donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Aik Bar Phir hindustan Me Sar Uthane Laga Do Qaumi Nazariya


ایک بار پھر ہندوستان میں سر اٹھانے لگا دوقومی نظریہ


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    بھارت شدت پسندی کی راہ پر جارہاہے؟ کیا جس راہ پر چل کر پاکستان نے خود کو برباد کرلیا ،اب اسی راستے پر ہندوستان بھی چل پڑا ہے؟ کیا جو دوقومی نظریہ تقسیم ملک کا سبب بنا،اب ہندوستان کی بھگواوادی جماعتیں ،اسی نظریے کو درست ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہیں؟ کیا ہندوشدت پسندی کا راستہ ویسا ہی ہے جیسا کہ اسلامی انتہاپسندی کے نام پر اعتدال کے راستے کو چھوڑنا؟ کیا جس طرح پاکستان اسلام کے نام پر دہشت گردی کا شکار ہوگیا، اسی طرف اب بھارت کو دھکیلنے کی کوشش میں ملک دشمن طاقتیں مصروف ہیں؟ آج اس قسم کے سوالات اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں نہ صرف ہندوشدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے بلکہ سماج سے رواداری کم ہوئی ہے اور اس کی جگہ تنگ نظری نے لی ہے۔ آج حالات ایسے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان پر آئین وقانون نہیں بلکہ تنگ نظرلوگوں کے نظریات کا راج ہے جہاں لکھنے، بولنے اور کھانے پینے تک کی آزادی نہیں ہے۔ یہی سماجی تقسیم ملک کے بٹوارے کا سبب بنی تھی اور آج پھر اسی راستے پر ملک کو لے جانے کی کوشش چل رہی ہے۔ دوقومی نظریہ جس کی بنیاد پر پاکستان بنا تھا، وہ پاکستان میں دم توڑ چکا ہے مگر اب بھارت میں اسے بھگواوادیوں کی طرف سے زندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بات بات میں ان کی طرف سے پاکستان کا نام لیا جاتا ہے اور ہزاروں سال سے بھارت میں رہ رہے لوگوں کو پاکستان چلے جانے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔آخر بھاجپائیوں کی زبان پر پاکستان کا نام بار بار کیوں آتا ہے؟  یہ ان کے پاکستان پریم کے سبب تو نہیں ہے؟ کیا ان کے دل کی بات بار بار زبان پر آجاتی ہے؟

دانشوروں میں بے چینی

    ہمارے ملک میں اس وقت جس قسم کے حالات ہیں اور دائیں بازو کے لیڈروں کی طرف سے جس قسم کے بیانات آرہے ہیں ،وہ ایک بار پھر دوقومی نظریے کے زندہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس بات کو آج کے ادیب، فنکار، قلم کار، مورخ اور سائنٹسٹ بھی محسوس کر رہے ہیں اور اسی سبب انھوں کے ایوارڈ واپسی کی تحریک شروع کی ہے۔حالانکہ بی جے پی کی طرف سے ایسے دانشوروں کو کانگریس اور کمیونسٹوں کا دلال بتانے کی کوشش بھی ہوئی ہے۔ اس دوران مؤرخ عرفان حبیب نے آر ایس ایس کا موازنہ آئی ایس آئی ایس سے کیا۔ اسی کے ساتھ مصنفین اور فنکاروں نے مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے اس تبصرہ کی مخالفت کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عدم برداشت کو لے کر کی جا رہی مخالفت مصنوعی ہے۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ آخر وہ کس طرح یہ بات کہہ سکتے ہیں، جبکہ صدر، بہت سے صنعت کار، یہاں تک کہ عام لوگ بھی بڑھتی عدم برداشت کو لے کر فکر جتا رہے ہیں۔مورخ عرفان حبیب نے کہا کہ عقل سے دوری کو لے کر آر ایس ایس اور اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) میں زیادہ فرق نہیں ہے۔انھوں نے دوقومی نظریے کی پالیسی کو زندہ کرنے کے لئے بھی دائیں بازو کی مذمت کی۔ایسا ہی خیال ظاہر کیا ہے جوگ سرایا (ایڈیٹر ٹائمس آف انڈیا) نے، جنھیں ملک کے ماجودہ حالات پر فکر ہے۔

