donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Ghazal Numa
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Yousuf Jamal
Title :
   Ghazal Numa : Shahid Jameel Va Ghazal Numai Ke Shoara

غزل نما:شاہد جمیل وغزل نمائی کے شعرا
 
یوسف جمال ،اڑیسہ
 
سالاربنگلوربابت اگست ۱۹۸۱میں جب ظہیرغازی پوری کی ایک آزادغزل قدرے تصرف کے ساتھ، غزل نما ، کے نام سے آئی تو سب سے پہلے یوسف جمال نے ہی اس کے خلاف پرزوراحتجاج کرتے ہوئے ڈاکٹر مناظرعاشق ہرگانوی کی گفتنی سے ملتے جلتے الفاظ کے سہارے شدیدرد عمل کااظہارکیاتھا کہ ظہیرآزادغزل کوغزل نمابنا کر اس کاموجدبنناچاہتے ہیں۔جیسا کہ مناظر نے کہا، فردیات وابیات کاروپ دے کراسے غزل نما نہیں کہہ سکتے محض ارکان کی کمی بیشی سے اسے غزل نما کانام نہیں دیاجاسکتا۔ ظہیر نے دیکھا اگر آزادغزل کے موجدمظہر امام ہیں تو کیوں نہ اس سانچے میں قدرے تراش خراش سے کام لے کرایک نئی صنف کوڈھال دیاجائے تواس کابھی نام ایجاد کردوں کی فہرست میں آجائے گا۔ بس اس سوچ کولے کروہ انگلی کٹانے پر برسرِ پیکا رہوگئے کم ازکم اس بہانے ہی اس کابھی نام شہیدوں میں شمار ہوجائے،مگر وہ اس میں اپنی توقع کے خلاف بری طرح فلاپ ہوئے شومی قسمت، ان کے حصے میں پشیمانی ہی ہاتھ آئی۔ شاہد جمیل کی شخصیت دنیا ئے ادب میں گہری پہچان رکھتی ہے۔ ان کی متنوع قلمی صلاحیتوں سے ہی غزل نما معرضِ وجود میں آئی ہر چنداس میں بھی آزادغزل کی طرح مصرعوں میں کمی بیشی نظرآتی ہے لیکن آزادغزل متعینہ بحور میں ہونے کے باوجود کبھی اس کااولیٰ مصرع بڑا ہوتاہے تو ثانی مصرع چھوٹاہوتاہے اور کبھی پہلا مصرع پرمشتمل ہواکرتاہے۔ مگر شاہدجمیل نے اپنی تخلیقی وشعری چھوٹے بڑے، بڑے چھوٹے مصرعوں پر مشتمل ہواکرتاہے۔ مگر شاہدجمیل نے اپنی تخلیقی وشعری مہارت اور ذکاوت کے زیر اثر غزل نما کو ایک نیارنگ اور خوش فکر مزاج دے کر آزادغزل سے اس کارشتہ منقطع کردیا اور اس طرح انہوں نےاپنی نفرادیت کوبرقراررکھتے ہوئے الگ تھلگ اور جداگانہ ایک نئی صنف کی بنا ڈالی مجھے بھی مناظر عاشق کی زبان میں کہنے کی اجازت دی جائے شاہد جمیل نے صحیح منفرداور متوازن ہئیت میں تجربہ کیا ہے۔ غزل نماکاہر پہلا تیسر اپانچواں یعنی ہراولیٰ مصرع میںمثلاساتواں وغیرہ رکن کے حساب سے مساوی ہوتے ہیں جبکہ ثانی مصرع میں جتنے رکن ہیں اسی مناسبت سے دوسراچوتھا، چھٹا، آٹھواں وغیرہ مصرعوں میں اتنے ہی رکن ہوتے ہیں۔ اس کی وضاحت کیلئے شاہد جمیل کی غزل نما کے چنداشعارکافی ہوںگے۔
 
