donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Ab Gandh Nehru Patel Azad Aur Ambedkar Ke Batware Ki Koshish


اب گاندھی، نہرو، پٹیل، آزاد اور امبیڈکرکے بٹوارے کی کوشش


اور کیا کیا تقسیم کریں گے یہ نیتا؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کس کے گاندھی بڑے ہیں اور کس  کے چھوٹے؟ کس کے پٹیل بڑے ہیں اور کس کے چھوٹے؟ مولانا آزاد کا علمی اور سیاسی وارث کون ہے؟ نہرو کی وراثت صرف کانگریس تک محدود ہے یا دوسروں کو بھی اس پر حق جتانے کا اختیار ہے؟ ڈاکٹر امبیڈکر صرف بہوجن سماج پارٹی کے ہیں یا ان پر کسی دوسری سیاسی پارٹی کا بھی حق بنتا ہے؟اس قسم کے سوالات کے پیچھے گھٹیا سیاست دکھایی دیتی ہے۔ جن بونے سیاست دانوں کے پاس اپنا کچھ نہیں ہے اور نظریاتی اعتبار سے دیوالیہ ہیں انھیں لگتا ہے کہ وہ کچھ بت تراش کر اور ان کی پوجا کرکے خود کو  بڑا ثابت کر سکتے ہیں۔ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ ان بونے سیاست دانوں کے پاس اپنا کوئی قد نہیں ہے اور یہ مورتیوں کے سہارے بلندی کو چھونا چاہتے ہیں۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی ایک بڑے لیڈر گزرے ہیں جن کے نظریات نے ایک دنیا کو روشنی دکھائی اور اہنسا کا پیغام دے کر انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ تشدد سے زیادہ طاقت ور عدم تشدد کا ہتھیار ہے۔ گاندھی نے بے سروسامانی کے عالم میں جدوجہد کا راستہ دکھایا اوردنیا کو سمجھایا کہ اسلحے سے زیادہ خطرناک ہتھیار آندولن ہے۔ آج اسی گاندھی کی وراثت کے لئے نیتائوں میں جنگ چل رہی ہے۔ وہ نیتا جن کا گاندھی کے افکار وخیالات سے کچھ بھی لینا دینا نہیں۔ جو ان کے قاتل کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں آج وہ بھی ان کی حمایت کے دعویدار ہیں۔ خود گاندھی کی جماعت کانگریس نے بار بار اقتدار کے لئے ان کے نظریات کا قتل کیا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہی حال پٹیل ، آزاد اور نہرو کے ساتھ کیا جارہا ہے۔سنگھ پریوار بار بار گاندھی کے سیکولر نظریات کی مخالفت کرتا رہااور جس کے افکار گاندھی کی شہادت کا سبب بنے، وہی آج گاندھی وادی نظر آنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سنگھ پریوار گاندھی وادی ہے تو پھر گوڈسے وادی کون ہے؟ وزیر اعظم نریندر مودی کا ماضی ہنسا اور تشدد دسے عبارت ہے۔ ان کے گجرات کا وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے یہاں فرقہ پرستی کا جو ننگا ناچ کیا گیا اس کا گواہ سارا عالم ہے ، بے گناہوں کا فرضی انکائونٹر کیا گیامگر اب جو وہ ’’سوچھ بھارت ابھیان‘‘ چلا رہے ہیں اس میں گاندھی کی تصویر کا استعمال کیا جارہاہے ۔ یونہی سردار ولبھ بھائی پٹیل کو بھی وہ کانگریس سے چھیننے کی کوشش کر چکے ہیں۔ کانگریس خود جن لیڈروں کو بھلاچکی ہے ،اب وہ مودی کے خوف سے انھیں یاد کرنے لگی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ کہیں کانگریس کے کچھ اور مہاپرشوں کو بھی مودی چھین نہ لیں۔ یہا ں لڑائی آئیڈیا لوجی کی نہیں ہے، ان کے نظریات کو اپنانے کی نہیں ہے بلکہ بتوں کی ہے۔ یہ علامتی بت بھارت کا کچھ بھلا نہیں کرسکتے مگر سیاسی پارٹیاں یہ دکھا سکتی ہیں کہ ان کے پاس بتوں کی کمی نہیں ہے،بس پرستاروں کی ضرورت ہے۔معروف کالم نگار ساگریکا گھوش نیتائوں کی اس چھینا جھپٹی پرطنز کرتی ہیں کہ اس ملک کے نیتا تاریخ پر لڑ رہے ہیں اور تاریخ سازی کر رہے ہیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ مورخین سے تاریخ نویسی کے لئے کافی نہیں ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ سنگھ پریوار نے اپنے اولین آئیکان مذہبی اساطیری داستانوں سے لئے تھے یا پھر مذہبی شخصیات سے مگر اب ضرورت ہے جیتے جاگتے سیاسی لیڈروں کی لہٰذا اس نے کانگریس کے ان لیڈروں کو سامنے کرنا شروع کردیا ہے جو فراموش کئے جاچکے ہیں۔

