donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Narender Modi Apne Dilo Dimagh Me Wusaat Paida Karen


نریندر مودی اپنے دل ودماغ میں وسعت پیدا کریں


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    نریندر مودی ،گجرات کے وزیر اعظم ہیں یا ہندوستان کے؟اگر وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں تواپنے دل ودماغ کو اب تک گجرات سے باہر کیوں نہیں لاپائے ہیں؟ وہ خود کواب تک ایک ریاست سے باہر کیوں نہیں لا پائے ہیں جب کہ ان کندھوں پر اب پورے ملک کی ذمہ داری ہے؟ کیا ان کی یہی غلطی ان کے لئے نقصاندہ ثابت ہوگی؟ کیا ان کی اس سوچ کے سبب بی جے پی کے اپنے لوگ بھی ان سے ناراض ہوتے جارہے ہیں؟ کیا بی جے پی کے پرانے اور سنیئر رہنمائوں کی ناراضگی مودی کے سیاسی مستقبل کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے؟ آج اگر نریندر مودی ہندوستان کے وزیر اعظم ہوچکے ہیں تو انھیں اپنے دل ودماغ میں زیادہ وسعت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ جس طرح گجرات میں راج کر رہے تھے، اس طریقہ کار کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ مودی جس تیزی کے ساتھ گجرات سے نکل کر پورے ملک کے سیاسی افق پر چھائے ہیں وہ کسی چمتکار سے کم نہیں ہے۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں جو کچھ ہوا اسے اچھے اچھے بھی سمجھ نہیں پائے ہیں اور خود مودی کے لئے بھی ا سکا ہضم کرنا مشکل ہورہا ہے۔ وہ ایک لمبی مدت تک گجرات کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور یہاں کا ان کے پاس تجربہ بھی ہے مگر اس تجربے کو جوں کا توں استعمال کرنا کسی بھی طرح قومی سطح پر مناسب نہیں ہوگا۔ گجرات میں نریندر مودی نے سب سے بڑا کام یہ کیا تھا کہ اپنے تمام مخالفین کو کنارے لگا دیا تھا اور وہ یہاں تنہا لیڈر کے طور پر راج کر رہے تھے ۔ اب اسی انداز میں وہ مرکز میں بھی کام کررہے ہیں ۔ اب ان کے آس پاس بھی کوئی لیڈر نہیں ہے۔ سب کے سب حاشئے پر جاچکے ہیں اور مودی جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ ان کا قبضہ صرف حکومت پر نہیں بلکہ پارٹی پر بھی ہوچکا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ آرایس ایس بھی ان کی مٹھی میں آجائے۔ یہ سب کام وہ گجرات میں کرتے رہے ہیں ۔ ان کے ا س طریقہ کار کے خلاف پارٹی کے اندر بے چینی پائی جارہی ہے اور سینئر لیڈران بس موقع کی تاک میں ہیں کہ کہیں مودی کا کوئی کمزور پہلو مل جائے اور وہ انھیں دھوبیا پاٹ لگاکر پچھاڑ دیں۔ان کے محسن اڈوانی کا کیا حال ہوا وہ کسی کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔

اب سنگھ پر قبضہ کی تاک میں

    اس وقت مرکزی حکومت میں اگرچہ کئی پرانے اور تجربہ کار چہرے ہیں مگر وہ سب بے کار بیٹھے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی نے حکومت پر قبضہ جمانے کے بعد پارٹی پر قبضہ کرنا شروع کردیا اور اپنے سب سے قریبی وہمراز امت شاہ کو پارٹی کا صدر بنانے کے ساتھ ساتھ انھوں نے پارٹی کے تمام اہم عہدوں پر بھی اپنے پسندیدہ لوگوں کو بٹھا دیا ہے۔ اب یہاں کسی بڑے سے بڑے لیڈر کی بھی نہیں چلتی ہے۔ مودی کی نظر اب آر ایس ایس پر ہے کہ کس طرح وہاں اپنے لوگوں کو بٹھائیں اور سنگھ کو بھی اپنی مٹھی میں کرلیں۔ فی الحال موہن بھاگوت سنگھ کے چیف ہیں اور وہ کھل کر کسی بھی مسئلے میں وزیر اعظم کے خلاف نہیں جارہے ہیں۔ ایسا ہی نریندر مودی گجرات میں کرچکے ہیں کہ حکومت اور پارٹی پر قبضہ کرلیا تھا اور سنگھ کی تمام ذیلی تنظیموں کو اپنی مٹھی میں کر رکھا تھا۔ وہاں وشوہند وپریشد، بجرنگ دل اور دوسری سنگھی جماعتوں کی نہیں چلتی تھی۔ یہاں تک کہ پروین توگڑیا بھی یہاں اپنا کوئی پروگرام نہیں کرسکتا تھا۔ اسی نہج پر مودی دلی میں بھی چل رہے ہیں اور حکومت وپارٹی پر قبضہ کے بعد اب آرایس ایس اور دیگر بھگوا جماعتوں پر اپنا قبضہ جمانے کا کام کر رہے ہیں۔

