donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Congress Dobara Zinda Hogi Rahul Honge Mulk Ke Agle Wazeer Aazam


کانگریس دوبارہ زندہ ہوگی؟راہل ہونگے ملک کے اگلے وزیراعظم ؟
 
مودی کی ناکامی بنتی جارہی ہے راہل کے لئے کامیابی کا زینہ
 
تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
 
نیاسال راہل گاندھی کو ایک لیڈر کی حیثیت سے ملک میں مقبول بنائے گا؟ کیا مودی کے کمزور پڑ تے جادو کا فائدہ کانگریس کے نومنتخب صدر کو ملے گا؟کیا راہل گاندھی، نئے سال میں وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر ابھرینگے؟ 2017میں گجرات، ہماچل پردیش،اترپردیش، اتراکھنڈ اور پنجاب کے انتخابات ہوئے مگر پنجاب کے سواتمام ریاستوں میں کانگریس اسمبلی انتخابات ہار گئی۔اب سوال ہے کہ کانگریس کا کیا ہوگا؟پارٹی اپنے نئے صدر راہل گاندھی کے کرشمہ سے زندہ ہوگی یا دھیرے دھیرے تاریخ کا حصہ بن جائے گی اور سنگھ پریوار کا ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کا خواب پورا ہوگا؟ 2018 میںآٹھ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، کیا ان انتخابات میں کانگریس اچھا مظاہرہ کرے گی اور اپنی واپسی کے اشارے دے گی؟ یہ انتخابات اس لئے بھی اہم ہیں کہ 2019میں عام انتخابات ہونے ہیں اور ملک فیصلہ کرے گا کہ اگلے پانچ سال تک ہندوستان پر کونسی پارٹی راج کرے گی؟ان دنوں ایسے سوالات پر پورے ملک میں بحث جاری ہے کیونکہ اس وقت جہاں بی جے پی اپنے سب سے اچھے دور سے گزر رہی ہے، وہیں کانگریس اپنی تاریخ کے بدترین عہد میں ہے۔ اب سونیا گاندھی کانگریس کی صدارت سے سبکدوش ہوچکی ہیں اور راہل گاندھی پرنہ صرف پارٹی کو بچانے کا دبائو ہے بلکہ دوبارہ اسے اقتدار تک پہنچانے کا پریشر بھی ہے۔کانگریس کی عمر 130 سال سے زیادہ ہے اوراس نے ملک پر سب سے زیادہ راج کیا ہے۔ کانگریس نے کچھ اچھے کام کئے ہیں تو بہت سی غلطیاں بھی کی ہیں اور انھیں سے اکتاکر عوام نے اسے اقتدار سے بے دخل کیا ہے۔حالانکہ کانگریس کا زیادہ کمزور ہونا صحت مند جمہوریت کے لئے اچھا شگون نہیں ہے ۔ وہ اقتدار میں نہ بھی ہوتو بھی ملک کو ایک مضبوط اپوزیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب تک ایسا لگ رہا تھا کہ وہ خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس ،انتخابات ہی نہیں ہاری، ہمت بھی ہار گئی تھی مگر گجرات اسمبلی انتخابات کے بعد ایسا لگتا ہے راہل گاندھی کی قیادت میں اسے نئی زندگی مل سکتی ہے۔ گجرات میں اگرچہ اب بھی بی جے پی کا اقتدار باقی ہے مگر یہاں سے راہل گاندھی نکھر کر سامنے آئے ہیں اور ان کی شخصیت نے بہتوں کو گرویدہ بنایا ہے۔ لالوپرساد یادوان کے وزیراعظم بننے کی پیشین گوئی کر چکے ہیں اور شیوسینا جیسی بھاجپاکی حلیف پارٹی بھی ان کے اندر اب ایک اچھے لیڈر کا عکس دیکھ رہی ہے۔ 
 
کانگریس دوبارہ زندہ ہوگی؟
 
بہت سے سیاسی تجزیہ کار کانگریس کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد بھی زندہ ہونے کی معجزاتی طاقت رکھتی ہے اور اب بھی وہ اسی مرحلے سے گزر رہی ہے۔کانگریس کئی انتخابات میں کراری شکست کے بعد پھر زندہ ہوئی اور اس نے پھر اقتدار حاصل کیا۔ اس کی وجہ سے عام کانگریسیوں کو اب بھی یقین ہے کہ کانگریس ایک دن پھر مرکز کے اقتدار میں لوٹ کر آئے گی لیکن اب کانگریس میں یہ دوبارہ زندہ ہونے والی خصوصیت کم ہوتی جا رہی ہے۔1981، 1991 اور 2004-2014 میں کانگریس اقتدار میں لوٹ کر آئی لیکن ہر بار اس کی طاقت کم ہوتی گئی۔ 1984 -89 میں اس کی طاقت لوک سبھا میں 415 تھی جو 1991 میں کم ہو کر 244 سیٹوں تک محدودرہ گئی۔ اس کے بعد جب وہ 2004 میں اقتدار میں واپس آئی تو اس کی طاقت 206 رہ گئی تھی جو 2014 کے انتخابات میں 44ہو گئی۔ ایسے میں کانگریس کی پھر سے اقتدار میں واپسی ناممکن لگتی ہے مگر جیسے جیسے وزیراعظم مودی کے تعلق سے عوام میں مایوسیاں بڑھتی جارہی ہیں،ویسے ویسے عوام کا رجحان کانگریس کی بڑھ رہا ہے اور اب لوگوں کو لگنے لگا ہے کہ مودی سرکار سے بہتر تو منموہن سرکار ہی تھی۔ 
 
