donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Bharat Pakistan Aur Bangla Desh Me Inzemam Mumkin Hai


آریس ایس کے دل کی بات زبان پر آگئی


کیا بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کا انضمام ممکن ہے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    بھارت،پاکستان اور بنگلہ دیش ایک متحدہ ہندوستان میں ضم ہوسکتے ہیں؟ کیا ستر سال قبل جو اکھنڈ بھارت تھا،ایک بار پھر وجود میں آسکتا ہے؟ تینوں ممالک کے اتحاد کی بات کرنا رشتوں کو مضبوط کرنا ہے یا ان کے بیچ شک وشبہے کو جنم دینے کی کوشش ہے؟ بی جے پی جنرل سکریٹری اور آرایس ایس کے لیڈر رام مادھو کا ’’اکھنڈ بھارت‘‘ والا بیان پاکستان کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کی کوشش تو نہیں؟ کہیں رام مادھو ،وزیراعظم نریندر مودی کے دورۂ پاکستان کے اثرات کو کم کرنا تو نہیں چاہتے ہیں؟یہ سوالات اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ حال ہی میں رام مادھو نے تینوں ملکوں کے اتحاد کی بات کی ، جس پر ایسے ردعمل سامنے آئے کہ انھیں اپنے بیان سے پلٹنا پڑا۔ انھوں نے الجزیرہ ٹی وی چینل کو دیئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ایک بار پھر تینوں ممالک ایک ہوسکتے ہیں اور’ اکھنڈ بھارت‘ بن سکتا ہے۔ مادھو نے کہا تھا، آر ایس ایس کو اب بھی لگتا ہے کہ تقریبا ستر سال پہلے یہ حصے جو کچھ تاریخی وجوہات سے الگ ہو گئے تھے، وہ پھر سے خیر سگالی کے ساتھ ایک ہو جائیں گے اور اکھنڈ بھارت کی تعمیر کریں گے۔ اسی کے ساتھ ہی مادھو نے یہ بھی کہا کہ وہ یہ خیال بطور آر ایس ایس رکن ہی دے رہے ہیں۔ انہوں نے صاف کیا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے حاصل کرنے کے لئے ہم کسی ملک کے ساتھ جنگ کریں گے یا اس پر قبضہ کر لیں گے، بغیر کسی جنگ کے باہمی رضامندی سے یہ ممکن ہو سکتا ہے۔حالانکہ اسی سال مادھو نے ایک بیان دیا تھا کہ ہندوستان ایک ’ہندو راشٹر‘ہے، جس کے بارے میں صفائی دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں ایک خاص طرح کی ثقافت اور تہذیب اور ایک خاص طرح کی طرز زندگی پر عمل کیا جاتا ہے۔ ہم اسے’’ ہندو‘‘ کہتے ہیں، کیا آپ کو اس سے کوئی پریشانی ہے؟ بھارت میں ایک ثقافت ہے، ہم سب ایک ہیں، ہم ایک قوم ہیں۔آر ایس ایس کے ’اکھنڈ بھارت‘ کی بات پر مادھو نے جرمنی اور ویتنام کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ایک ساتھ آ سکتے ہیں تو پھر بھارت اور پاکستان کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا، اگر دو جرمنی ایک ہو سکتے ہیں، اگر دو ویتنام ایک ہو سکتے ہیں تو پھر آپ یہ کیوں سوچتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت جیسے دو ملک ایک نہیں ہو سکتے ۔یہ ہو سکتا ہے۔