منتری بھی آزاد نہیں

    نریند رمودی جب تک گجرات میں تھے ، حکومت کے تمام اختیارات ان کے پا س تھے اور کسی منتری کو اپنی مرضی سے کچھ کرنے کی آزادی نہیں تھی۔ آج یہی حالات مرکز میں بھی ہیں۔اس وقت مودی کابینہ میں کسی وزیر کے پاس کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے اور سب کے کام مودی نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی وزارت میں کوئی کام نہیں ہورہا ہے۔ سینئر وزیروں کی یہ حالت ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا سکریٹری بھی نہیں رکھ سکتے باقی کاموں میں وہ کتنے آزاد ہونگے، سمجھا جاسکتا ہے۔ سشما سوراج وزیر خارجہ ہیں مگر وزارت خارجہ کی ذمہ داری مودی نے سنبھال رکھی ہے اور اس قدر غیرملکی دورے کر رہے ہیں کہ انھیں مذاق میں این آر آئی وزیر اعظم کہا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اگلے دو تین برسوں میں وہ پوری دنیا گھوم لیںگے۔وہ جب تک گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے انھیں کئی ممالک ویزا تک دینے کو تیار نہیں تھے مگر اب وزیر اعظم بنتے ہی ایسا لگتاہے کہ گویا ان کے پر لگ گئے ہیں اور ورلڈ ٹور پر نکل پڑے ہیں۔وزارت خارجہ کا کام کرنے میں وہ کچھ زیادہ ہی جوشیلے دکھائی دے رہے ہیں۔ انڈین ریلوے ایک اہم محکمہ ہے جو اکثر وبیشتر گڑبڑی کا شکار رہا ہے اور اس وقت اس کی حالت مزید بدتر ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ ریلوے بجٹ میں کوئی نیا پلان حکومت نے نہیں رکھا اور نہ ہی کوئی نئی ٹرین چلانے کا اعلان کیا گیا ،صرف یہ کہا گیا کہ اس کے سسٹم کو درست کرنے کا کام کیا جائے گا مگر اب تک کہیں کوئی درستگی نظر نہیں آرہی ہے۔ سبب ظاہر ہے کہ وزیر ریل کو بھی کام کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ وزیر دفاع منوہر پاریکر نے وزیر اعظم بننے میں مودی کی مدد کی تھی لہٰذا انھیں گوا سے نکال کر مرکزی میں لایا گیا مگر ان کی وزارت بھی کچھ خاص متحرک نہیں ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ ان کے وزیروں میں صرف ارون جیٹلی کے پاس اختیارات ہیں باقی کسی منتری کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔یہاں تک وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ تک بے دست وپا ہوگئے ہیں اور اپنی بے وقعتی پر اندر سے پریشان ہیں۔اس وقت تمام کام وزیر اعظم کے دفتر سے ہورہے ہیں اور تمام فائلیں یہیں سے آگے بڑھائی جا رہی ہیں مگر وزیر اعظم کا دفتر تمام وزارتوں کے کام سنبھالنے سے قاصر ہے۔

حاشیئے پر ڈالنے کی کوشش

    بی جے پی ایک قومی سطح کی پارٹی ہے اور اس میں بڑے بڑے لیڈرآج بھی موجود ہیں۔ خود مودی کی کابینہ میں کئی لیڈران ان سے سینئر ہیں اور تجربہ کار بھی۔ وہ مجبوری کے تحت خاموش ہیں اور ان کے ماتحت منتری بنے بیٹھے ہیں۔ سشما سوراج، راج ناتھ سنگھ اورارون جیٹلی مرکز میں سیاست کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ جن دنوں مودی نے پہلے پہل گجرات کے سی ایم کی کرسی سنبھالی تھی اس سے پہلے یہ لوگ دلی میں منترالیہ کی ذمہ داریاںسنبھال چکے تھے۔سشما سوراج ایک مدت تک لوک سبھا میں پارٹی کی لیڈر رہیں تو ارون جیٹلی راجیہ سبھا میں پارٹی کے لیڈر رہے۔ سچائی یہ ہے کہ اپنے لمبے سیاسی تجربے کی بنیادپر یہ بجا طور پر وزیر اعظم کی کرسی کے مودی سے زیادہ حقدار تھے ،مگر حالات کچھ ایسے تھے کہ یہ لوگ اپنی دعویداری نہیں پیش کرسکتے تھے۔ مودی نے انھیں منتری بھی بنایا تو خون کے گھونٹ پی کر، ورنہ وہ اسمرتی ایرانی جیسوں کو وزارتیں دیتے اور پوری سرکار کے خود مالک بنے رہتے ۔

     نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ بننے سے قبل وزارت کا تجربہ بھی نہیں رکھتے تھے مگر اچانک ان کے نام لاٹری کھل گئی اور پارٹی کی مرکزی لیڈر شپ نے انھیں گجرات کے وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری کے لئے منتخب کرلیا۔ انھیں وزیر اعلیٰ بنانے میں سب سے بڑا ہاتھ لعل کرشن اڈوانی کا تھا۔ دس سال سے زیادہ وہ وزیر اعلیٰ رہے اور اس کے بعد سیدھے ملک کے وزیر اعظم کی کرسی پر آبیٹھے۔ ان کے پاس ایک وزیر اعلیٰ کا تجربہ تھا اور اسی کا استعمال انھوں نے دلی میں بھی کرنا شروع کردیا۔ مودی نے گجرات میں اپنے مخالفین کو حاشیئے پر ڈالنے کا کام کیا تھا اور پوری سرکار پر خود قابض ہوگئے تھے۔ انھوں نے وزیر اعظم بننے کے بعد یہی کام کرنا شروع کردیا۔ ان کے اس طریقہ کار نے پارٹی کے سینئر لیڈران کو پریشان کردیا۔            

مہربانیوں کا صلہ

    نریندر مودی کو گجرات کا وزیر اعلی بنانے اور پھر ۲۰۰۲ء کے فسادات کے بعد ان کی کرسی بچانے میںلعل کرشن اڈوانی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔انھوں نے ڈوانی کو ان کی مہربانی کا صلہ یوں دیا کہ سب سے پہلے انھیں کو حاشیئے پر ڈالا۔ جو اڈوانی وزرات عظمیٰ کے دعویدار تھے وہ ’’مارگ درشک‘‘ قرار دیئے گئے۔ جس بی جے پی کو اڈوانی نے اپنے خون جگر سے سینچا تھا ،آج وہی بے وقعت ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہ بھی گجرات کے تجربے کے بعد ہی مودی نے کیا تھا۔ گجرات میں پارٹی کو کھڑا کرنے کا کام سنجے جوشی نے کیا تھا جو کہ آر ایس ایس کے بااثر لیڈر تھے اور وہاں سے پارٹی میں بھیجے گئے تھے۔ مودی نے انھیں حاشیئے پر ڈالا تھا اور پھر ان کے ایسے ایسے سیکس اسکینڈلس کو باہر نکالا کہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں بچے۔ جب نریندر مودی نے گجرات میں پارٹی اور سرکار پر قبضہ کرلیا تھا تو سنجے جوشی بالکل بے دست وبازو ہوگئے تھے۔ ٹھیک یہی حال مرکز میں اڈوانی کا ہوا، کہ انھیںمودی نے برف لگادیا۔حالانکہ مرلی منوہر جوشی اور دوسرے سینئر لیڈروں کو بھی کنارے لگادیا گیا۔ کچھ لیڈران کو تو گورنر بناکر کنارے لگایا گیا مگر بعض کو تو یہ خوش قسمتی بھی نصیب نہیں ہوئی۔ بہرحال مودی دلی میں بیٹھ کر اپنے پرانے تجربے کو دہرا رہے ہیں اور یہی تجربہ ان کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔ آج سرکار ، پارٹی یہاں تک کہ سنگھ میں بیٹھے لوگوں کو بھی خطرہ محسوس ہونے لگا ہے۔ یہ لاوا اندر اندر پک رہا ہے اور کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ آج یہ حالت ہے کہ جن صنعت کاروں نے ان کی مدد کی تھی اور جن میڈیا ہائوسیز نے مودی کے لئے ماحول بنایا تھا وہ بھی خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں ۔بددلی کا یہ ماحول کسی بھی طرح ان کے حق میں نہیں ہے اور اس نتائج بھی صحت بخش نہیں ہونگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 490