donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Maghrabi Bengal Ke Musalman Aur Mamta Banerji Ki Intekhabi Seyasat


مغربی بنگال کے مسلمان اور ممتا بنرجی کی انتخابی سیاست


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کلکتہ کے مسلم اکثریتی علاقے راجہ بازار میں محمد شکیل کا ویسٹ پیپر کا دھندہ، ترنمول کانگریس عہد اقتدار میں بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ سی پی آئی ایم کے دور اقتدار میں تھا۔ انھیں کاروبار کے لئے نہ پہلے سرکاری قرض ملتا تھا اور نہ اب ملتا ہے۔تانتی باغ محلے میں چمڑے کی چپلوں کا کام کرنے والے شیخ کلو اب چمڑے کی جگہ فوم سے چپلیں بناتے ہیں کیونکہ چمڑے کے دھندے کے ساتھ اب بہت سے مسائل جڑ چکے ہیں۔ ان کے بچے پہلے بھی سرکاری اسکولوں میں پڑھتے تھے اور اب بھی وہیں پڑھتے ہیں۔ محمد عالم چیت پور علاقے میں دکان چلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ ہم اپنی دکان سے گھر کا خرچ چلاتے تھے اور آج بھی ویسا ہی حال ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ پہلے سی پی آئی ایم کے لوگ آئے دن چندے مانگنے چلے آتے تھے، اب بھی وہی چہرے آتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ انھوں نے سی پی آئی ایم چھوڑ کر ترنمول کانگریس کا جھنڈہ اٹھا لیا ہے۔یہاں صرف تین لوگوں کا یہ حال نہیں ہے بلکہ پورے مغربی بنگال میںمسلمانوں کا یہی حال ہے۔انھوں نے کمیونسٹوں کہ جگہ پر ترنمول کانگریس کو اس لئے اقتدار دیا تھا کہ وہ سی پی آئی ایم کی حکومت سے عاجز آچکے تھے جو مسلمانوں کے ساتھ انصاف سے قاصر تھی اور جس کے اقتدار میں مسلمان دن بدن پچھڑتے جارہے تھے مگرموجودہ حکومت میں بھی ان کے حالات میں کچھ خاص بدلائو نہیں آیا۔ کلکتہ کے سماجی کارکن انوار عالم خاں(ایڈوکیٹ) بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کو ممتا بنرجی سے بہت امیدیں تھیں مگر اب ان پر اوس پڑ چکی ہے۔ان کے مطابق ممتا حکومت نے چار سال میں مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔اس کے لیڈران افطار پارٹیوں اور عید ملن پروگرام تک محدود رہے مگر کوئی ایساکام نہیں کیا جس سے مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار میں آگے لایا جاسکے۔ حالانکہ اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آئندہ اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں کا بڑا طبقہ ممتا بنرجی کی طرف ہی جائے گا کیونکہ یہاں دوسرا کوئی متبادل نہیں ہے۔

    بہرحال ممتا بنرجی اس وقت مسلمانوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔اس کے لئے وہ پوری قوت صرف کر رہی ہیں۔ جیسے جیسے اسمبلی انتخابات قریب آرہے ہیں وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں اور خاص طور پر مسلم لیڈروں کو قریب لانے کی کوشش میں مصروف نظر آرہی ہیں۔ ممتا بنرجی کو احساس ہے کہ مغربی بنگال کا ۳۰فیصد مسلم ووٹ جدھر جائے گا،وہی پلڑا بھاری ہوگا۔ اسی ووٹ کے سبب یہاں ترنمول کانگریس کا اقتدار قائم ہے اور اسی کے سبب گزشتہ لوک سبھا اور بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کو بھاری جیت ملی ہے۔وہ مولانا صدیق اللہ چودھری، قاری فضل الرحمٰن اور طٰہ صدیقی پر ڈورے ڈالنے میں لگی ہوئی ہیں۔

