donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Ghazal Numa
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Motabar Shahjahanpuri
Title :
   Ghazal Numa : Izhar Ke Aiyene Mein

غزل نما:اظہارکے آئینے میں
 
معتبرشاہجہاں پوری،کراچی
 
اردو شاعری کاجدیددورحالی کی نئی طرز فکر سے باقاعدہ شروع ہوا اس سے قبل ولی دکنی سے حالی تک کی شعری روایات کاسلسلہ محض اردو ادب کی کلاسیکی روایت پراستوار رہا جو اپنے انداز فکر کے اعتبار سے قدیم اردو زبان وبیان اور روزمرہ مخاورات کے ساتھ گنے چنے مضامین اور محدود موضوعات پر مشتمل رہا۔ حالی کے بعد اسے ارشاعری میںنئی نئی راہیں جدید خیالات، موضوعات کاتنوع ،نئی طرز تحریر نئے نئے پیرائیہ بیان اور اسالیب کی تراش خراش کاکام  شروع ہوا اور نئے تخلیقی تجربات وجود میں آئے۔
غرض کہ انسان کے ثقافتی ،معاشرتی اورسماجی وادبی ماحول کے روایتی تانوں بانوں سے ہٹ کر مختلف موضوعات سخن تجرباتی طور پر پیش کیے گئے جوعصری تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔اس طرح جدت کایہ سفر بڑی حد تک اپنی ارتقا کی منزل کی طرف گامزن ہوا۔ کسی بھی زبان کاادب اپنے ماحول کی روایت سے رشتہ جوڑے بغیر ترقی نہیںکرسکتااور اسی میں اس کے فن کی بقاکارازمضمرہے۔ لیکن اس کاہرگزیہ مطلب نہیں ہوتاکہ وہ محض روایت پرستی کے سائے میں پروان چڑھے، اپنے دور کے جدید طرز فکر سے کسی بھی طرح پیچھے رہے بلکہ ایسا مثبت ومتوازن رویہ اختیار کیاجائے جس سے انفرادی ادبی میلانات، شخصی رجحانات اور فکری میں تازہ کاری کااحساس ابھرکرسامنے آئے۔
 
دورِ حاضر کے ایسے ہی روشن خیال شعرا کی ایک بڑی تعداد نے اردو کی شعری رویت کوایک نئے سانچے میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کی جولہجہ وآہنگ نت اسالمیت ، منفرد اوزن جن میں غیرمروجہ اور قلیل الاستعمال بحریں اور وزن ،نئی بندشوں کے ساتھ نئے خیالات، مضامین کااچھوتا پن منزل کی ہئیت کوایک منفرد اندازسے نئے قنی قواعد وضوابط کی پابندی کے ساتھ پیش کیا گیا اور برسہابرس کی ان تھک محنت وکاش کے بعد اردو شاعری کی مقبول ترین صنف سخن غزل میں سے غزل نما کاوجود پیدا ہواجوبہرحال غزل ہی کااٹوٹ انگ ہے جواپنی ہئیت کی نئی پہچان کے ذریعے غزل سے مختلف ہے جس میں غزل کی تمام ترخوبیاں اپنی قدیم وجدید رواات کے ساتھ جلوہ گردکھائی دیتی ہیں۔
 
غزل سے گزل نما کا یہ ابتدائی ہئیتی ڈھانچہ شاہد جمیل نے ۱۹۷۳میں صرف پیش ہی نہیں کیا، ان کی اس ادبی تحقیقی کوشش کو خاص پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر مناظرعاشق ہرگانوی نے تحقیق سے ثابت کردیا کہ اس صنف کے موجد شاہد جمیل ہیں۔ اعتراض کرنے والوں کو انہوں نے مسکت جوابد یا شاہد جمیل نے غزل نما کے تمام فنی اسرار وموزپر متوازن انداز فکر سے نظرڈالی اور ایک منفرد ومتوازی راہ اختیارکرتے ہوئے مصرعوں کے ارکان کی کمی بیشی کی ۔ اولیٰ اور ثانی مصرعوں میں ارکان کی تعداد یعنی پہلے مصرعے میں جتنے ارکان مقررکیے دوسرے مصرعے میں عین اس کی نصف تعداد استعمال کرنے کی پابندی اور صرف سالم ارکان کی بحروں ہی کااستعمال درست قراردیا، جس سے غزل نما کاایک مخصوص ومنفردلہجہ سامنے آیا غزل کی طرح گزل نما کامیدان سخن بھی وسیع ہے مگر اس قدرنہیں جتنا کہ غزل کا۔ تاہم غزل نما کے ڈیڑھ مصرع میں اپنے خیالات وافکار اور مافی الضمیر کو ایک مخصوص طرز فکر کے ساتھ ساتھ باآسانی بیان کیاجاسکتاہے۔
 
غزل نما کے ڈیڑھ مصرعے کی افادیت غزل کے دومتوازن مصرعوں کے برابرتویقینانہیں ہے تاہم اس جدت طرازی سے فکر کے نئے نئے راستے ضرور کھلتے ہیں، جوبقائے فن کیلئے ضروری ہی نہیں بلکہ معاشرے، سماج اور فردکی نئی آوازاور پہچان کے رشتے بنانے میں معانوت بھی کرتے ہیں۔
 
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 473