رام مادھو نے بیان بدلا

    اکھنڈ بھارت والے بیان پر اس قدر ہنگامہ اٹھا کہ بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھو اپنے بیان سے پلٹنے پر مجبور ہوگئے ۔ ان کے بیان سے بی جے پی اور آرایس ایس نے بھی پلہ جھاڑا۔ مادھو نے اپنے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے واپس لے لیا ۔انھوںنے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اکھنڈ بھارت پر ان کا بیان جنوبی ایشیا کے ثقافتی اتحاد پر مبنی تھا۔ ان کا مقصد سرحدوں کا دوبارہ کھینچا جانا نہیں تھا۔ مادھو نے وزیر اعظم کے دورے پر دیے ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کئے جانے پر افسوس ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ’ اکھنڈ بھارت‘ ایک خواب ہے کہ حدود سے قطع نظر تمام ایک طرف سے دوسری طرف آ جا سکیں۔ جہاں تجارت اور امن پھلے پھولے۔ اکھنڈ بھارت کے اس خیال کی کوئی مخالفت نہیں کر سکتا۔

بی جے پی کا ردعمل

    رام مادھو کے بیان پر بی جے پی نے کہا کہ وہ ان کے ذاتی خیالات ہیں اور مودی حکومت اس بارے میں واضح نظریہ رکھتی ہے کہ بھارت اور پاکستان دو خود مختار قومیں ہیں۔ بی جے پی ترجمان ایم جے اکبر نے 1999 میں لاہور سفر کے دوران سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی طرف سے کہے گئے اس جملے کو بار باردہرایا ، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دوخود مختار قومیں ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ جب پارٹی اور حکومت کا نظریہ واضح ہے تو بی جے پی کے ایک اہم جنرل سکریٹری نے ایسا بیان کیوں دیا، اکبر نے کہا، مادھو ایک خاص سوال کا جواب دے رہے تھے۔ انھیں اپنے خیالات رکھنے کا حق ہے لیکن حکومت کے رخ میں کسی طرح کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ ایم جے اکبر نے 1999 میں لاہور میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی طرف سے کی گئی تقریر کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان آزاد ملک کے طور پر مذاکرات کرتے ہیں۔

آرایس ایس کیا سوچتا ہے؟

    آر ایس ایس نے رام مادھو کے’ اکھنڈ بھارت‘ والے بیان سے کنارہ کر لیا ہے۔ رام مادھو کے بیان پر آر ایس ایس نے کہا، ’’اکھنڈ بھارت ‘‘بنانے کا خیال سیاسی نہیں بلکہ ثقافتی ہے۔ انہیں اپنی بات رکھنے کا پورا حق ہے، لیکن بی جے پی اور حکومت یہ اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان دو خود مختار ملک ہیں۔دوسری طرف آر ایس ایس کے جانکار راکیش سنہا نے کہا کہ اکھنڈ بھارت کو لے کر مادھو نے جو بیان دیا، وہ ان کے ذاتی خیالات ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ اکھنڈ بھارت ثقافتی تخیل ہے، نہ کہ سیاسی تصور۔سنہا نے کہا کہ اکھنڈ بھارت تبھی ممکن ہے جب پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام بھارت کے اسلامی اقدار اور ثقافت کو ماننے کو تیار ہوں۔ موجودہ وقت میں یہ ممکن نہیں ہے۔ سنہا نے صاف کیا کہ آر ایس ایس بنگلہ دیش اور پاکستان کو آزاد ملک تسلیم کرتا ہے۔     

