donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Congress Me Ayegi Jaan, Rahul Sanbhalenge Party Ki Kaman


 کانگریس میں آئے گی جان،راہل سنبھالینگے پارٹی کی کمان؟


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


    پارلیمنٹ کے اندر ان دنوں راہل گاندھی متحرک نظر آرہے ہیں اورمودی سرکار کو گھیرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ اس کا سبب کیا ہے؟ کیا انھیں اب پارٹی کی کمان ملنے والی ہے؟ کیا ا ب وہ پارٹی کی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے اور سونیا گاندھی ریٹائرمنٹ لے لیںگی؟ کیا ہندوستان کی سب سے پرانی سیاسی پارٹی میں ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے؟ کیا راہل گاندھی پارٹی کی صدارت سنبھالنے کے لائق ہوچکے ہیں؟ کیا بہار انتخابات میں مہاگٹھبندھن کی جیت کے بعد مناسب وقت آچکا ہے جب راہل کی تاجپوشی کردی جائے؟ ان سوالوں پر اک بار پھر چرچا گرم ہے اور سیاسی گلیاروں میں اس پر بحث تیز ہوچکی ہے۔ گزشتہ لوک سبھا الیکشن کے قبل سے ہی کانگریس مسلسل شکست کھارہی تھی اور اس کے ہاتھ سے مرکز کے ساتھ ساتھ کئی صوبائی اسمبلیاں بھی نکل چکی تھیں مگر اب بہار سے اسے مثبت خبری ملی ہے، جہاں مہا گٹھبندھن میں شامل کانگریس کوجیت حاصل ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اس کے لئے خوشی کا موقع ہے۔ کانگریس کے لوگ بہار میں مہاگٹھبندھن کی جیت کے لئے راہل گاندھی کی پیٹھ تھپتھپاتے نہیں تھک رہے ہیں۔ حالانکہ پوراملک دیکھ رہاہے کہ راہل کا بہار کی جیت میں کیا کردار رہاہے۔ بہرحال کانگریس میں اندرون خانہ تیاری شروع ہوچکی ہے اور امید کی جارہی ہے کہ عنقریب راہل کو پارٹی کی کمان دے دی جائیگی۔ گزشتہ دنوں راہل اسی بات کے لئے ناراض بھی تھے کہ انھیں آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں دیا جارہاہے۔ پارٹی کے اندر کئی طاقت کے مراکز بن چکے ہیں اور ہر جگہ سے ایک الگ آرڈر دے دیا جاتا ہے۔ اس ناراضگی کے سبب ہی وہ بیرون ملک طویل چھٹی پر نکل گئے تھے۔ انھیں کسی طرح سمجھا بجھا کر واپس لایا گیا تھا۔ حالانکہ پارٹی کے اندر اور باہر ایک طبقہ اب بھی مانتا ہے کہ ان کے اندر قائدانہ سوجھ بوجھ کی کمی ہے اور شعور پختہ نہیں ہوا ہے،ایسے میں پارٹی کو سنبھال پانا ان کے لئے آسان نہ ہوگا مگر اسی کے ساتھ پارٹی کے اندر ایک طبقہ مانتا ہے کہ سونیا گاندھی کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اور ایسے میں راہل کے ہاتھ میں کمان دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔       

راہل کی تاجپوشی کے لئے سازگار ماحول

    بہار اسمبلی انتخابات میں تاریخی جیت نے کانگریس کو سنجیونی دی ہے اور نئے ماحول میں کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کی صدر کے عہدے پر جلد تاجپوشی کا امکان بڑھ گیا ہے۔ راہل گاندھی کو صدر بنائے جانے کی بحث طویل عرصے سے چل رہی ہے۔ انتخابات میں کانگریس کی لچر کارکردگی کی وجہ سے یہ ٹلتا رہا ہے۔ پارٹی کو ایک ایسے وقت کا انتظارتھا جب مثبت ماحول میں انھیں پارٹی صدر بنایا جائے۔اب مانا جا رہا ہے کہ بہار میں مہاگٹھبدھن نے جیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ، اس میں کانگریس کی شرکت سے راہل گاندھی کی تاجپوشی کے لئے بہتر ماحول تیار ہو گیا ہے۔ بہار کے نتائج سے بی جے پی کو تگڑا جھٹکا لگا ہے اور کانگریس اعتماد سے بھر گئی ہے۔جیت کے بعد یہ اعتماد راہل گاندھی کے چہرے پر بھی دکھائی دینے لگا ہے۔راہل نے میڈیا سے بات چیت میں بہت ہی سلجھے ہوئے انداز میں کہا کہ ’’بہار میں بی جے پی کی شکست وزیر اعظم کے لئے پیغام ہے۔ پورے ملک میں یہ پیغام گونج رہا ہے۔ انہیں اچھی طرح سن لینا چاہئے۔ اس ملک کو مودی، آر ایس ایس اور بی جے پی بانٹ نہیں سکتیں۔ ہندو کو مسلمان سے لڑا کر الیکشن نہیں جیتا جا سکتا۔ یہ ملک سب کا ہے۔‘‘