یو ڈی ایف کے ساتھ اتحاد

    ممتا بنرجی نے پچھلے دنوں مولانا صدیق اللہ چودھری سے رابطے کی کوشش کی جو کہ ایک مدت سے ان کے رابطے میں نہیں تھے۔مولانا صدیق اللہ چودھری جمعیۃ علماء ہند کی مغربی بنگال شاخ کے صدر ہیں، اسی کے ساتھ وہ مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے بھی ریاستی صدر ہیں۔ بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کے بیچ ان کے زبردست اثرات بتائے جاتے ہیں۔ انھوں نے ماضی میں کانگریس اور یوڈی ایف کے ٹکٹ پر کئی الیکشن بھی لڑے ہیں مگر اچھے خاصے ووٹ لینے کے باوجود جیت نہیں سکے تھے۔ اب ممتا بنرجی کو لگتا ہے کہ اگر انھوں نے اپنے امیدوار میدان میں اتاردیئے تو ترنمول کانگریس کو مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے لہٰذا وہ مولانا کو چارہ ڈالنے میں لگ گئی ہیں۔یہاں مسلمانوں کی اکثریت ریاست کے اضلاع میں رہتی ہے اور بنگلہ بولنے والی ہے۔اگر سیٹوں کی تقسیم پر بات بن گئی تو یوڈی ایف کے ساتھ اس کا اتحاد بھی ہوسکتا ہے اور اس کے اثرات بنگال کے اضلاع میں مسلم ووٹ پرپڑسکتے ہیں۔

مسلم ووٹ کے لئے کھینچ تان

    بنگلہ بولنے والے مسلمانوں پر جن لوگوں کے اثرات ہیں ان میں ایک فرفرہ شریف کے پیر محمدطہ صدیقی بھی ہیں جن کی خانقاہ ہگلی ضلع میں ہے مگر ان کے ماننے والے پوری ریاست میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ممتا بنرجی سے ان کا رشتہ قائم کرانے میں سابق مرکزی وزیر اور ممتا کے قریبی رہ چکے مکل رائے کا اہم کردار تھا جوکہ پچھلے دنوں شادرا چٹ فنڈ گھوٹالے میں جیل گئے تھے ۔ آج کل مکل رائے کے بارے میں خبر گرم ہے کہ وہ اپنی الگ پارٹی بنانے والے ہیں اور کانگریس یا سی پی آئی ایم کے ساتھ اتحاد کرکے اسمبلی الیکشن میں اترنے والے ہیں۔  خبروں کے مطابق اگر مکل رائے پارٹی بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ محمد طٰہٰ صدیقی کو اپنے ساتھ لاسکتے ہیں جس سے مسلم ووٹروں کا ایک طبقہ ممتا بنرجی سے کٹ سکتا ہے۔ممتا بنرجی کی کوشش یہ بھی ہے کہ وہ صدیقی کو اپنے ساتھ رکھیں۔

  قاری صاحب کا سیاسی بیان

    ممتا بنرجی جن مسلمانوں کو ترنمول کانگریس سے قریب لانے کی کوشش میں ہیں ان میں ایک قاری فضل الرحمٰن ہیں جو کہ کلکتہ کے ریڈ روڈ پر نماز عیدین کے امام ہیں۔ان کے اثرات اگرچہ مولانا صدیق اللہ چوھدری اور طٰہ صدیقی جیسے نہیں ہیں مگر ان کے بیانات مسلمان ووٹروں کو ممتا سے دور کرنے کاکام کرسکتے ہیں۔ خبروں کے مطابق قاری صاحب کو مینیج کیا جاچکا ہے۔غور طلب ہے کہ قاری فضل الرحمٰن نے عین عید الفطر کے خطبے میں سیاسی بیان کے ذریعے ممتا بنرجی سرکار کے سامنے مشکل کھڑی کر دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ گزشتہ 4 سالوں میں ممتا نے مسلمانوں کے لئے زمین کی سطح پر کچھ نہیں کیا ہے۔ اگر مجھے ممتا حکومت کا اندازہ کرنے کو کہا جائے تو میں انہیں زیرو پوائنٹ دوں گا۔حالانکہ بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے خود کو مسلم ہمدرد بتاتے ہوئے ان کے لئے کئی منصوبے شروع کرنے کا دعوی کیا تھا۔جب کہ امام عیدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ممتا کے سامنے بھی یہ کہا تھا کہ اقلیتوں کے لئے بہت ساری اسکیمیں شروع کی گئی ہیں لیکن زمینی حقیقت میں کسی بھی اسکیم کا فائدہ اس طبقے تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ممتا نے انتخابات سے پہلے بہت سارے وعدے کئے تھے لیکن انہیں ابھی تک مکمل نہیں کیا گیا ۔ ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ریاست میں دس ہزار مدرسوں کو منظوری دی جائے گی لیکن ابھی تک صرف 134 مدرسوں کو ہی منظوری دی گئی ہے۔ ترنمول کانگریس سرکارپر حملہ بولتے ہوئے انھوںنے کہا کہ، مدرسوں میں پڑھنے والے اور پڑھانے والے دونوں کی ہی حالت خراب ہے۔ مدارس میں بچوں کے پاس کتابیں نہیں ہیں اور ٹیچرس کو تنخواہ تک نہیں مل پا رہی ہے۔ اگر یہی سب جاری رہا تو آنے والے انتخابات میں حکمران پارٹی کے لئے دقتیں ہو سکتی ہے۔تمام سیاسی جماعتوں کو انتباہ دیتے ہوئے قاری فضل الرحمٰن نے کہا، سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو ووٹ بینک کی طرح دیکھنا بند کر دیں۔مسلمانوں کی افطار پارٹی میں شریک ہونے اور ٹوپی پہننے سے مسلمانوں کا فائدہ نہیں ہونے والا ہے اگر واقعی مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں تو ان کے لئے کام کریں۔ مسلمان بہت سمجھدار ہو گئے ہیں، انہیں اب بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔

