donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Ghazal Numa
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Rafiq Shaheen
Title :
   Ghazal Numa Wajood Ki Wazah Shenakht

غزل نما:وجود کی واضح شناخت
 
’’رفیق شاہیں،علی گڑھ‘‘
 
ڈاکٹرمناظرعاشق ہرگانوی محتاجِ تعارف نہیں ہیں، کون نہیں جانتا کہ آپ کے نام کااجالامہر نصف النہار کی طرح نہ صرف برصغیرہندوپاک کوبلکہ پوری ادبی دنیا کو تاباں ودرخشاں کیے ہوئے ہے۔ ادبی سطح پر آپ ایک کثیرالجہات قلمکاروفنکاراور صحافی کی حیثیت سے تحقیق، تنقید، مضمون نگاری، افسانہ نگاری ،شاعری اورصحافت میں اپنے ہنرمندانہ وفنکارانہ جمال وجلال اور کمال کامسحورکن مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ ٹی ایس ایلیٹ نے فرمایاہے کہ ہمارے تخلیق کاروںکو تخلیقی عمل کے شانہ بہ شانہ جودتِ طبع کامظاہرہ کرتے ہوئے ادب میں تجربات کاسلسلہ جاری رکھناچاہئے تاکہ باغِ ادب وسعت پذیرہوتارہاہے۔ ایلیٹ کے اس منشوریانظریے کااحترام کرتے ہوئے اور اس کی حمایت میں سرگرم عمل ہو کر تجربات وایجادات کے استقبال، ان کی سرپرستی اور ان کے احیاوترویج میں جس خلوص اورجوش وجذبے کا مظاہرہ مناظر عاشق ہرگانوی نے کیاہے اس کی مثال کرۂ ارض پرکہیں نہیںملتی۔ انہوں نے گروپ بندی، طبقاتی امتیاز، تعصب وجانبداری اور سودوزیاں کوبالائے طاق رکھ کروہ چاہے انورشیخ کے کہمن، تکونی اورنغمانہ ہوں، چاہے ڈاکٹرفراز حامدی کے اردو گیت، دوہاحمد، دوہانعت، دوہا گیت،دوہاغزلوں ،دوہانظموں، دوہاقطعوں ، دوہا سانٹ، دوہا ترائیلے اور دوہا مثلث جیسے تجربات ہوں یاڈاکٹر اسلم حنیف اورشارق عدیل کی توشیحی غزل ہو، چاہے رفیق شاہین کی گیت نماغزل، ماہیا نظم اور دوہا بحرمیں غزل نماہویارئوف خیر کے یک سطری افسانے ہوں یاکوثر صدیقی کی ثلاثی ہوانہوں نے ان کے علاوہ اوربھی بہت سے نئے تجربات کونہ صرف خوش آمدیدکہہ کر کہسار، کی زینت بنایاہے بلکہ ان کوفروغ دلانے اورمستحکم کرنے میں حکمت عملی، تدبراور ذاتی رسوخ سے بھی کام لیا ہے نیز اس کام میں بقدرضرورت رقم خرچ کرنے سے بھی گریز نہیں کیاہے۔کون نہیں جانتاکہ ان کی مرتبہ اورمقبول خاص وعام کتاب دوہاغزلیں، دوہا گیت، کی اشاعت واجراکابنیادی مقصدڈاکٹر فرازحامدی کے تجربات کومقبول عام کرانا تھا اور اس میں ان کی کامیابی وظفریابی اظہر من الشمس ہے۔ آج عالمگیرسطح پر دنیا بھر کی ادبی بستیوں میں شدومداور ذوق وشوق سے دوہا غزلیںاوردوہاگیت لکھے اور پسندکیے جارہے ہیں اس کے کریڈٹ میں مناظر صاحب کابھی برابرکا حصہ ہے تجربات سے ان کا عشق توسرحدوں کی قید وبند کو بھی خاطر میں نہیں لاتا، انہوں نے اردوماہیاکو مستحکم کرنے اور اسے مقبول عام بنانے کیلئے عالمی ماہیاتحریک کے قافلہ سالار حیدرقریشی، جرمنی کے ہاتھ مضبوط کرنے کیلئے تحقیقی تنقیدی اورتخلیقی ہرسطح پران کی معاونت پر ان کی معاونت کی اور اسی طرح جاپان سے مستعار لی گئی صنف ہائیکواورسین ریو کے فروغ میںبھی ان کی کدوکاوش اورجدوجہد شامل رہی ہے۔ ان کی اب تک شائع ہوئی ایک سوپینتالیس تصنیفات وتالیفات میں بہت سی کتابیں ایسے ہی تجربات پر مشتمل ہیں۔
 