بہار سے آگے

     ان دنوں راہل کے اندر جو خود اعتمادی نظر آرہی ہے اس کے پیش نظر کانگریس کے سینئر رہنماؤں کا خیال ہے کہ راہل گاندھی کی تاجپوشی فوری طور پر ہونی چاہئے۔ پارٹی کے لوگوں کا ماننا ہے کہ راہل گاندھی کو صدر بنانے میں ہو رہی دیر سے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے کام کاج میں جمود آیا ہے۔ یہ کام جلدی ہوا تو راہل گاندھی تنظیم کو مضبوط کرنے کی اپنی اسکیم پر عمل کر پائیں گے۔واضح ہوکہ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے لوک سبھا انتخابات میں شکست کے بعد بہار میں نتیش کمار کے ساتھ اتحاد کی پرزور وکالت کی تھی۔ راہل کے نتیش کے ساتھ جانے کی ضد کی وجہ سے آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو کو بھی نتیش کو وزیر اعلی امیدوار کے طور پر قبول کرناپڑا تھا۔حالانکہ ماضی میں کانگریس علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کے بجائے تنہا الیکشن لڑنے میں یقین رکھتی تھی مگر لوک سبھا انتخابات میں کراری شکست کے بعد اس کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور وہ آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بھی بہار جیسا مہاگٹھبندھن بنانے کی سوچ رہی ہے۔یہ راہل کے اندر آئی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔بہار میں کانگریس کے پاس محض چار سیٹیں تھیں مگر اب وہ ۲۷سیٹیں جیت چکی ہے۔ کانگریس نے بہار انتخابات کو اپنی ساکھ سے جوڑ کر لڑا۔ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کے الزامات کا سختی سے جواب دیاتھا۔ سونیا نے پانچ اور راہل نے 13 ریلیاںکیں۔یہ ریلیاں ان جگہوں پر کی گئیں جہاں پر مودی نے بھی ریلیاں کیں۔ کانگریس صدر اور نائب صدر نے مہنگائی، وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں اور کسان مزدوروں کے معاملے پر مودی اور بی جے پی کو نشانے پر رکھاتھا۔

کانگریس کیا کہتی ہے؟

     بہار میں مہاگٹھبندھن کی فیصلہ کن فتح کے بعد کانگریس کارکنوں میں یہ احساس پایا جا رہا ہے کہ راہل گاندھی فوری طور پر پارٹی کی کمان سنبھال لیں۔ سابق وزیر اور کانگریس ترجمان پی سی جوشی نے کہا، مہاگٹھبندھن کی جیت میں راہل گاندھی جی نے جس طرح محرک کا کردار ادا کیا ہے، اس سے پارٹی کارکنوں میں جوش بڑھا ہے۔ کارکنوں میں یہ احساس اور خواہش پائی جا رہی ہے کہ راہل گاندھی فوری طور پر صدر کے عہدے کی ذمہ داری سنبھال لیں۔جوشی نے اشارہ دیا کہ کانگریس بہار میں حکومت کا حصہ بنے گی۔انہوں نے کہا، جب ہم کہتے ہیں کہ ہم نے بہار کے عوام سے وعدہ کیا ہے، تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سات نکاتی پروگرام پر عمل کریں۔ ایسے میں قدرتی ہے کہ ہم تمام امکانات پر غور کریں۔دیگر ریاستوں میں اتحاد کے معاملے پر جوشی نے کہا، یہ متعلقہ ریاست میں پارٹی کی تنظیمی صورتحال اور سیاسی چیلنجوں پر انحصار کرے گا۔