آئینے اور عکس کے جھگڑے کے پیچھے جوکوئی ہے
میں اسے پہچانتاہوں
 
اس کی یادیں، اس کی باتیں، اس کے موسم ،اس کے البم
درد کوگردانتاہوں
 
ترامجھ میں اسرارکیاتھا؟تجھے خواب میں دیکھتاتھا
تراسامناکررہاہوں
 
زمانہ اسی کی طرح ہے، جوبالکل مری ہی طرح ہے
زمانے سے کیوں ڈررہاہوں
 
مناظرعاشق ہرگانوی نے شاہد جمیل سے قبل کاظم نائطی کوغزل نما کا موجد قراردیا تھا جس پر علیم صبانویدی گویا ہوئے کہ کاظم نائطی نے آزادغزل کوغزل نما کانام دے کراسے مشتہرکیا تھا اس پر کسی طرح کاردعمل نہیں ظاہرکیاگیا۔ لیکن پھرڈاکٹر ہرگانوی کے ہی مطابق شاہد جمیل کی محنت جوخلاقانہ ذہانت سے آراستہ تھی بار آورثابت ہوئی کہ شاہد جمیل ہی غزل نما ے ایجاد کردہ ہیں۔یقیناوہی غزل نما کے خالق ہیں ویسے بھی دیکھا جائے توظہیرغازی پوری نے اپنی جس آزادغزل کوغزل نما کانام دیا تھاوہ اگست ۱۹۸۱کازمانہ تھا اور کاظم نائطی کی آزادغزل ،غزل نما کے نام سے شائع ہوئی تھی تو وہ ۱۹۷۹کادورتھا لیکن شاہدجمیل کی پہلی غزل نمااکتوبر۱۹۷۳میں رونق غنچہ بنی تھی۔ زمانوں کے لحاذ سے بھی غزل نما کے موجدوبانی صرف اور صرف شاہد جمیل ہی ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔ شاہدجمیل ایک کثیرالمطالعہ، کثیرالجہت اور کثیرالخیال کے نہایت ہی بیدار مغزشاعر ہیں، ان کے دیگر کلام کی طرح غزل نماکاجائزہ لیا جائے تواس میں بھی غزل کی طرح مکمل طورپر فنکارانہ چابک دستی دکھائی دیتی ہے۔ جابجاجمالیاتی کیفیات کی جلوہ گری کے ساتھ ساتھ مختلف گوشوں کی شعری اساس بھی ہے جس میں گہرائی اور گیرائی کے علاوہ خارج اور داخل کا ایک جہان ملتاہے ظاہر اور باطن کی جھلکیاںاس انداز سے موجودہیں کہ ہر پڑھنے والا متحیرہوکررہ جاتاہے ان کی شاعری کہیں سے بھی جامد نظرنہیں آتی بلکہ زندگی کے عناصررنگ وبوکے جھونکے لیے ہوئے قاری کومسحورکردیتے ہیں اور یہی وہ ساحرانہ شعری کیفیات ہیں جوحیات وکائنات کے نشیب وفرازکا ڈاکٹر مناظرعاشق کی حیثیت دنیائے ادب میں ایک سازکادرجہ رکھتی ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ غزل نما کے کئی دعویدارغزل نما کے موجدبننے کی ڈفلی بجارہے ہیں تو انہوں نے اپنی فطری نیز کھوجی طبیعت کے زیراثرنہایت عرق ریزی سے اس کی تاریخ کوکھنگال ڈالاتب جاکے حقیقت کاانکشاف ہوا تینوں فنکاروں کے شعوری طورپر محاکمہ وتجزیہ کے بعدہی منکشف ہواکہ شاہد جمیل ہی ہیں جنہوں نے غزل نما کی بناڈالی۔ سچائی سامنے آگئی، کھوکھلے دعویداروں کے چہروں سے میلی نقاب اترگئی اور وہ بغلیں بجاتے رہ گئے۔ سطحی شہرت کے خواہاں اولیت کاتاج سروں پر سجانے کیلئے کیا کیا نہ گل کھلائے لیکن ڈاکٹرمناظرنے ان کے جھوٹے دعوئوں کی قلعی کھول دی۔ انہوں نے شاہدجمیل کوغزل نما کاموجد کہنے پرہی اکتفانہیں کیابلکہ باشعور شعراکوبھی غزل نماکی جانب راغب کرکے ان سے غزل کھوائی۔ آج انھی کی کوششوں کاثمرہ ہے کہ آنافاناغزل نماکاپہلا انتخاب منظرعام پر لاکر اہل ادب کوورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اتنے ہی پر، انہوں نے بس نہیں کیا اپنے مئوقرومستندادبی رسالہ کوہسارکاغزل نما نمبر، بھی نکالا اور دوسری کتاب غزل نماسمت وسفر بھی شائع کی۔
 
ہاں تو بات غزل نما کے انتخاب کی ہورہی تھی۔ میرے ادبی ایقان کے بموجب غزل نما کے انتخاب کودیکھ کرگمان ہی نہیں ہوتابلکہ میری اس سوچ کو بھی تقویت پہنچتی ہے کہ غزل نما، مجموعہ اپنی افادیت اورجاذبیت کے پیش نظرعنقریب مقبولیت کی سندپالے گی اور جوتجربہ کی صورت میں نظرآرہی ہے کیاعجب کل نئی صنف کاتمغہ پاکرادب میں اپنی جگہ بنالے گی۔ کوہسارکے نمبراور دوسری کتاب سے یقینااس صنف کواستحکام ملے گا۔
 
انتخابی غزل نما میں جن شعراکی تخلیقات شامل مجموعہ ہیں یہ سارے فنکارشاہد جمیل کے شانہ بہ شانہ چلنے پر ہی آمادہ نہیں ہیں بلکہ انہوں نے غزل نما سے اپنی ٹھوس وابستگی کااظہاربھی کیاہے۔ قصہ کوتاہ شعرانے غزل نمامیںجس قبیل کے اشعارکی تخلیق کی ہے اس سے غزل نماکی ایک خوشگوارفضاکی سازگاری اور ہمواری میں خاصہ معاون ثابت ہوگی۔
 