سنگھ پریوار کے نئے آئیکان

    سنگھ پریوار کے اپنے کچھ آئیکان رہے ہیں جن میں گروگولوالکر، ساورکر، ہڈگیوار ، دین دیال اپادھیائے اور شیاما پرساد مکھرجی جیسے لوگ شامل ہیں مگر کچھ سال پہلے یہ دیکھ کر بہتوں کو حیرت ہوئی تھی کہ اس نے اپنا نیا آئیکان سوامی وویکانند کو بنایا تھا۔ اس کے بعد سے اس کے تمام پوسٹروں، بینروں اور اسٹیجوں پر سوامی جی کی تصویریں نظر آنے لگیں۔ سوامی وویکانند کا تعلق مغربی بنگال سے تھا ۔ وہ خود ہندو تھے اور دنیا بھر میں ہندو مت کا پرچار کیا کرتے تھے۔ انھوں نے اصل ہندازم کو دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اور اس کی منفی تصویر کو بدلنے کی کوشش کی تھی۔ وہ ہندو ضرور تھے مگر ویسے ہندو نہیں تھے جیسا کہ آرایس ایس والے ہوتے ہیں۔ وہ انسانیت میں یقین رکھتے تھے۔ امن و یکجہتی میں یقین رکھتے تھے۔ وہ ساری انسانیت کو ایک قوم سمجھتے تھے برخلاف سنگھ پریوار کے جو ہندوستانیوں میں ہی ایک دیوار کھڑی کرتا ہے اور لوگوں کے دلوں کو تقسیم کرتا ہے۔ سوامی وویکانند اور آر ایس ایس کا ہندتو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے اور آج اگر وہ باحیات ہوتے تو کبھی اجازت نہیں دیتے کہ ان کی تصویروں کو سنگھ پریوار استعمال کرے۔ اسی طرح دوسری تاریخی شخصیات کو بھی سنگھ پریوار اپنے پالے میں لینے کے لئے کوشاں ہے۔

    ملک کے اولین وزیر داخلہ اور کانگریس کے لیڈر سردار ولبھ بھائی پٹیل کی خدمات ملک کے اتحاد اور اس کی سرحدوں کو وسیع کرنے کے معاملے میں ناقابل فراموش ہیں۔ ان دنوں ان کی امیج کو بھی سنگھ پریوار ہائی جیک کرنے میں لگا ہوا ہے۔ نریندر مودی نے گجرات میں ان کی عظیم مورتی لگانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس کے لئے پورے ملک سے لوہا اکٹھا کرنے کا انھوں نے اعلان کیا تھا اور اس کے لئے باقاعدہ طور پر ٹی وی چینلوں پر اشتہارات بھی جاری ہوئے تھے مگر الیکشن کے بعد وہ اس معاملے میں خاموش ہیں۔ اگر یہ کوشش کامیاب ہوئی تو یہ دنیا کی سب سے اونچی مورتی ہوگی۔

کانگریس اور بی جے پی میں چھین جھپٹ

    گاندھی اور پٹیل کا تعلق گجرات سے تھا اور نریندر مودی نے اپنے قد کو بڑا کرنے کے لئے ان دونوں لیڈروں کو کانگریس سے چھین کر اپنے پالے میں کرلیا ہے۔ اب کانگریس خوفزدہ ہے کہ اس کے کچھ اور بھی لیڈروں کو سنگھ پریوار چھین نہ لے۔ حال ہی میں اس نے پنڈت جواہر لعل نہرو کی ایک سو پچیس سالہ سالگرہ کی تقریبات منائیں اور اس پروگرام میں جم کر مودی سرکار پر دھاوابولا۔ سونیا گاندھی نے تال کٹورہ اسٹیڈیم کے اس جلسے میں کہا کہ ملک کی موجودہ حصولیابیاں نہرو کی ہی پالیسیوں کے سبب ممکن ہوپائی ہیں۔ آج اگر ہم چاند پر قدم رکھ رہے ہیں اور مریخ پر کمندیں ڈال رہے ہیں تو اس لئے کہ نہرو جی نے ’’اسرو‘‘ کا سپنا دیکھا تھا۔ دوسری طرف راہل گاندھی نے کہا کہ پنڈت نہرو کی تعلیمی پالیسی کے سبب آج بھارت ساری دنیا پر چھاتا جار ہا ہے۔ انھوں نے انگریزی تعلیم کو بڑھا وا دیا جس کے سبب آج یہاں کے لوگ دوسرے ملکوں میں نوکری پارہے ہیں۔ اس جلسے میں وزیر اعظم کو مدعو نہیں کیا گیا تھا جس پر میڈیا نے سوالات بھی اٹھائے تھے۔

