ غزل نما کی صنف میں حمد، نعت وغیرہ بھی کہی جائے اس کا آغاز میں نے خود حمد اور نعت سے کیاہے مزے کی بات یہ ہے کہ اس صنف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خنجر بہاری نے بھی ہزلیہ غزل نما ، کہہ ڈالی ۔ایک شعرملا حظہ فرمائے:
 
ذرابھی دیر وہ کرتے نہیں تہمت لگاتے ہیں
حوالہ ڈھونڈ لیتے ہیں
 
غزل نما کے پہلے انتخاب میں تمام شعراکامیاب ہیں، لیکن چندایک کے اشعار بہت ہی خوب ہیں۔ مثلاً:
 
اس کی یادیں،اس کی باتیں، اس کے موسم، اس کے البم 
درد کو گردانتا ہوں
شاہد جمیل
 
مڑمڑکے کیوںدیکھ رہے ہورستے میں
پیچھے کوئی اور ہے کیا
نذیرفتح پوری
 
چھائوں گھنی دیتاہوں آتے جاتے ہر اک راہی کو
میں برگدکاسایاہوں
نذیرفتح پوری
 
قلم سے گیت لکھتاہوں لہو کی روشنائی سے
میں گل کاری نہیں کرتا
عجیب آدمی تھا،دل میں چپکے سے اترگیا
نہ جانے پھرکدھرگیا؟
شاہد نعیم
 
وہ نماز یوں سے ہے دوردور
وہ امام ہے!
امام اعظم
 
مٹی کاتھاٹوٹ گیاگھر آنگن بربادہوا
موسم کی نادانی میں
مظفرحسن عالی
 
پہلی کی مانندہے زندگی بھی
توبوجھے تودیکھوں
حفیظ انجم نگری، بھارت
 
ایک دل تھاجوہردم مرے ساتھ تھا
آپ لے ہی گئے
نیناجوگن
 
قدم قدم پردھوکابزمی، چلنا پھرنامشکل ہے
کون کرے دلداری جی
مجیب الرحمن بزمی
 
جوجھوٹی شان کاآئینہ خودپہ ڈال لیتاہے
سدابے چہرہ ہوتاہے
م۔اشرف
 
غزل کی بھیڑبھاڑمیں غزل نماپہ غورکر
میاں یہ کچھ الگ توہے
مناظرعاشق ہرگانوی
 
غزل نما کی محبت کے سرشارجذبے میں رنگین ومعطرپھول سجے نظرآتے ہیں۔ زبان اور بندش کی لہروں سے حقیقت اور سچائی کا کینوس وسعت رکھتا ہے اور اپنی ہی پہچان کی انفرادیت سے خیال اور احساس کومہمیز ملتاہے۔ اس صنفِ سخن کی کیفیت اور کسک سے ایسی ہی داستان مرتب ہوتی ہے، جس کے لیے موجد شاہد جمیل اور خصوصی طورپر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی مبارک کے مستحق ہیں۔
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 514