کانگریس کی رائے

    کانگریس نے رام مادھو کے بیان کو محض تشہیر قرار دیا ۔ کانگریس کے ترجمان اجے کمار نے کہا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی اپنی ناکامیوں سے لوگوں کی توجہ بھٹکانے کے لئے ملک کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ایک ایونٹ مینجمنٹ کمپنی کی طرح یہ لوگ پروپیگنڈہ میں مصروف ہیں۔ جب کہ سی پی ایم کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری نے کہا کہ اکھنڈ بھارت جیسی بات کے پس منظر اور پاکستانی فنکاروں اور کرکٹ ٹیم کو بھارت کی سرزمین پر اپنا ہنر دکھانے کی اجازت نہیں ملنے جیسی چیزوں کے درمیان ہونے والی سطحی بات چیت سے ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں مضبوطی نہیں آئے گی۔یچوری نے مودی کے لاہور جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ،یہاں بریگیڈ پریڈ گراؤنڈ پر سی پی ایم کی بڑی ریلی میں کہا، وہ (مودی) کہا کرتے تھے کہ ان کے پاس 56 انچ کا سینہ ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم پاکستان سے تب تک بات نہیں کریں گے ،جب تک وہ دہشت گردی نہیں روک دے گا۔ اب مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔ یچوری نے کہا، بات چیت کی ضرورت ہے۔ بات چیت ہونی چاہئے۔ دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط ہونے چاہئیں۔ اس پر ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن آپ ممبئی میں (پاکستانی) غزل گلوکار غلام علی کو نہیں سن سکتے۔ آپ پاکستان کرکٹ ٹیم کو یہاں کھیلنے نہیں دیتے۔ اس طرح کی ہوا-ہوائی بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ انہوں نے اسی تناظر میں بی جے پی جنرل سکریٹری رام مادھو کے اس بیان کا ذکر کیا جس میں انہوں نے باہمی رضامندی سے بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش کو ملا کر اکھنڈ بھارت بنانے کی آر ایس ایس کی بات دہرائی ہے۔

اکھنڈ بھارت کا سپنا

    بھارت،پاکستان اور بنگلہ دیش کا ایک ملک کی شکل میں متحد ہونا ایک خوشنما خواب ہے مگر اس خواب کی کوئی تعبیر نہیں ہے۔ پاکستان کا نظریہ جناح سے بہت پہلے ہندتوادی لیڈروں نے پیش کیا تھا۔ان کی سوچ تھی کہ اگر مسلمانوں کو الگ ملک دے دیا گیا تو باقی بچے ہندوستان پر ہندووں کی حکومت آسان ہوگی۔ بدقسمتی سے۱۹۴۷ء میں ایسے حالات تھے کہ ملک کی تقسیم عمل میں آگئی۔ حالانکہ نیتاجی سبھاش چند بوس جیسے لیڈروں کا نظریہ ہمیشہ سے متحدہ ہندوستان کے حق میں تھا۔ سماج وادی لیڈر رام منوہر لوہیا بھی متحدہ ہندوستان کی حمایت میں رہے ہیں مگر اب یہ بات ناممکنات میں سے لگتی ہے۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ بھی سوچتا ہے کہ اگر تینوں ممالک کو متحد کیا گیا تو مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوجائے گی اور وہ ۶۰ کروڑکے آس پاس پہنچ جائے گی۔اس بات کو سنگھ پریوار بھی بخوبی سمجھتا ہے۔ غور طلب ہے کہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات سے قبل جب اردو  ہفت روزہ ’’نئی دنیا‘‘ نے  وزیر اعظم نریندر مودی کا انٹرویو کیا تھا تو شاہد صدیقی کا ایک سوال ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے تعلق سے بھی تھا جس پر نریندر مودی چیں بجبیں ہوگئے تھے اور الٹے پوچھا تھا کہ آپ اکھنڈ بھارت کیوں چاہتے ہیں؟ اس لئے کہ مسلمان اکثریت میں آجائیں؟ یہاں یہ یاد دلانا بھی بروقت ہوگا کہ پاکستانی ایسی باتوں کو پسند نہیں کرتے کہ پاکستان کا انضمام بھارت میں ہوجائے ،اب وزیراعظم کے عین دورہ پاکستان کے بعد رام مادھو کا بیان شکوک وشبہات کھڑے کرتا ہے کہ کہیں اس دورے کے اثرات کو کم کرنے کے لئے تو اس قسم کا بیان نہیں دیا گیا؟ ایسے وقت میں جب دونوں ممالک اپنے بگڑے ہوئے رشتے کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں اور بند بات چیت کو پٹری پر لانا چاہتے ہیں،ا یسا بیان دینا کسی بھی طرح عقل مندی کی بات نہیں ہے۔

 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 466