کانگریس کی واپسی ہوسکتی ہے؟
 
2018میں جن آٹھ ریاستوں میں انتخابات ہیں، ان میںراجستھان، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور کرناٹک شامل ہیں۔ کرناٹک میں کانگریس کی سرکار ہے جسے بچانا راہل گاندھی کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے، وہیں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کی سرکاریں ہیں جن کے خلاف عوام کے ایک طبقے کی ناراضگی ہے۔ چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں طویل مدت سے بی جے پی کی حکومت ہے لہٰذا عوام کی سرکار کے تئیں بیزاری فطری ہے۔ان ریاستوں میں کانگریس کے علاوہ کوئی دوسری پارٹی بھی مقابلے پر نہیں ہے، ایسے میں کانگریس کو فائدہ ملنا لازمی ہے۔ کانگریس قیادت کوچاہئے کہ اس موقع کا صحیح فائدہ اٹھائے۔مقامی قیادت کو سامنے کرے اور باشعور طریقے سے حکمت عملی تیار کرے۔ راہل گاندھی نے جس طرح گجرات میں الیکشن لڑا وہ ان کی بالغ نظری کو ظاہر کرتا ہے اور کانگریس کے تئیں عوام میں اچھا پیغام گیا ہے۔ اس لئے اگلے چند مہینوں میں جن ریاستوں میں انتخابات ہیں، وہاں اس کا فائدہ کانگریس کو مل سکتا ہے۔
 علاقائی پارٹیاں کانگریس کے لئے مفید یا مضر؟
 
کانگریس کی راہ میں اس وقت بڑی رکاوٹ بی جے پی ہے مگر اسی کے ساتھ علاقائی پارٹیاں بھی اس کی کمزوری کے لئے ذمہ دار ہیں۔ ویسے فی الحال علاقائی پارٹیوں سے کانگریس کو نقصان نہیں بلکہ نفع ہوگا کیونکہ تمام پارٹیوں کی مشترکہ دشمن بی جے پی ہے۔اس وقت سب کے سامنے اسی سے مل کر لڑنے کا چیلنج ہے۔اکیلے اکیلے لڑنے سے بی جے پی مخالف ووٹ تقسیم ہوگا اور بی جے پی کو جتاجائے گا مگرمتحدہ طور پر لڑکر بی جے پی کو ہرایا جاسکتا ہے۔ اصل میں ملک میں علاقائی پارٹیوں کی بھی خاص اہمیت ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اگرچہ کانگریس کو شکست کا سامنا کرنا پڑ رہاہے مگر کئی جگہ علاقائی پارٹیوں کی جگہ علاقائی پارٹیاں ہی لے رہی ہیں۔مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیاں ہیں تو بہار میں نتیش کمار اور لالو پرساد کی پارٹیاں ہیں۔ اڈیشہ میں جہاں نوین پٹنائک کی بیجو جنتادل ہے وہیں تمل ناڈو میں جے للیتا کی اے ڈی ایم کے اور کرونانیدھی کی ڈی ایم کے ہیں۔ اترپردیش میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی ہیں تو سیماندھرا میں تیلگو دشیم اور تلنگانہ میں ٹی ڈی ایس ہے مگر ان پارٹیوں کی مجبوری یہ ہے کہ یہ ایک ساتھ ایک پلیٹ فارم پر نہیں آسکتیں کیونکہ ان کے سیاسی مفاد ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر ایک پارٹی کسی اتحاد میں شامل ہوگی تو دوسری بھاجپا کے ساتھ چلی جائے گی۔ ان پارٹیوں کا کوئی محور نہیں ہے۔ اس طرح سے یہ پارٹیاں کہیں بھاجپا کے لئے مفید ثابت ہونگی تو کہیں کانگریس کو فائدہ پہنچائینگی۔
 
