donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Jameat Ulmaye Hind Ka Ittehad Musalmno Ke Liye Kitna Fayede Mand


جمعیۃ علماء ہند کا اتحاد


 مسلمانوں کے لئے کتنا فائدہ مند؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


     جمعیۃ علماء ہند کے دونوں گروپ متحد ہوجائینگے؟ کیا اس قدیم جماعت پر قبضہ کی جنگ اب اختتام کو پہنچ جائے گی؟کیا چچا مولانا ارشد مدنی  اور بھتیجا مولانا محمود مدنی کے درمیان جاری رسہ کشی کا اب خاتمہ ہونے والا ہے؟ اتفاق سے ان سوالوں کا جواب ’’ہاں‘‘ میں مل رہا ہے۔ چند دن قبل تک کہا جاتا تھا کہ بھارت۔پاکستان کا اتحاد ممکن ہے، سائوتھ کوریا اور ناتھ کوریا کا جھگڑا ختم ہوسکتا ہے، سعودی عرب اور ایران کے تنازعے کا اختتام ہوسکتا ہے مگر جمعیۃ علماء ہند کے دونوں گروپوں کا اتحاد نہیں ہوسکتا مگر اب یہ ممکن لگنے لگا ہے۔ اس سلسلے میں دونوں گروہوں کی جانب سے سپریم کورٹ میں تحریری جواب داخل کیا جاچکا ہے۔ جنگ آزادی میں ریشمی رومال تحریک کے ذریعے اہم کردار نبھانے والی دیوبندی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم جمعیت علمائے ہند کے دونوں دھڑوں نے ہاتھ ملانے کی پہل کر دی ہے۔ آٹھ سال پہلے الگ ہوئے چچا مولاناارشد مدنی اور بھتیجے مولانامحمود مدنی (سابق ایم پی) نے اس بابت قدم آگے بڑھا دیئے ہیں اور یہ ممکن ہوا ہے کورٹ کے جھٹکے کے بعد۔ ذرائع کی مانیں تو دونوں دھڑوں کے درمیان کئی خاص نکات پر سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے جمعیت کے اتحاد کی خبر سے مسلمانوں کے حلقوں میں خوشی کی لہر ہے۔ سال 2007 میں کرناٹک اور آندھرا پردیش کی جمعیت کو تحلیل کرنے کی وجہ سے چچا مولانا ارشد مدنی اور بھتیجے مولانا محمود مدنی کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی تھی۔ اس کے بعد چچا بھتیجے کے درمیان بالادستی کی جنگ چھڑی اور جمعیت دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ معاملہ عدالت میں جا پہنچا۔ ایک پر مولانا ارشد مدنی نے قبضہ کیاتو دوسرے گروپ کی کمان مولانا محمود مدنی نے سنبھال لی۔ مولاناارشد مدنی کو ایک گروہ کا قومی صدر بنایا گیا، جبکہ مولانا محمود مدنی نے قاری عثمان منصورپوری کو اپنے گروہ کا صدر بنایا اور خود جنرل سکریٹری رہے۔ اس کے بعد چچا اور بھتیجے کی راہ جدا ہو گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ چند ماہ قبل سپریم کورٹ نے دونوں دھڑوں کو سمجھوتہ نہ ہونے پر کسی دوسرے کو جمعیت کی کمان سونپے جانے کی بات کہی تھی۔ اس کے بعد سے ہی دونوں دھڑوں میں بے چینی پھیل گئی اور احساس ہونے لگاکہ دوبلیوں کی لڑائی میں روٹی کہیں بندر کے ہاتھ نہ لگ جائے لہٰذا دونوں کے درمیان بات چیت شروع ہوئی اور نتیجہ کے طور پر اتحاد کا راستہ اپنایا گیا۔ گزشتہ سال 22 جولائی اور 29 اگست کو دونوں دھڑوں کے درمیان اس معاملے پر بات چیت کا طویل دور چلا۔ آخر کار مذاکرات کا یہ سلسلہ رنگ لایا۔ذرائع کے مطابق گزشتہ دنوں دونوںدھڑوں کے درمیان عدالت میں چل رہے کیس کو واپس لئے جانے اور دہلی واقع جمعیت کے دفترکو مشترکہ طور پر استعمال کرنے کو لے کر سمجھوتہ ہوچکا ہے۔

 جب ناممکن، ممکن ہوگیا!