    اصل میں سوال یہ نہیں ہے کہ کانگریس آج نہرو کی یاد کو تازہ کر رہی ہے، بلکہ سوال یہ ہے کہ اس نے کانگریس کے دوسرے لیڈروں کو فراموش کیوں کیا؟ آج اگر سردار پٹیل کی مورتی مودی لگوا رہے ہیں تو کانگریس کو تکلیف ہورہی ہے مگر انھیں فراموش کرنے کا کام بھی اس نے کیا ہے۔ ملک میں کسی بھی یوجنا، سڑک اور علاقے کا نام رکھنے کی باری آتی ہے تو سب سے پہلے نہرو خاندان کے لوگوں کا نام آتا ہے۔ نہرو نگر، راجیو چوک، اندراوکاس یوجنا، جواہر روزگار یوجنا مگر دوسرے تمام لیڈروں کو فراموش کردیا جاتا ہے۔ پٹیل کی یاد کبھی نہیں آتی۔ مولانا آزاد کو کبھی یاد نہیں کیا جاتا۔ڈاکٹر بھیم روائو امبیڈکر کو فراموش کردیا جاتا ہے۔ رفیع احمد قدوائی ، مولانا حسرت موہانی،رام منوہر لوہیا اور جے پرکاش نارائن جیسے لوگوں کو کبھی یاد نہیں کیا جاتا۔ اگر مولانا آزاد کو کانگریس سرکاروں میں یاد کیا جاتا تھا تو صرف ان اسکیموں کے حوالے سے جو اقلیتوں کو بیوقوف بنانے کے لئے ہوتی تھیں، یا امبیڈکر کو یاد کیا جاتا تھا، تو اس وقت جب دلتوں کا ووٹ لینا ہوتا تھا۔سوال یہ ہے کہ کانگریس نے خود اپنے لیڈروں کو کیوں بھلادیا۔ اسے صرف نہرو، اندرا اور راجیو یاد رہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ انھیں ناموں پر اسے ووٹ مل سکتے تھے۔ یہ خاندان تو اس قدر خود غرض نکلا کہ اس نے اپنے اصل جنم داتا کو بھی فراموش کردیا۔ جسے ہم نہرو خاندان کہتے ہیں یہ تو فیروز جہانگیر خان کی اولاد ہے مگر کبھی بھولے سے بھی یہ ان کا نام نہیں لیتا۔ اسے نہرو، اندرا اور راجیو کی سمادھیوں پر جانا یاد رہتا ہے مگر کبھی بھولے سے بھی فیروز کی یاد نہیں آتی۔آج ملک کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کب فیروز کا جنم دن آیا اور کب برسی گزری۔ بلکہ ان سے پیچھا چھڑانے کے لئے اس خاندان نے اپنا سرنیم تک تبدیل کر گاندھی کرلیا۔ سونیا گاندھی کو اپنی ساس کی یاد آتی ہے اور سسر کی یاد نہیں آتی۔ راہل کو اپنی دادی یاد رہتی ہیں مگر دادا کو بھولے سے بھی یاد نہیں کرتے۔ جو خاندان اس ملک پر ایک مدت تک راج کرتا رہا اور کانگریس کے اعلیٰ لیڈروں کو فراموش کرتا رہا،اس کی اس حرکت پر کسی کو حیرت بھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس نے تو اپنے جد اعلیٰ فیروز کو بھی فراموش کردیا ہے۔ آج جو لیڈران آئیکان کی چھین جھپٹ میں لگے ہیں ان کے پاس نظریات کی کمی ہے اور کام کرنے سے گریز کرتے ہیں گر انھوں نے کام کیا ہوتا تو کام کے نام پر ووٹ پاتے نہ کہ بتوں کے نام پر۔  


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 498