donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Modies Bhi Congresi Agent Hai


کیا ’موڈیز‘ بھی کانگریسی ایجنٹ ہے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’’موڈیز‘‘(Moody's ) کی تجزیہ یونٹ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنی پارٹی کے ارکان پر لگام لگانا چاہئے نہیں تو ان کے لئے ملکی اور عالمی سطح پر اعتماد کھونے کا خطرہ ہے۔’موڈیز ‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بی جے پی کو راجیہ سبھا میں اکثریت نہیں ہے جس کے سبب اصلاحات کے نکتہ نظر سے اہم بل منظور نہیں ہو پا رہے ہیں اور اپوزیشن کا رویہ رکاوٹ پیداکرنے والا ہے، لیکن حالیہ ایام میں حکومت نے بھی خود اپنے لئے بھی کوئی اچھا کام نہیں کیا کیونکہ بی جے پی کے کئی رکن متنازعہ تبصرہ کرتے رہے۔’’موڈیز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق مودی نے عام طور پر متنازعہ تبصرہ والوں سے اپنے آپ کو دور رکھا ہے لیکن مختلف اقلیتی فرقوں کے خلاف بیانات سے کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ تشدد بڑھنے سے حکومت کو راجیہ سبھا میں اور سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور ایسے میں ہندوستان کی اقتصادی پالیسی بھٹک جائے گی۔وزیر اعظم مودی کو اپنی پارٹی کے ارکان پر لگام رکھنا چاہئے نہیں تو ملکی اور بین الاقوامی اعتماد ختم ہونے کا خطرہ ہے۔عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ اب تک مودی حکومت پر اعتماد قائم نہیںہوسکا ہے مگر بہار میں رواں انتخابات میں جیت سے وہ راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل کرسکتی ہے اور اسے کام کاج میں مدد ملے گی۔ حالانکہ بہار میں جیت یقینی نہیں ہے۔رواں اسمبلی انتخابات مودی کی قیادت کے لئے اہم ہیں۔ مجموعی طور پر یہ اب تک صاف نہیں ہے کہ ہندوستان کوبہتر بنانے کے دعوے پر وہ کھرے اتریںگے یا نہیں۔موڈیز کااندازہ ہے کہ تحویل اراضی بل، سروس ٹیکس بل اور نظر ثانی شدہ لیبر قانون کے رواں سال 2015 میں پارلیمنٹ سے منظور ہونے کا امکان نہیں ہے لیکن 2016 میں یہ قوانین پاس ہوسکتے ہیں۔مودی کو مشورہ دینے والے ادارہ ’موڈیز‘ کو ایک آزاد تنظیم کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

    ’’موڈیز ‘‘تنہا عالمی ادارہ نہیں ہے جس نے نریندر مودی کو فرقہ وارانہ خطوط سے بچنے کا مشورہ دیا ہے بلکہ اس قبل بھی انھیں اس قسم کے مشورے مل چکے ہیں۔ اپنے ہندوستان کے دورے کے بیچ امریکی صدر براک ابامہ بھی اس قسم کا مشورہ دیا تھا۔ ادھر حال ہی میں امریکہ میں عالمی مذہبی آزادی سے متعلق معاملات کے ایک اعلی سفارت کار نے کہا ہے کہ’’ امریکہ مودی حکومت کو ملک بھر میں ’’رواداری اور عاجزی‘‘کے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حوصلہ افزائی کرے گا۔‘‘امریکی ایمبیسڈرایٹ لاپھارج فار انٹرنیشنل رلیجس فریڈم، ڈیوڈ سیپرسٹین کا کہنا ہے کہ گائے کے گوشت کو لے کر ہوئے واقعات کے سلسلے میں تنازعہ ہونے کے بعد وزیر اعظم نے مختلف فرقوں کے درمیان عاجزی اور رواداری کا اعلان کیا تھا۔ ہم ان نظریات کو ملک بھر میں حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے وزیر اعظم اور ان کی حکومت کی حوصلہ افزائی کریں گے۔سفیر کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر جب بھارت گئے تھے تو انہوں نے مذہب کی وجہ سے ملک میں انتشار کو دیکھتے ہوئے اسے نظر انداز کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ملک کی فلاح و بہبود کے لئے ان مسائل کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔امریکی سفارت کار نے کہنا ہے کہ ہم حکومت سے ان حالات کو دور کرنے کی خاطر اقدامات کے لئے کہتے رہیں گے جن کے چلتے تشدد پھیلتا ہے۔ ہم ایسے قدم اٹھانے کے لئے بھی ان سے کہتے رہیں گے کہ ہر اقلیتی برادری کا تحفظ یقینی  ہو۔

    اب تک مودی حکومت پر ادیبوں، قلمکاروں، فلم ، سائنس اور تاریخ کے میدان میں کام کرنے والوں نے تنقیدیں کی ہیں اور درست راستے پر چلنے کی نصیحت کی ہے تو بی جے پی کی طرف سے کہا گیا کہ وہ کانگریسی ہیں یا کمیونسٹوں کے ایجنٹ ہیں مگر اب عالمی ادارے بھی ایسا ہی کر رہے ہیں انھیں سنگھ پریوار کس کا ایجنٹ مانتا ہے؟ کیا وہ بھی کانگریس اور کمیونسٹوں کے ایجنٹ اور نمک خوار ہیں؟ عالمی اداروں کے مشورے اپنی جگہ پر مگر وزیر اعظم نریندر مودی کی بھی اپنی کچھ مجبوریاں ہیں۔ ان کی امیج ایک شدت پسند ہندتووادی کی ہے۔ ان کے گجرات میں رہتے ہوئے ریاست میں جوحالات رہے ،انھیں کوئی بھول نہیں پایا ہے۔ عالمی سطح پر بھی انھیں اسی روپ میں دیکھا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ عالمی اداروں اور مختلف ممالک کے مشوروں پر عمل کریںگے ،اس میں شک ہے۔ ان کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ آرایس ایس پس منظر کے ہیں۔ ان کی پرورش وپرداخت سنگھ کی شاکھائوں میں ہوئی ہے اور ان کی ذہنی بناوٹ سنگھ کی ہی مرہون منت ہے۔ ایسے میں ان کا ہندتو کے تنگ دائرے سے نکل پانا آسان کام نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بی جے پی کو اپنی جیت کے لئے فرقہ وارانہ منافرت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بغیر وہ انتخابات میں کم ہی کامیاب ہوئی ہے۔ ہمارے سامنے بہار کی مثال موجود ہے، جہاں اس نے ترقی کو ایشو بنایا تو عام ووٹروں کی توجہ سے محروم رہی ایسے میں اسے ہندتو کی طرف لوٹنا پڑا اور سماج کو بانٹنے والے موضوعات کو اٹھانا پڑا۔ ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ان مشوروں پر کان دھریں جو دنیا بھر سے انھیں مل رہے ہیں۔ امریکی صدر باراک ابامہ جب بھارت آئے تو مودی خوش تھے مگر جاتے جاتے وہ بھی فرقہ وارانہ خطوط سے اٹھنے کا مشورہ دیتے گئے جس نے مودی کے سارے کئے کرائے پر پانی پھر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 488