    جمعیۃ کے ہمدردوں کو اس وقت انتہائی خوشی کا احساس ہوا جب کہ پچھلے دنوں دونوں گروپ کے علماء اور ذمہ دارایک ساتھ اسٹیج پر نظر آئے۔ خبروں کے مطابق گزشتہ دنوںمیرٹھ میں جمعیت کے ایک پروگرام میں دونوں صدر (صدر) مولانا ارشد مدنی اور قاری محمد عثمان منصورپوری کے درمیان خوشگوار ملاقات ہوئی ۔ اس موقع پر مولانا محمود مدنی بھی موجود تھے۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اس ملاقات نے بتا دیا کہ اب دونوں دھڑے اتحاد کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ طویل عرصے سے چل رہا جھگڑا ختم ہونے والاہے۔ اس سلسلے میں محمود مدنی گروپ کی جمعیت کے ترجمان عبد الحمید نعمانی کا بیان میڈیا میںآیا کہ دونوں فریقوں نے عدالت میں سمجھوتہ لکھ کر دے دیاہے، جس کی وجہ سے جمعیت کو لے کر چل رہی قانونی جنگ ختم ہو گئی ہے۔ ان کے مطابق ایک دوسرے کو تسلیم کر لینے پر ہی دونوں کے درمیان معاہدہ ہوا ہے۔ واضح ہوکہ ابھی تک مولانا ارشد مدنی اور قاری عثمان منصورپوری دونوں ہی صدر ہیں مگر جلد ہی کسی ایک کے صدر بننے پر مہر لگے گی۔ جمعیت علمائے ہند کے دونوں دھڑوں کے درمیان کن نکات پر سمجھوتہ ہو پایا ہے، یہ بات ابھی واضح نہیں ہے مگر سب سے اہم ایشو یہی ہے کہ کس عہدے پر کون فائز ہوگا؟کیا چچا ،بھتیجادونوں ہی اپنے اپنے عہدے چھوڑ دینگے اور کسی تیسرے شخص کو اختیارات تفویض کریںگے یا ان میں سے کوئی ایک صدر اور دوسرا جنرل سکریٹری بنے گا؟ یہ سوال بے حد اہم ہے۔ذرائع کے مطابق ان معاملات پر بحث جاری ہے۔ حالانکہ بعض جانکاروں کا ماننا ہے کہ دونوں کے بیچ کی قانونی جنگ اصل میں نوراکشتی تھی۔ اصل مقصد تھا قانونی طور پر یہ طے کرنا کہ جمعیۃ علماء ہند پر ان ہی کے خاندان کی اجارہ داری ہے اور یہ کوئی عام مسلمانوں کی جماعت نہیں ہے۔ اس سمجھوتے کے بعد کوئی بھی تیسرا شخص یہ دعویٰ نہیں کرپائے گا کہ وہ اس تنظیم کا صدر بن سکتا ہے۔ حالانکہ اس کی ابتدا مسلمانوں کی ایک تنظیم کے طور پر ہوئی تھی اور ابتدا میں اس سے بڑے بڑے علماء جڑے تھے۔ مولانا عبدالوحید صدیقی بھی ایک مدت تک اس جماعت سے وابستہ رہے اور سیاسی لائن سے اوپر اٹھ کر مسلمانوں اور سماج کے پسماندہ طبقات کی آواز اٹھاتے رہے مگر اب جمعیۃ پر ایک مدنی خاندان کی اجارہ داری ہے۔مولانا ارشد مدنی اور محمودمدنی کی مرضی کے بغیر یہاں پتہ نہیں ہل سکتا۔خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد ہی مسلمانوں نے جمہوریت چھوڑ دی تھی۔ دنیا کے مسلم ملکوں میں بھی کم ہی جمہوریت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایسے میں اگر جمعیۃ بھی ایک خاندان کی پرائیویٹ کمپنی بن گئی ہے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ البتہ اس کے باجود اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ آج بھی سرگرم ہے اور مسلمانوں کے ایشوز پر موثر آواز اٹھاتی ہے۔