دوقومی نظریے کی طرف مراجعت

     ملک کے حالات پر نظر رکھنے والے محسوس کر رہے ہیں کہ آرایس ایس کے نظریات سے ملک کے اتحاد کو خطرہ لاحق ہے اور دانشوروں کا احتجاج اسی کے پیش نظر ہے۔ آج ملک میں بڑھتی تنگ نظری کے سبب لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ پاکستان جیسے حالات بھارت میں بھی پیدا ہورہے ہیں ، مذہب کے نام پر عدم برداشت بڑھ رہی ہے اور رواداری کا خاتمہ ہورہاہے۔ بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین کا کہنا ہے کہ بھارت ’’ہندو سعودی عرب ‘‘بنتا جارہے، جہاں ہندتو کے نام پر تنگ نظری پھیلائی جارہی ہے جس طرح سعودی عرب میں اسلام کے نام پر بادشاہوں نے جابرانہ قوانین مسلط کر رکھے ہیں۔ حال ہی میںجموں و کشمیر کے آزاد ممبر اسمبلی انجینئر عبدالرشید پر دلی میں سیاہی پوتی گئی تب انھوں نے کہا کہ مہاتما گاندھی کے بھارت میں نہیں بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ہندوستان میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے۔انھوں نے کہا، ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ یہ اب مودی کا ہندوستان ہے نہ کہ روادار (مہاتما) گاندھی کا بھارت۔انھوںنے کہا، میں ہمیشہ سے یہ مانتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کو ایک ہی ملک ہونا چاہیے تھا لیکن، حالیہ دورمیں دائیں بازو کے کارکنوں کے حملوں نے محمد علی جناح کے دوقومی نظریے کے اصول کو صحیح ثابت کر دیا ہے۔

دوقومی نظریہ کے خالق ہندتووادی تھے

    ’’دوقومی نظریہ‘‘ کا اصول سب سے پہلے ہندو مہاسبھا کی طرف سے پیش کیا گیا تھا ۔ آر ایس ایس کے لوگوں نے بھی اسے اپنایا اور ملک میں نفرت انگیز پرچار کر کے مختلف طبقات میں دوریاں پیدا کیں۔دین دیال اپادھیائے نے ایک مضمون’’مسلم سمسیا‘‘ کے عنوان سے لکھا تھاجس میں انھوں نے خیال ظاہر کیا تھا کہ ہندواور مسلمان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اسی نظریے کو بعد میں مسلم لیگ نے اپنایا تھا۔ پاکستان کے قیام کی بنیاد میں ’’دو قومی نظریہ‘‘ اصول تھا۔ دو متحدہ اصول کے مطابق ہندو اور مسلمان دو الگ تھلگ قومیں ہیں جو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔اسی اختلاف نے پاکستان کے مطالبے کو زور دیا۔ دوقومی نظریے کو کس نے جنم دیا تھا، یہ اہم نہیں، بلکہ اہم یہ ہے کہ اس کو اُس وقت بھارتی معاشرے کے دو طبقوں کی طرف سے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘پالیسی کو جم کر کھاد پانی دیا گیا۔ نتیجے کے طور پر ملک کی تقسیم عمل میں آئی۔

1947سے 2015تک

    جب کسی خطے میں شدت پسندی بڑھتی ہے تو لازمی نتیجے کے طور پر سماجی تقسیم بھی ہوتی ہے۔آج ویسے ہی حالات پیدا کئے جارہے ہیں جیسے تقسیم وطن کے وقت تھے۔آزادی اور تقسیم کی شرائط کے مطابق لیڈران اس بات پر متفق تھے کہ تقسیم تو ہوگا پر آبادی کا ٹرانسفر نہیں کریں گے۔لیکن نفرت کا عفریت اب قابو سے باہر ہو کر اپنے حکمرانوں کی بات ماننے سے انکار کر چکا تھا۔ بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی کے زیرسایہ عدم تحفظ اس قدر بڑھتا گیا کہ لوگوں کو انھیں سے جان بچا کر بھاگنا پڑا، جن کے ساتھ نسلوں سے رہتے آ رہے تھے۔ انسانی تاریخ میں آبادی کی سب سے بڑی منتقلی ہوئی اور منتقلی اپنی مرضی سے نہیں ہوئی تھی، بلکہ دم گھونٹنے والے فرقہ وارانہ ماحول کی وجہ سے ہوئی تھی۔ایسے میں کوئی دوقومی نظریہ کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو مگر کاغذ پر لکیر کھینچ کر بنائی گئی سرحد کے دوسری طرف جانا ان کی مجبوری تھی۔ انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی نظریاتی طور پر دو قومی نظریے کو اپنا لیا۔


