donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Ghazal Numa
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mosharraf Hussain Mahzar
Title :
   Ghazal Numa Ke Har Sher Ka Ahang Aik Hi Rahta Hai

غزل نما کے ہر شعرکا آہنگ ایک ہی رہتا ہے
 
مشرف حسین محضر ،علی گڑھ
 
غزل نما کے حوالے سے کئی مضامین نظر سے گزرچکے ہیں،جوڈاکٹرمناظر عاشق ہرگانوی اور ظہیرغازی پوری کے ہیں، اگر غزل نما کے تجربے کو سامنے رکھ کر دونوں ارباب فکر وفن کے مضامین کامطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح صاف ہوجاتی ہے کہ ظہیرغازی پوری نے ہیت کی تبدیلی کے ساتھ آزادی غزل ہی کہی تھی جسے بعد میں میں انہوں نے غزل نما کا نام دے دیا، مگر اس طرف انہوں نے قطعی توجہ نہیں کی کہ ان سے قبل شاہد جمیل غزل نما کاتجربہ کرچکے تھے جوہئیت کے اعتبار سے ان کی غزل نما سے پوری طرح مختلف ہے، جسے مناظر عاشق ہرگانوی نے تحقیق کی روشنی میں مکمل طور پر ثابت کردیاہے۔
 
غزل کی بنیادی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے پہلے مصرعے سے لے کر آخری مصرع تک کسی ایک ہی عروضی وزن کی پابندی کرتی ہے اور اشعار ضرور معنوی اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ شاہد جمیل غزل کی اس مخصوص خوبی کونظر اندازنہیں کرتے ہیں اور غزل نما کے اشعار کو ایک ہی آہنگ میں تخلیق کرتے ہیں، تاکہ غزل نما پوری طرح غزل کے تخلیقی جوہر سے بیگانہ روی کاشکار نہ ہونے پائے۔
 
غزل نما کے تجربے سے قبل مظہر امام کی آزاد غزل کاتجربہ کافی ہنگامہ خیزثابت ہواتھا۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اور ڈاکٹر کرامت علی کرامت آزاد غزل کے تجربے کاخیر مقدم کررہے تھے تو ڈاکٹر اسلم حنیف غزل کی ہئیت میں کسی بھی تبدیلی کو قبول کرنے سے انکار کررہے تھے، اور ان کے دلائل خاصے علمی نوعیت کے تھے۔ غزل کے حوالے سے ان کا اپنا موقف تھا اور وہ آج بھی اس پر قائم ہیں، ان کاخیال ہے کہ غزل کی پابندفضاکو برقرار رکھتے ہوئے اختراعی وزن میں تخلیق کردہ غزلیات پر آزادغزل کاعنوان ڈالاجاسکتا ہے۔ مثال کے طورپر ان کی آزادغزل کے دواشعار ملاحظہ فرمائیں۔
 
وطن کی عظمتوں کوہم بھی چاٹتے رہیں
اگر نگاہ میں گزشتہ واقعے رہیں
ابد سے جاملے مرے سفرکی داستاں 
ہمیشہ ضوفشاں خرد کے طاقطے رہیں
 
یہ غزل ان کی تجرباتی شعری اصناف پر مشتمل کتاب،اردو زبان وادب کاپہلا منفرد شاعراسلم حنیف میں آزاد غزل، کے عنوان کے ساتھ ہی درج ہے۔ غزل کی پابند ہئیت کے مد نظر ڈاکٹراسلم حنیف کی بات پر غور کیے جانے سے قبل ہی آزاد غزل کاتجربہ اک شور میں تبدیل ہوچکا تھا، نئے قلمکار شعر وادب کے ہرخطے میں تبدیلیوں کامطالبہ کررہے تھے اس لیے آزادغزل کاتجربہ غزل کی ہئیت میں ایک خوشگوار تبدیلی کے طورپر محسوس کیاگیا اور قدیم وجدیدشعری اقدار کے مبلغ شعرا کے درمیان ایک بحث کاسلسلہ چل پڑا۔ ظہیرغازی پوری بھی آزادغزل کے تجربے سے متعلق کسی بھی بحث سے بے خبرنہیں تھے مگر وہ غزل کے شعر میں کم وبیش ارکان کے حامی بھی نہیں تھے اور یہی سبب تھا کہ انہوں نے اپنی تخلیق کردہ آزاد غزل کے ہر شعر کو پابند رکھا ، مگر کم وبیش ارکان کے ساتھ۔ ڈاکٹر حنیف ترین نے غزل نما کا پہلا مجموعہ کشتِ غزل نما کے نام سے شائع کرایا جو ظہیر غازی پور ی کی غزل نما کی ہئیت میں تھا جس پر ر دعمل اختلاف اور اعتراف دونوں ہی صورتوں میںمنظرِ عام پر آیا تھا، مگر اس بار بحث کی کوئی ایسی صورت نظر نہیں آتی جوشعرا کو خیال کے الگ الگ خیموں میں بانٹ دیتی ہے۔
ظہیرغازی پوری کی آزادغزل کی ہئیت میں ڈاکٹر حنیف ترین کے دواشعار ملاحظہ فرمائیں جنہیں غزل نما کانام دیاگیاہے:
 
تابش سے دن کی رات کا پیکر سجالگے
اندرہوروشنی تواندھیرابرالگے
آنکھوں میں دردکا 
دریارکالگے
 
یہ ہے ظہیرغازی پوری کی آزاد غزل کی ہئیت جس کو وہ غزل نما کہتے ہیں، آیئے اب ایک نظر مظہر امام کی آزادغزل پر بھی ڈالتے چلیں تاکہ کوئی مغالطہ ہی نہ رہے۔
توجومائل بہ کرم تھا تو زمانے کامجھے ہوش نہیں رہتا تھا 
میں کہ خود سرتھا ترے زیرنگیں رہتاتھا
شاخ درشاخ گلابوں کی دھنک پھوٹی تھی
اک پرندہ تھا یہیں رہتاتھا
مظہر امام اور ظہیرغازی پوری کی آزادغزلیات ہئیت کے اعتبارسے ایک دوسرے سے مختلف ہیں جبکہ ان دونوں کو آزاد غزل ہی کے عنوان سے پیش کیا گیا تھا، جبکہ شاہد جمیل کاشعری تجربہ غزل نما، آزاد غزل کے بعد ضروروجود میں آیا تھا مگر آج تک اپنی ہئیت کے حصار میں رہ کر ہی اپنے ہونے پراصرارکررہاہے۔ دومثالیں ملاحظہ فرمائیں:
نہ ہنسنے ہنسانے میں دل لگ رہاہے نہ پڑھنے پڑھانے کوجی چاہتا ہے
فقط مار کھانے کوجی چاہتاہے
ہراک فردمیری خوشامد کرے اور اس طرح دل کومسرت ہوحاصل
وہ نخرے دکھانے کوجی چاہتاہے
شاہد جمیل کی تحریرکردہ غزل نما کے مطلع کا پہلا مصرع آٹھ فعولن پرتخلیق کیاگیا ہے اور دوسرا مصرع چارفعولن پر تخلیق کیا گیا ہے اور یہی التزام آخرتک برقراررکھاگیاہے جس کی بنا پر تمام اشعار کاآہنگ غزل نما کے مطلع کی پیروی کرتاہوانظرآتاہے اور یہی بات شاہد جمیل کی غزل نما کوذہنی طورپر قبول کرنے کیلئے شعراکوآمادہ کرتی ہے جس کے ثبوت میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کامرتب کردہ غزل نما کاپہلا انتخاب پیش کیا جاسکتا ہے۔
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 511