ان کی حال ہی میں عالمی منظرنامے پرطشت ازبام ہونے والی کتاب غزل نمابھی نئے تجربے غزل نما کودورتک پہنچانے اور بطورنئی صنف اسے شرف قبولیت سے سرفرازکرنے کی ایک اچھی کوشش ہے۔ سوصفحات کومحیط، رنگین سرورق اور روشن کتابت وطباعت سے آراستہ اس مجلدکتاب میں انتیس شعرائے کرام کی کئی کئی غزل نمامع ان کے مختصر تعافی خاکے اور ان کی تصاویر کے ساتھ شائع کرنے کااہتمام کیاگیاہے۔ 
 
کتاب کادیباچہ بعنوان ،گفتنی، مناظر عاشق کے اپنے زورقلم کانتیجہ ہے جس میں انہوں نے غزل نماکی ایجادپردعویداری ،ہیئت وساخت اور اس کی افادیت کے حوالے سے خاصی بحث وتمحیص سے کام لے کرغزل نما کے سارے خارجی وداخلی اورمتنی وفنی پہلوئوں کوکھول کربیان کردیاہے۔ دراصل غزل نما کاتصورڈاکٹر مظہر امام کی ایجادآزادغزل کے بطن سے معرض وجود میں آیاہے۔ ۱۹۸۷میں جبکہ مظہرامام سری نگر کشمیردوردرشن کے ڈائریکٹرتھے، میں نے وہیں ان کے چیمبرمیں انہیں سے صحیح طور پر آزادغزل کوسمجھ کرآزادغزلیں کہیں اور چھپوائی تھیں، آزادغزل بھی ردیف قافیے کی پابندتھی اورفرق بس اتنا تھا کہ کم وبیش ارکان کی مددسے ہرشعرکے مصاریع قامت میں چھوٹے بڑے کردیے جاتے تھے۔ چھوٹے توکتنے چھوٹے اوربڑے توکتنے بڑے اس کی کوئی قید نہ تھی ظہیرغازی پوری کوآزادغزل طریقہ ڈھونڈنکالا کہ جس بحر میں غزل کامطلع ہواسی بحرمیں ہم وزن مصاریع اور ردیف قافیے کی پابندی کے ساتھ اس طرح شعرکہے جائیں کہ ہر شعر کے ارکان مختلف الوازن ہوں۔ اس طرح تمام شعراپنے قامت میں چھوٹے بڑے بھی ہوجائیں گے اور آزادغزل کے اشعار کی انفرادیت وشناخت بھی برقراررہے گی۔ لہذااسی تناظرمیں غزل تخلیق کرکے اپنے اس تجربے کوتجرباتی آزادغزل کے زیرعنوان ظہیرغازی پوری نے ۱۹۸۱میں سالاربنگلورکے ادبی ایڈیشن میں شائع کرایاتھا۔
لیکن اس سے بھی قبل مدراس کے شاعر کاظم نائطی مختلف الوازن اشعار کامجموعہ غزل۱۹۷۹میں لکھ چکے تھے جسے انہوں نے اسی سال مدراس کے ہفت روزہ اتحاد میں غزل نما کے زیرعنوان شائع بھی کرایا تھا، جس کے چند اشعار بطور مشتے نمونہ ازخروارے درج ذیل ہیں:
 
بڑی وحشتیںتھیں صدائیں بہت تھیں
مرے گردوپیش ایسی ہنگامہ آرافضائیں بہت تھیں
برالفظ نوکِ زباں پرجولاتے تامل تھاتم کو
مجھے کوسنے کودعائیں بہت تھیں!
نگاہوںکی پوروں پہ آبی بدن کی جولاشیں پڑی ہیں
انہیں بس کسی کی دہکتی نظر کی چتائیں بہت تھیں
مخالف کئی لوگ تھے ہم سے کاظم
مگرگفتگومیں انائیں بہت تھیں
 
کاظم نائطی کی غزل نما سے صاف ظاہر ہے کہ یہ مظہرامام کی تقلید میں کہی گئی جوسوفیصدی آزادغزل ہے اورصرف اس کانام تبدیل کیاگیاہے لہذا ظہیر غازی پوری کے تجربے کواس سے گزندپہنچنے کاتوسوال ہی پیدانہیں ہوتامگر مختلف وجوہات کی بناپر ظہیرغازی پوری کے اس تجربے کوپاکستان کے پروفیسرسجادمرزااورشاہین فصیح ربانی نے ظہیر صاحب کےاس خیال سے کہ غزل نما میں اشعار کے چھوٹے بڑے ہونے کے باوجود شعر کی وحدت کی وجہ سے غزل کاتاثر برقراررہتا ہے ، اتفاق نہیں کیااور ان کے اس تجربے کو ناقابل قبول قراردے دیا۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی ناوک حمزہ پوری ،ڈاکٹر اسلم حنیف ،سعیدرحمانی، فیضی سنبل پوری اورشارق عدیل نے بھی ان کے اس تجربے کواچھی نظرسے نہیں دیکھا اور مناظرعاشق ہرگانوی جنہوں نے اب تک ہر تجربہ کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کے تجربات کاکھلے دل سے خیرمقدم کیاہے،مگر اس بارقطعا غیر متوقع طور پر انہوں نے بھی ظہیر صاحب کی غزل کے تجربے کو بیک جنبش قلم مستردکردیا ہے اور ان کے بجائے شاہد جمیل کے غزل نما کے تجربے سے نہ صرف اتفاق کیاہے بلکہ اس کے پھلنے اور پھولنے کامعقول بندوبست بھی کردیاہے۔
 