    پاکستان بھلے بنا تھا دو قومی نظریے کی وجہ سے، لیکن ہندوستان کے لوگ نہ صرف اس اصول کو خارج کرتے رہے، بلکہ پرامن بقائے باہمی اور سرودھرم کے اصول کے ساتھ چلتے رہے۔ آگے چل کر تاریخ نے ثابت کر دیا کہ دوقومی نظریے کی جگہ کوڑے دان تھی، جب آزادی کے پچیس سالوں کے اندر اندر پاکستان خود دو حصوں میں بٹ گیا۔ وہیں سرودھرم کی پالیسی پر چلنے والا ہندوستان ایک قوم کے طور پر 68 سال کے بعد بھی برقرار ہے۔ ہندوستان کی اکھنڈتا ملک دشمنوں کو کھٹکتی رہی ہے اور اس کے اتحاد کے شیرازے کو بکھیرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں مگر ناکام رہیں ۔ آج جس طرح سے سماج کو بانٹنے کی کوشش چل رہی ہے اور جس قسم کے بیانات عوام کو اشتعال دلارہے ہیں وہ نہ صرف قابل مذمت ہیں بلکہ سماج کو بانٹنے والے بھی ہیں۔ ان سے ملک کو خطرہ ہے۔ ماضی میں بھی اس قسم کی طاقتیں سرگرم رہی ہیں مگر آج حالات اس لئے مختلف ہیں کہ نفرت کے سوداگروں کو حکومت کی حمایت وسرپرستی بھی حاصل ہے۔

 نفرت کے خلاف محبت کا راستہ

     ہندوستانی سماج کو بانٹنے کی کوشش ماضی میں بھی ہوئی اور اس کی مخالفت بھی ہوئی اور آج بھی اس کوشش کی مخالفت کرنے والے سامنے آرہے ہیں۔جب پاکستان کے وجود کی دلیل کے طور پردوقومی نظریہ کو پیش کیا گیا تھا تب اس کی مخالفت میں شمال مغربی سرحدی صوبے میں ’’سرحدی گاندھی‘‘اور ’’بادشاہ خان‘‘ کی عرفیت سے مشہور خان عبدالغفار خان نے دو قومی نظریہ کو مسترد کردیا تھا اور پاکستان کے بننے کی کھلے طور پر مخالفت کی تھی۔ بڑھتی ہوئی نفرتوں کے دور میں ان کی آواز کمزور پڑتی گئی اور وہ سرحدی صوبے کو پاکستان کا حصہ بننے سے نہیں روک سکے۔ انہیں مناسب حمایت نہ مل پانے پر انہوں نے کہا تھا کہ بھارتی قیادت نے انہیں اور ان کے لوگوں کو بھیڑیوں کے درمیان چھوڑ دیا ہے۔ آزادی کے لئے عدم تشددکی تحریک چلانے والے اس پشاور ی پٹھان،اور اس کی ٹیم ’’خدائی خدمتگار‘‘ کو دوقومی نظریہ اصول کی حمایت نہ کرنے کی بڑی قیمت چکانی پڑی۔ پاکستان بننے کے کچھ ہی وقت بعد انہیں نظربند کر دیا گیا۔ 1954 تک نظربند رکھنے کے بعد انھیں چھوڑا بھی گیا تو گاہے بگاہے پاکستان کی حکومت انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈالتی رہی۔اس وقت بھارت میں بھی کچھ لوگ عوام کے دلوں میں نفرت کے بیج بونے میں لگے ہیں مگر آج سینکروں قلمکار، آرٹسٹ،سائنٹسٹ،مورخ اور دانشور اس کے خلاف میدان میں آرہے ہیں۔ یہ ملک کے لئے امید کا راستہ ہے اور یہ راستہ تقسیم کرنے والے قوتوں کو ناکام بناکر ملک کو مزید مضبوط بنائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 495