donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Modi Aur Rahul Ke Darmiyan Shuru Hogayi Bartari Ki Jang


کس کے اچھے دن، کس کے برے دن؟
 
 مودی اور راہل کے درمیان شروع ہوگئی برتری کی جنگ
 
تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
 
ghaussiwani@gmail.com
Ghaus Siwani/Facebook
 
وہ شخص جو کہ پہلے یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا
 
خود کو بھگوان سمجھنے والے اب دہشت میں ہیں۔تخت ہلنے لگا ہے اور ’’مہاراجہ‘‘اس کی لرزش کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ قومی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اسے پائیداری عطا کرنے کے لئے عام انتخابات ایک سال قبل یعنی 2018میں ہی ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ اہم سوال یہ ہے کہ اگرقبل از وقت لوک سبھا انتخابات ہوئے تو راج گدی کسے ملے گی؟ یہ حکمت عملی کارگر ہوگی یاہلاکت خیزثابت ہوگی؟ اصل میں رواں سال ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا اہم سال ثابت ہونے والا ہے اور یہ بتاسکتا ہے کہ خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے والے کتنے طاقتور یاکمزور ہیں؟ یہ سال نریندر مودی اورراہل گاندھی کے درمیان برتری کی جنگ کا سال ثابت ہوگا اور جہاں ایک طرف نریندر مودی کوبتانا پڑے گا کہ وہ ہندوستانی عوام کے دلوں میں آج بھی جگہ بنائے ہوئے ہیں تو دوسری طرف راہل گاندھی کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ تخت وتاج کے واقعی اہل ہیں۔اس سال کرناٹک میں اسمبلی الیکشن ہے، جہاں راہل گاندھی کا اصل امتحان ہونا ہے تو وہیں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کا گڑھ بچانے کا چیلنج نریندر مودی کے سامنے بھی ہے۔ علاوہ ازیں نارتھ ایسٹ کے میگھالیہ، تری پورہ اور ناگالینڈ میں اسمبلی انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ حالانکہ راجستھان کے ضمنی الیکشن میں جس طرح بی جے پی ہاری ہے ،اس نے واضح اشارہ دیدیا ہے کہ بی جے پی کے لئے آگے کا راستہ آسان نہیں ہے۔ بہرحال گجرات اسمبلی الیکشن اور راجستھان ضمنی الیکشن کے بعدبی جے پی اور کانگریس کے لئے راستہ کہاں جاتا ہے؟ 2018میں اس سوال کا جواب آپ کو مل جائیگا۔رواں سال میں جہاںکانگریس کے نئے صدر کے سامنے کئی بڑے چیلنج ہونگے، جن سے انھیں نمٹنا ہوگا ،وہیں نریندر مودی کو اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے بھی جدوجہد کرنا ہوگا۔اب تک انھوں نے کئی سخت اقدام اٹھائے ہیں اور اگر انھیں قومی میڈیا کا ساتھ نہ ملا ہوتا تو شاید اب تک سرکار کے خلاف عوامی بغاوت کا ماحول ہوتا۔ 
 