چونکہ شاہد جمیل کے ڈیڑھ شعری غزل نما کا تجربہ ظہیرغازی پوری کے تجربے سے سات آٹھ سال پہلے ۱۹۷۳میں بجنور کے ایک ہفتہ وار غنچہ میں بعنوان غزل نماشائع ہوچکا ہے اس لئے لیے غزل کے موجد کہلانے کااعزاز بھی خود بخود شاہدجمیل کی جھولی میں پہنچ جاتاہے ظہیر غازی پوری کے تجربے کے استردادکی ارباب نقدونظر کی نگاہ میں درج ذیل وجوہات ہیں:چونکہ غزلیہ آہنگ چھوٹے بڑے اشعار کی موجودگی میں غزل نما میں بھی مفقود ہے اس لیے آزادغزل کو آئینہ دکھانا مضحکہ خیز ہے۔ایک ہی بحر کے کم وبیش ارکان میں کہی جانے والی غزلوں سے اشعار لے کر واور انہیں یکجاکرکے جس طرح آزاد غزل کاشعر اپنے بڑے چھوٹے مصاریع کے سبب اپنی پہچان آپ ہے اسی طرح شاہد جمیل کاڈیڑھ مصرعی اشعار پرمبنی غزل نماان تمام الجھنوں سے پاک وصاف بھی ہے اور اپنے وجود کی واضح شناخت بھی رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے بہت سے شعراشادجمیل کی تقلیدمیں غزل نماتخلیق کرنے کیلئے بہ رغبت ورضااور خوشی میدان عمل میں اترآئے اور بقدرتعدادان تخلیقات کاذخیرہ کافی اکٹھاہوگیا جسے مناظر عاشق صاحب کی مرتبہ کتاب غزل نمامیں محفوظ کردیاگیاہے۔ غزل نما کی نہ تو بحرمخصوص ہے اور نہ وزن مصرع ثانی مصرع اولیٰ کانصف ہوناچاہئے علاوہ ازیں یہ بات بھی ذہن نشیں کرنا ضروری ہے کہ اس کے سارے مصرع اولیٰ ہم وزن ہونے چاہئیں اور اسی طرح نصف مصرعے کی شکل میں سبھی ثانی مصاریع کابھی آپس میں ہم وزن ہوناضروری ہے۔ یعنی اگر چار مفاعیل کامصرع اولیٰ ہوتو مصرع ثانی دومفاعیل کے وزن پر ہونا چاہئے اس کی مثال میں اپنی ہی غزل ناسے پیش کررہاہوں:
زرکی تقسیم ایسی بدترکیوں خاص بندے ہی صاحب زرکیوں
 
بھوکے ننگے ہمیںقلندرکیوں
جوکہ غاصب بھی لشکری بھی ہیں جوکہ جابر بھی عسکری بھی ہیں
وہی دنیا کے ہیں سکندرکیوں
ملی جن کوطاقت خداہوگئے ہیں
قضاہوگئے ہیں
نہیں وہ جوشاہین ساون سہانے
بلاہوگئے ہیں
 
میں نے دوہاپیکر غزل نما،کاتجربہ بھی کیاہے جس کے سبھی اولیٰ مصاریع دوہے کے وزن اور۱۳۔۱۱۔۲۴ماترائوں کے پاسدارہیں اور ثانی مصاریع حسبِ آہنگ مختصرہیں۔ملاحظہ کیجئے:
ماتھے جھومرتھامرے، تیرے سرپرتاج
خواب یہ دیکھاآج
اس فاقہ کش سے خفا، خفانہ ہوکیوںرزق
کرے جوکام نہ کاج
رہنے بھی دے چارہ گر، پیارکاہے یہ روگ
جس کانہیں علاج
غرضیکہ غزل نما میں۲۹شعرائے کرام جن میں شاہد جمیل ،ڈاکٹر امام اعظم ڈاکٹر محبوب راہی، ڈاکٹرنذیرفتح پوری، ڈاکٹر فرازحامدی، رئوف خیر اور صابر عظیم آبادی جیسے نابغوں اور رفیق شاکر شارق عدیل، شمیم انجم وارثی، احسان ثاقب،نیناجوگن ،قمربرتر، حفیظ انجم کریم نگری اور مشرف حسین محضرجیسے مشاہیرشامل ہیں اور جس طرح انہوںنے اپنی اپنی غزل نمامیں فکرواحساس کی جمالیات کے رنگ بکھیرے ہیں اور صری دردوکرب کے نقوش کوابھاراہے اس کے پیش نظر غزل نما کے پھولنے اور پھلنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 692