اونٹ کے منہ میں زیرہ

    ترنمول کانگریس کے لیڈران مسلمانوں کے لئے کئے گئے ممتا بنرجی کے کاموں کو شمار کرتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں۔وہ یاد دلاتے ہیں کہ ممتا کے دور میں جس قدر سرکاری بحالیاں ہوئی ہیں ان میں مسلمانوں کو بہتر نمائندگی دی گئی ہے۔ مدرسوں کو منظوری دی گئی ہے۔ اماموں اور موذنوں کے حالات کو بہتر کرنے کے لئے بھی حکومت نے کئی فیصلے لئے ہیں۔عالیہ یونیورسٹی کو بہتر کرنے کے لئے کچھ اقدام کئے گئے اور اردو کا شعبہ بھی حال ہی میں قائم کیا گیا نیز اردو اکیڈمی اور دیگر اقلیتی اداروں کے بجٹ میں بھی سرکار نے اضافہ کیا ہے ۔ حالانکہ مسلمان ان اقدام کو اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دیتے ہیں۔مالدہ ضلع میں ایک پرائیویٹ مدرسہ چلانے  مولانا شکیل احمد کا کہنا ہے کہ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ممتا سرکار نے مسلمانوں کے لئے کام کیا ہے مگر اسی کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ناکافی ہے۔ یہاں مسلمانوں کی پسماندگی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے جس کی تفصیل جسٹس سچر کمیشن کی رپورٹ میں موجود ہے ۔ اس لئے انھیں اس پچھڑے پن سے باہر لانے کے لئے جنگی پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے،خاص طور پر تعلیمی میدان میں۔

اپوزیشن کا وجود نہیں

     مغربی بنگال میں ممتا سرکار کی کچھ خامیوں اور خوبیوں کے باوجود یہاں ممتا کا جلوہ برقرار ہے۔مسلم اور غیر مسلم ووٹروں کی پہلی پسند اب بھی وہی بنی ہوئی ہیں۔یہاں اپوزیشن کا ووجو تقریباً ختم ہوچکا ہے۔بی جے پی نے یہاں بہت زور مارا اور وقتی طور پر اس کے ووٹ میں اضافہ بھی ہوامگر پھر اس کا گراف تیزی سے گرا۔ یہاں تک کہ بی جے پی میں بھی مسلمان شامل ہورہے تھے مگر آج حالات دگر گوں ہیں۔ جہاں مغربی بنگال میں ایک متبادل قوت کے طورپر ابھرنے کے لئے بی جے پی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا،اب وہاں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ ریاست میں اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کا کیا حال ہوگا؟ چند مہینے قبل ہوئے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو دیکھیں تو صاف احساس ہو جائے گا کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں ممتا بنرجی کے سامنے بی جے پی ٹک نہیں پائے گی۔ مغربی بنگال کے 91 شہر باڈی میں ہوئے انتخابات میں ترنمول کانگریس کی آندھی چلی ہے اور اس آندھی میں بی جے پی تو کیا لیفٹ پارٹیاں بھی تقریبا صاف ہو چکی ہیں۔ اس وقت یہاں سی پی آئی ایم اور کانگریس،ممتا کی ترنمول کے مقابلے میں کہیں ٹکتی نظر نہیں آرہی ہیں ۔یہی سبب ہے کہ بی جے پی کی کوشش تھی سی پی آئی ایم کی جگہ لینے کی مگر اس کی یہ کوشش ناکام ہوتی نظر آتی ہے۔مسلمان موجودہ سرکار سے بہت زیادہ خوش نہیں ہیں مگر فی الحال بنگال کے سیاسی منظر نامے میں ان کے لئے کوئی دوسرا سیاسی متبادل بھی نہیں ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 509