کرناٹک میں ہوگی پہلی جنگ 
 
  گجرات اور ہماچل پردیش میں کانگریس کو حال ہی میں ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔اس سے پہلے اترپردیش، اتراکھنڈ میں بھی اس نے کوئی بڑا تیر نہیں مارا۔گزشتہ پورے سال میں کانگریس کے لئے اچھی خبر صرف پنجاب سے آئی جہاں عام آدمی پارٹی کی جیت کی قیاس آرائیوں کے بیچ کانگریس نے میدان مار لیا تھا مگر گجرات میں بھی کانگریس نے اپنی سیٹوں اور ووٹوں میں اضافہ کیا ہے اور اس کے لئے یہ سب سے بڑی حصولیابی رہی۔ اسی کے ساتھ گجرات سے راہل گاندھی کا ایک نیا اوتار سامنے آیا ہے مگر اب ان کے سامنے آنے والے اسمبلی انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہر ہ کرنے کا مسئلہ در پیش ہے۔حالانکہ ان کے لئے راحت کی پہلی بڑی خبر راجستھان سے آئی جہاں ضمنی الیکشن میں کانگریس نے بی جے پی کو شکست فاش دے کر’’مودی میجک‘‘کے خاتمے کا پیغام دیدیا۔اب راہل اور مودی کی ٹکر نارتھ ایسٹ میں ہونے والی ہے اور پھر کرناٹک میں۔ کرناٹک ، کانگریس کا آخری قلعہ ہے ، جہاں بی جے پی، آرایس ایس ، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل پہلے ہی سے تیاریوں میں مصروف ہیں اور زمینی سطح پر اپنی تنظیم کو بڑھانے کا کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے ریاست میں فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کا کام بھی کیا ہے۔اسی کے ساتھ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ ریاست میں سرکار کے خلاف عوام کے ایک طبقے میں ناراضگی بھی ہے جو کہ فطری ہے اور ہرسرکار سے ہوتی ہے ، ایسے میں راہل کے سامنے بڑا سوال کرناٹک کو بچانے کا ہے مگراسی کے ساتھ مودی کے سامنے چیلنج ،کرناٹک کو کانگریس سے چھیننے کا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر بی جے پی نے کرناٹک جیت لیا تو چند مہینے قبل ،اسی سال پورے ملک میں عام انتخابات ہوسکتے ہیں۔ یہ انتخابات راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات کے ساتھ ہوسکتے ہیں۔ظاہر ہے کہ اپنی مقبولیت کے گرتے گراف سے پریشان نریندر مودی ، ایک بڑا جوا کھیلنے کی سوچ رہے ہیں مگر پانسہ الٹا بھی پڑسکتا ہے۔ 
مودی کے لئے تشویش کی بات
 
  نریندر مودی کی جادوئی شخصیت کے آگے کل تک راہل گاندھی ’’پپو‘‘ نظر آرہے تھے اور بھگواپریواران کا مذاق اڑانے میں پیش پیش تھا مگر حالیہ دنوں میں مودی کے گرتے گراف کے سبب اب راہل گاندھی ایک سمجھدارلیڈر دکھائی پڑنے لگے ہیں۔ گجرات میں انھوں نے جس طرح انتخابی مہم چلائی، اسے ان کی دانش مندی اور حکمت عملی کا ثبوت مانا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی ان کی مقبولیت میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری طرف کل تک جو لوگ نریندر مودی کی تنقید سے گریز کرتے تھے، اب کھل کر ان کے خلاف اظہار رائے کر رہے ہیں۔ قومی میڈیاجو مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کا بھکت بن گیا تھا اب دھیرے دھیرے اس بھکتی سے آزاد ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے گزشتہ چیف اے کے جوتی جو گجرات کیڈر سے تھے،ان پر برسراقتدار طبقے کی جانبداری کا الزام لگا تھا مگر اب وہ ریٹائرڈ ہوچکے ہیں اور انتخابات میں اب عام مشینوں کے بجائے وی وی پیٹ مشینوں کا بھی استعمال ہونے لگا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر بھی چارسینئرججوں نے سنگین الزامات لگائے تھے جن کے بین السطور میں حکومت کے ساتھ ملی بھگت کا پیغام بھی پڑھاگیا، مگر اب ملک کی سب سے اونچی عدالت کے سسٹم میں شفافیت لانے کی کوشش ہوئی ہے، سپریم کورٹ نے جسٹس لویاکی موت کے معاملے کو بھی سنجیدگی سے لے رہا ہے، جو امت شاہ کی ملزمیت والے سہراب الدین کیس کو دیکھ رہے تھے، ایسے میں کہیں نہ کہیں جمہوریت کے ’’مہاراجہ‘‘ کمزور ہی پڑے ہیں اور اس کا نقصان آنے والے دنوں میں انھیں اٹھانا پڑے گا۔
 