مجموعہ غزل نما میں میرکارواں شاہد جمیل کے کارواںمیں صابرعظیم آبادی، نذیرفتح پوری،فرازحامدی، رئوف خیر، محبوب راہی ،محمد نورالدین موج، قمر برتر، یوسف جمال، منصورعمر، عثمان قیصر، شاہدنعیم، امام اعظم، شمیم انجم وارثی،رفیق شاکر، مجیب الرحمن بزمی، حفیظ انجم کریم نگری، مشرف حسین محضر، نیناجوگن، قدرپاروی، م، اشرف، سید عبیداللہ ہاشمی، زیڈانور سہسرامی ،مناظر عاشق ہرگانوی جیسے قدرآوراورمستندشعراشامل ہیں، قاری جنہیں طرح داراور تازہ گوشعراکی حیثیت سے جانتے ہیں۔ان کے ہمہ گیر شعری تشخص سے انکار ممکن نہیں۔ ان میں سے کسی کی بھی غزل نما پر نظرڈالی جائے ہرغزل نما سے ان کی مکمل اور پربسیط انفرادیت جھلکتی ہے۔ ان کے شعروں میں متحیرانہ تجسس کی ایسی روشنی ہے، جسے پرکیف اور اچھوتے انداز اور خوش کن خیالوں سے بھی معنون کرسکتے ہیں۔ جہاں اس میں حیات کے مختلف النوع تضادات دیکھنے کوملتے ہیں تواس کے نشیب وفراز سے اوراک بھی حاصل ہوتاہے۔ زمانے کے گرم وسردجھونکے بھی محسوس ہوتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے سے عارنہیں کہ غزل نما کے شعراقطعی مثبت سوچ کے مظہر کیوں نہہوں، سچائی یہ ہے کہ ان کے برمحل الفاظ نہایت مربوط ،مستحکم اور شعوری احساسات سے آراستہ اس طرح توانا ہوتے ہیں کہ معنویت مختلف اشکال میں آکردلوںکوفرحت بخشتی ہے۔ ان اشکال میں اسراروتجسس بھی ہے،بھی ہے نئی جہتوں کی رونمائی اور سروروانبساط کی تجسیم کاری کانمونہ بھی ہے جس سے ان کی شاعری کشمکش ، زہرخندی اورچشم گریاں جیسی کیفیات کے پہلوبہ پہلوکرب واذیت کے حصارسے باہرنکلنے کی جدوجہد پرزورِ احتجاج کی صورت لیے سامنے آتی ہے۔ شعروں میں جذبوں کی کیفیت کی عکاسی ہے توفی زمانہ عشق سے فراریت کے باوجود حسن وعشق کے میلان کی ایک پرتکلف فضا کامنظر بھی ملتاہے۔ایک ایسا سحرطراز منظر جوعصرحاضر کی پرفسوں روشنی سے اکتساب کے ساتھ میں اور ہم کے امتیاز کوبھی مٹاتاہے۔ گویا تمام تر علامتیں ،پیکر تراشیاں اور استعارے ان کے اشعارکے خاصہ ہیں۔ یہ سارے لوازمات وتلازمے ان کے شعروں میں ان زاویوںسے منعکس ہیں کہ قاری اپنے آپ کواسی جہان کاباسی سمجھنے پر مجبوراور ان کی بے پناہ شاعرانہ قوتوںکاقائل ہوکررہ جاتاہے۔ تقریباہرشاعرنےاپنی فطری اور انوکھی سوچ کوجس قبیل سے صفحہ قرطاس پررقم کیاہے اس سے پڑھنے والے پردم بخودکی سی کیفیت ہی نہیں چھاجاتی بلکہ زندگی کی شگفتگی اور تازگی کااحساس بھی جنم لیتاہے۔ خارج اور داخل کی گہرائیوں میں ڈوبنے اور ابھرنے کے لطف سے بھی دوچارہوتاہے۔ کثیف فضائوں سے بچنے کی ترغیب اورظاہری وباطنی منزل کی جانب سے سفر کرنے کاتقاضابھی سامنے آتاہے۔ جابجا شعروں میں فن شناسی کے جواہر بکھرے دکھائی دیتے ہیں ان شعروں میں مثبت فکروں کی دلنوازشعاعیںذہن ودل میں نقش کالحجربن جاتی ہیں۔ غزل نما کی جاذبیت اور سحرآفریں آغازکودیکھتے ہوئے اس کے روشن امکانات کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ غزل نماشعری ادب میں نئی صنف کی حیثیت سے اضافے کی موجوب ہی نہیں بنے گی بلکہ اپنے نقوش بھی مرتب کرے گی نیز شاہدجمیل اوران کے ہمدوش شعراکوبھی آنے والی نسل فخرسے یادکرے گی!
 
++++
Comments


Login

You are Visitor Number : 528