 جمعیت علماء ہند کی مختصر تاریخ

    جمعیت علمائے ہند 1919 میں قائم ہوئی۔ اس کے قیام اور تنظیم میں جن علماء دیوبند کی کوششیں شامل تھیں ان میں شیخ الہندمولانامحمود حسن،مولانا سید حسین احمد مدنی،مولانا احمد سعید دہلوی،مفتی محمد نعیم لدھیانوی، مولانا احمد علی لاہوری،مولانا بشیر احمد بھٹ،مولانا سید گل بادشاہ، مولاناحفظ الرحمٰن سیوہاروی اور مولاناعبدالباری فرنگی محلی شامل ہیں۔ مولانا کفایت اللہ صاحب، جمعیت کے پہلے صدر بنے۔سال 1960 میں مولانا اسد مدنی (مرحوم)نے جمعیت کی صدارت سنبھالی اور آخری وقت تک وہی صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ اس بیچ یہ مان لیا گیا کہ جمعیت پر ایک خاندان کی اجارہ داری قائم ہوچکی ہے مگر اسی کے ساتھ مولانا اسد مدنی نے اس کی تنظیم پر بھی خوب کام کیا اورملک کے تمام دیوبندی مدرسوں کو جمعیت سے جوڑنے کی کوشش کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تنظیمی لحاظ سے یہ مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ برصغیر میںاسلامی تعلیم کے سب سے بڑے مرکزدارالعلوم دیوبندسے ان کے تعلق کے سبب یہاں کے فارغین کی مولانا کی شخصیت اور جمعیۃ دونوں سے خاص عقیدت رہی جس نے اس تنظیم کو پھیلانے میں بڑا کردار نبھایا۔اس وقت اترپردیش کے علاوہ مغربی بنگال، آسام، مہاراشٹر وغیرہ صوبوں میں اس کے ممبران اور متفقین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ تنظیم اور اثر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ملک کے مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت کہی جاسکتی ہے۔ جمعیۃ کا ملک کی سیاست سے گہرا تعلق رہاہے اور مسلمانوں کو منظم کرنے کے لئے بھی اس نے بڑا کام کیا ہے۔ تاہم اس جماعت پر کانگریس کے لئے کام کرنے کا الزام بھی لگتا رہاہے۔ جنگ آزادی میں اس اہم نے کردار نبھایا اورانڈین نیشنل کانگریس کے شانہ بشانہ تحریک میں شامل رہی۔ تقسیم ملک کی اس تنظیم نے مخالفت کی تھی۔ آزادی کے بعدبھی اس نے ملی وملکی مسائل پر اپنی اہمیت منوانے کی کوشش کی۔ کانگریس کی سیاست میں دیوبند کی اہمیت ہمیشہ ہی رہی ہے۔ سال 1980 سے پہلے تک کانگریس ملک بھر کے مسلمانوں کے درمیان اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لئے جمعیت علمائے ہند کے تب کے صدر مرحوم مولانااسد مدنی کو راجیہ سبھا بھیجتی رہی تھی۔تاہم قومی لوک دل نے بھی کانگریس کی راہ پر چل کر ان کے بیٹے مولانامحمود مدنی کو راجیہ سبھا بھیجا۔ اس کا مقصد مغربی اترپردیش میں جمعیۃ کے اثرات سے فائدہ اٹھانا بھی تھا۔حالانکہ جمعیۃ سے ہی تعلق رکھنے والے مولانابدرالدین اجمل ان دنوں آسام میں اپنی الگ پارٹی بناچکے ہیں جس کے تین ممبران پارلیمنٹ میں سے ایک خود مولانا بھی ہیں۔ اسی کے ساتھ یہاں کی اسمبلی میں بھی ان کی پارٹی اے آئی یوڈی ایف کے ارکان خاصی تعداد میں ہیں۔ دوسری طرف مغربی بنگال میں بھی یہ پارٹی قدم رکھ چکی ہے اور یہاں بھی اس کے ذمہ دار وہی حضرات ہیں جو جمعیۃ کے ذمہ دار ہیں۔ جمعیۃ میں مسلمان مرد سرگرم رہے ہیں مگر خواتین کی سرگرمی کبھی نہیں دیکھی گئی۔

جمعیۃ کے قابل تحسین اقدام

    جمعیۃ علماء ہند کے دونوں گروہوں میں اتفاق واتحاد کی خبر سے صرف جمعیۃ کے حلقے ہی خوش نہیں ہیں بلکہ عام مسلمانوں میں بھی خوشی کی لہر ہے۔ اپنی کچھ کمیوں کے باجود یہ تنظیم مسلمانوں کی سب سے متحرک تنظیم رہی ہے۔ مسلمانوں کے مسائل پر ہمیشہ اس نے آواز بلند کی ہے اور ان کی سیاست میں حصہ داری کے لئے جدوجہد کرتی رہی ہے۔ ملک میں آئے دن ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اور آسمانی آفتوں کے بعد آئی تباہیوں کے بعد جمعیۃ نے بازآبادکاری کے لئے بے مثال کام کیاہے۔ بھاگلپور، میرٹھ سے لے کر حالیہ مظفرنگر فسادات کے متاثرین کی مدد میں اس کی کوششیں قابل تحسین رہی ہیں۔ اسی طرح مہاراشٹر اور گجرات کے زلزلوں سے لے کر نیپال کے حالیہ زلزلوں تک متاثرین کی امداد میں جمعیۃ پیش پیش رہی ہے۔ ان دنوں بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے مقدموں میں پھنسانا عام بات ہے جس پر مسلمانوں کی طرف سے ہائے توبہ مچانے کے سوا کچھ نہیں کیا جارہاہے مگر جمعیۃ نے اس سلسلے میں اصل کام کیا اور ملک بھر کے ماہرین قانون کی مدد سے کروڑوں روپئے خرچ کرکے بے گناہوں کا قانونی دفاع کیا۔ جمعیۃ کی کوششوں سے ایسے لوگوں کو بھی رہائی نصیب ہوئی جنھیں پھانسی کی سزا سنائی جاچکی تھی۔اس کے لئے عموماً فرقہ پرستوں کی طرف سے اسے دھمکیاں بھی ملتی رہی ہیں مگر اس نے ان گیدڑ بھبکیوں کی پرواہ کئے بغیر اپنی ذمہ داری نبھائی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 568