   مودی یا راہل؟
 
آج اگر ،آپ لوگوں سے سوال کریں کہ لوک سبھا انتخابات میں وزیراعظم کی کرسی کیلئے آپ کا پہلا انتخاب کون ہو گا؟ مودی یا راہل؟ توزیادہ تر لوگ جواب دینگے ’’مودی‘‘کیونکہ ہمارے خیال سے مودی کے ساتھ ووٹروں کا ایک بڑا طبقہ اب بھی ہے۔ راہل گاندھی کی گجرات مہم کے بعدان کے چاہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، لیکن ووٹروں کے ذہن میں،اب بھی مودی موجود ہیں اور اپنے کئی سخت اقدام کے باوجود ان کی اہمیت ووٹروں کے لئے ختم نہیں ہوئی ہے، ایسے میں راہل اور کانگریس کے لئے مودی کودرکنار کر اپنے لئے جگہ بنانے کی حکمت عملی سوچنی پڑے گی۔ گزشتہ دنوں ایک نیوز چینل نے عوامی سروے کے بعد دعویٰ کیا کہ اگر آج لوک سبھا انتخابات ہوتے ہیں تو ایک بار پھر بی جے پی اقتدار میں آجائے گی مگر کانگریس کی سیٹوں میں اضافہ ہوگا اور بی جے پی کی کم ہونگی۔ سیاسی ماہرین مانتے ہیں کہ مودی کی مقبولیت روز بروز کم ہورہی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ سروے میںبی جے پی کی سیٹیں کم ہوتی نظر آرہی ہیں اور آنے والے دنوں میں مودی کی مقبولیت میں کمی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ عام بجٹ جو گزشتہ دنوں حکومت نے پارلیمنٹ میں پیش کیا،اس میں بھی کوئی خاص بات نہیں تھی جو عام لوگوں کو اپنی جانب راغب کرے۔ویسے مودی حکومت کی جانب سے اب تک کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جو عام ووٹروں کو خوش کرنے والا ہواور ان وعدوں کی تکمیل کی جانب پیش رفت کے طور پر دیکھا جائے ،جو بھاجپا کی منشور کا حصہ تھے۔ عوام کو لگنے لگا ہے کہ سابقہ کانگریس سرکار کے مقابلے موجودہ بی جے پی سرکار نے کچھ بھی اچھانہیں کیا ہے، یہی سبب ہے کہ سابقہ سرکار کی ناکامیوں کو لوگ بھولنے لگے ہیں۔    
 
  بھگوا پریوار کی شاطرانہ چال
 
راجستھان اور بنگال کے ضمنی چنائو میں بی جے پی کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے،جس سے عوام میں وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے تعلق سے غلط پیغام گیا ہے۔آنے والے مہینوں میں مدھیہ پردیش اور اترپردیش میں بعض لوک سبھا اور ودھان سبھا سیٹوں پر ضمنی الیکشن ہونے ہیں۔ان سیٹوں پر اگر اپوزیشن نے اتحاد کا مظاہرہ کیا تو بی جے پی کی ہار کے امکانات روشن ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کے خلاف، ووٹروں میں کوئی اچھا پیغام نہیں جائے گا۔ اس کے بعد راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اسمبلی الیکشن ہے، جہاں بھاجپا کی حالت پہلے ہی سے پتلی ہے۔ان ریاستوں میں لوک سبھا کی 93 نشستیں ہیں۔ اگر آپ 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کو دیکھیں، تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ، بی جے پی نے ان 93 نشستوں میں سے 79 سیٹیں جیت لی تھیں۔حالانکہ اب وہ ان میں سے بیشتر سیٹیں ہارنے کی پوزیشن میں ہے۔ ایسے میں ان ریاستوں کے انتخابات کے ساتھ ہی لوک سبھا الیکشن کراکر وزیراعظم مودی، بی جے پی صدر امت شاہ اور سنگھ پریوار ملک میں بی جے پی مخالف ہوا بننے سے روکنا چاہتے ہیں۔ بی جے پی کو لگتا ہے کہ مودی کے جادو میں کمی آئی ہے اور ان تمام سیٹوں پراسے آئندہ جیت نہیں مل سکتی۔یہ بات وزیراعظم بھی بخوبی محسوس کر رہے ہیں۔ انھیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ جس طرح راہل گاندھی کو مقبولیت مل رہی ہے، وہ آنے والے ایام میں ان کے لئے خطرناک ہوسکتی ہے۔ایسے میں وقت سے پہلے لوک سبھا انتخابات کرانا فائدہ مند رہے گا۔بہرحال انتخابات وقت سے پہلے ہوں یا وقت پرلیکن ایک بات طے ہے کہ یہ سیاسی جنگ راہل اور مودی کے درمیان ہی لڑی جائیگی اور جیتنے والے کو ملے گی ہندوستان کی راج گدی۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments


Login

You are Visitor Number : 409