کانگریس کے بارے میں تجزیہ کاروں کی ایک اور رائے رہی ہے کہ جب بھی دبے کچلے طبقے میں عوامی مقبولیت والی کوئی سیاسی پارٹی ابھرتی ہے تو کانگریس کے مینڈیٹ میں نقب لگتا ہے۔ یہ روایت منڈل اور بی ایس پی سے شروع ہونے بعد اوڈیشا میں نوین پٹنائک، مغربی بنگال میں ممتا بنرجی، آندھرا-تلنگانہ میں جگموہن ریڈی اور چندر شیکھر راؤ یا حال ہی میں دہلی میں عام آدمی پارٹی کے اروند کیجریوال تک جاری ہے۔ بی جے پی کو 1991 کے انتخابات میں 20.11 فیصد ووٹ ملے تھے جو 2014 میں 31.1 فیصد ہو گئے۔ علاقائی جماعتوں کا فیصد 1991 میں 39.44 فیصد تھا، جو 2014 میں 46.6 فیصد ہو گیا، جبکہ کانگریس کے فیصد میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔اس کا فیصد 1991 میں 36.26 تھا۔ وہ 2014 میں 19.3 فیصد رہ گیا۔ اس طرح بی جے پی اور علاقائی پارٹیاں کانگریس کی قیمت پر آگے بڑھیں۔
 
نہرو فیملی اورکانگریس
 
کانگریس ،نہروفیملی کے بغیرادھوری ہے؟ کیا اس خاندان کے بغیراسے کامیابی نہیں مل سکتی؟ یہ سوالات اکثر کانگریس کے سامنے آتے رہے ہیں۔ماضی کی تاریخ پرنظر ڈالیں تو یہ پارٹی اس خاندان کے بغیر کم ہی اقتدار میں آئی ہے۔ سونیا گاندھی نے جب پارٹی کی قیادت سنبھالی تو پارٹی اقتدار سے باہر تھی مگر انھوں نے اسے اقتدار تک پہنچایا اور دس سال تک پارٹی نے راج کیا۔اب راہل گاندھی کے ہاتھوں میں پارٹی کی کمان ہے۔ کانگریس کے پاس ترپ کا ایک پتہ پرینکا گاندھی کی شکل میں بھی موجود ہے جسے اب تک آزمایا نہیں گیا ہے۔ کانگریسیوں کی طرف سے بار بار مطالبہ اٹھتا رہا ہے کہ اندرا گاندھی کی پوتی کو سیاست میں لایا جائے مگر اب تک اس معاملے میں غور نہیں کیا گیا۔ گزشتہ دنوں جب سونیا گاندھی نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو خبر آئی کہ رائے بریلی سے اب پرینکا الیکشن لڑینگی مگر انھوں نے فوراً ہی اس کی تردید کی اور کہا کہ سونیا گاندھی ہی آئندہ بھی یہاں سے لوک سبھا الیکشن میں مقابلہ کریںگی۔ویسے بھی پرینکا ابھی بند مٹھی ہیں، جب تک مٹھی بند ہے، تب تک لاکھ کی کھلتے ہی خاک ہو جائیگی۔ اگر وہ سیاست میں آئیں تو کیا چمتکار کریںگی؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اسی کے ساتھ یہ خبر بھی بیچ بیچ میں اڑتی رہی ہے کہ سنجے گاندھی کے بیٹے اور راہل گاندھی کے چچازاد بھائی ورون گاندھی کو کانگریس میں لانے کی بات چل رہی ہے کیونکہ ورون بی جے پی کے اندر اپنے رول سے خوش نہیں ہیں جب کہ کانگریس کو مزید گاندھیوں کی ضرورت ہے۔  حالانکہ راہل کے وفاداروں کو اندیشہ ہے کہ ورون گاندھی کہیں پارٹی میں زیادہ تیز نہ نکل جائیں اور مستقبل میں راہل کے لئے ہی خطرہ نہ بن جائیں۔ ماضی میں ایسی خبریں آتی رہی ہیں کہ پرینکا گاندھی نے ورون گاندھی سے ملاقات کی تھی اور ان دونوں بھائی، بہن میں خون کی محبت ایک بار پھر جوش پر ہے۔ حالانکہ ورون گاندھی اس قسم کی اٹکلوں کو خارج کر رہے ہیں مگر سونیااور منیکا گاندھی کے اتحاد سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں کو اپنی بیٹوں کے مستقبل کی فکر ہے اور جہاں سونیا گاندھی کو یہ فکر لاحق ہے کہ کانگریس کاایک بار پھر احیاء ہواور راہل گاندھی ملک کی باگ ڈرو سنبھالیں، وہیں مینکا گاندھی بھی چاہتی ہیں کہ ورون سیاست میں آگے بڑھیں اور اپنے والد سنجے گاندھی کا مقام حاصل کریں۔ ایسے میں ورون گاندھی کے کانگریس میں لوٹنے کی اٹکل معمولی نہیں ہے۔ اصل میںورون گاندھی کو یہ بات بالکل پسند نہیں کہ انھیں سردخانے میں ڈال دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ وہ بے حد تیز طرار ہیں اور تیزی سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments


Login

You are Visitor Number : 402