    بہار میں مہاگٹھبندھن کی جیت کانگریس کے لئے بے حد اہم ہے۔ یہاں اس کے پاس پہلے صر ف چار سیٹیں تھیں جو اب بڑھ کر ۲۶تک پہنچ چکی ہیں۔ وہ بہار جہاں کانگریس نے ایک طویل مدت تک راج کیا ہے اور پھر اس نے اپنی زمین کھودی۔ ایسے میں اس قدر سیٹیں پانا اس کے لئے بڑی بات ہے۔ مہاگٹھبندھن میں شامل کانگریس کو ۴۱سیٹوں پر لڑنے کا موقع ملا تھا۔اب کانگریس اتحاد کے اسی فارمولے کو آزمانے کی آگے بھی سوچ رہی ہے۔ راہل گاندھی پہلے تنہا چلنے کی وکالت کیا کرتے تھے مگرپارٹی کو مسلسل مل رہی شکست کے بعد ان کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور وہ دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر چنائو لڑنے کی بات سوچنے لگے ہیں۔ انھیں احساس ہوچلا ہے کہ سیکولر پارٹیوں کے الگ الگ لڑنے کے سبب ہی بی جے پی کو جیت ملتی ہے۔ اب بہارنے اتحاد کے فائدے کو سمجھا دیا ہے۔اب اگلے چند مہینوں کے اندر پانچ ریاستوں میںاسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں جن میں اتحاد کے امکان کی تلاش کانگریس نے شروع کردی ہے۔جن ریاستوں میں انتخابات ہونے میں ہیں ان میںآسام، مغربی بنگال ، کیرل اور تمل ناڈو شامل ہیں۔ بہار اور مغربی بنگال دونوں پڑوسی ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ راہل گاندھی یہاں فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ کانگریس کے اندر ان دنوں جس طرح کی تیاریاں چل رہی ہیں انھیں دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ان انتخابات سے قبل ہی راہل کو پارٹی کی کمان دے دی جائے گی اور انھیں نائب صدر سے صدر بنادیا جائے گا۔

اب نہیں تو کب؟

    راہل گاندھی کی عمر ۴۵سال ہے اور ان سے کانگریس توقع رکھتی ہے کہ وہ سب سے پرانی پارٹی کی باگ ڈور سنبھال لیں۔ وہ جس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں،اس کے افراد کانگریس کی قیادت کرتے رہے ہیں، اس لئے یہ طے مانا جاتا رہاہے کہ وہ کانگریس کے صدر بنیں مگر اب تک ان کی طرف سے جس طرح غیر سنجیدہ معاملے سرزد ہوتے رہے ہیں انھیں دیکھتے ہوئے پارٹی کے اندر بھی انھیں ذمہ داریاں سونپنے میں ہچکچاہٹ محسوس کی جاتی رہی ہے۔ کانگریس کے اندر بزرگ نیتائوں کی اب تک یہی رائے ہے کہ راہل گاندھی کا شعور پختہ نہیں ہوپایا ہے اور اب بھی وہ اس لائق نہیں ہوئے ہیں کہ پارٹی کی ذمہ داریاں پوری طرح سنبھال سکیں، لہٰذا انھیں بڑے فیصلوں کا اختیار دینا مناسب نہیں ہوگا۔ حالانکہ ایک طبقہ مانتا ہے کہ راہل کو پارٹی کی کمان دیدینی چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ وہ کس طرح اپنی ذمہ داریاں اداکرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ پارٹی کے اندر ایک طبقہ مانتا ہے کہ راہل کے بجائے پرینکا گاندھی کو سامنے لانا چاہئے۔ راہل پر بھروسہ کرنا ہلاکت خیز بھی ہوسکتا ہے جب کہ پرینکا گاندھی زیادہ باشعور ہیں اور وہ اہم فیصلے لے سکتی ہیں۔ حالانکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ابھی پرینکا کو سامنے نہیں لانا چاہئے۔ وہ کانگریس کے ترکش کا آخری تیر ہیں۔ ایسے میں مستقبل قریب میں راہل کی تاجپوشی تقریباً طے مانی جارہی ہے۔   

۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 448