donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Nepal Me Tameer Ka Naam Par Takhreeb


نیپال میں تعمیر کے نام پر تخریب


  نیپال بنے گاہندو راشٹر یا کمیونسٹ ملک؟


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    نیپال ایک بار پھر آرایس ایس کے نشانے پر ہے۔ایک بارپھر اسے محسوس ہونے لگا ہے کہ اس ہمالیائی ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ جہاں ساری دنیا نیپال کی امداد انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کر رہی ہے وہیں سنگھ پریوار امداد کو بھی بھگوا رنگ دینے میں لگا ہوا ہے۔ آرایس ایس کے سینکڑوں رضاکار اس پڑوسی ملک میں پہنچ چکے ہیں اور اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ انسانی المیہ دنیا کے لئے ہمدردی کا موقع ہوسکتا ہے مگر سنگھ پریوار کے لئے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا موقع ہے۔ سنگھ پریوار کے لوگ یہاں جس قدر کام کر رہے ہیں اس سے زیادہ وہ سرگرم دکھائی دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسے ذہنی دیوالیہ پن نہیں تو کیا کہا جائے کہ ۲۰۰۱ء میں گجرات میں آئے زلزلوں میں آرایس ایس رضاکاروں نے جو کام کیا تھا، اس کی تصویریں اب سوشل میڈیا میں اچھالی جارہی ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ یہ نیپال کی تصویریں ہیں۔ بھارت سرکار کی طرف سے جانے والے امداد کی کمان آرایس ایس کے لوگوں نے سنبھال رکھی ہے اور دوسری طرف وشو ہندو پریشد نیپال کی مدد کرنے کی اپیل ہندتو کی بنیاد پر کر رہا ہے۔ حالانکہ اسی کے ساتھ بی جے پی کے لیڈران یہ کہتے ہوئے بھی سنے جارہے ہیں کہ راہل گاندھی،کیدار ناتھ گئے اسی لئے زلزلہ آگیا اور نیپال کو ہندو راشٹر سے ایک سیکولر ملک میں تبدیل کردیا گیا، اسی سبب یہاں اس قدر تباہی آئی ہے۔ اس قسم کی اول جلول باتیں صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو ذہنی طور پر معذور ہوچکے ہوں اور ان کے دماغ میں انسانیت کا معمولی اثر تک باقی نہ رہا ہو۔ آرایس ایس کی طرف سے بڑے پیمانے پر یہ کوشش جاری ہے کہ زلزلہ متاثرین کی مدد کے بہانے یہاں اپنی پیٹھ بنالیں اور نیپال کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے یہاں تحریک شروع کرادیں۔ حالانکہ دوسری طرف چین بھی کوشاں ہے کہ اس کے اثرات نیپال پر مرتب ہوں اور وہ اسے سرخ رنگ میں رنگنے میں کامیاب ہوجائے۔

نیپالی آرایس ایس

    نیپال میں وہاں کی کٹر وادی تنظیم ہندوسیوک سنگھ(ایچ ایس ایس) آر ایس ایس کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ماناجاتا ہے کہ ایچ ایس ایس ’’آر ایس ایس‘‘ کی ہی فوٹو کاپی ہے۔ آر ایس ایس کے شریک جوائنٹ سکریٹری دتاتریہ ہوسبولے، کئی سارے کارکنوں کے ساتھ نیپال پہنچ چکے ہیں اور زلزلہ متاثرین کی مدد کر رہے ہیں۔یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن جس طرح سے ٹی وی چیینلز اور سوشل میڈیا پر بی جے پی کے کچھ لیڈر اسے ’’نیپال فتح مہم‘‘ کے طور پر دیکھ رہے ہیں، اس سے سارے کئے دھرے پر پانی پھرنے کا خطرہ بنا ہوا ہے۔ادھربابا گرمیت سنگھ رام رحیم  نے عدالت سے پاسپورٹ دینے اور نیپال جانے کی اجازت مانگی ہے، تاکہ زلزلہ متاثرین کی مدد کر سکیں حالانکہ نیپال جانے کے لئے پاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ابھی کئی سادھو اور بابا ہمالیہ کی طرف سفر کریں گے۔ یہ لوگ سچ مچ مدد کے ارادے سے جائیں تو یہ انسانیت کے لئے بہت قابل ستائش کام ہوگا، لیکن ان کی طرف سے ’’سفارتی لکشمن ریکھا‘‘پار کئے جانے کا ڈر برابر بنا رہے گا۔ نیپال کے رجعت پسند ایسے ہی موقع کی تلاش میں ہیں کہ ذرا سی سیاست ہو، پھر ہندوستان کے خلاف پرچم اور ڈنڈا لے کر نکلا جائے اور آرایس ایس اسے ایسا موقع فراہم کراسکتا ہے۔

جھوٹا پروپیگنڈا اور آرایس ایس

    جہاں ایک طرف آر ایس ایس کے لوگ یہاں سرگرم ہوگئے ہیں اور ان خبروں کی تصدیق بھی خود انھیں کے ذرائع سے ہوچکی ہے، وہیں دوسری طرف اب چین کے خوف سے اس نے پہلو تہی کرنا بھی شروع کردیا ہے۔پہلے تو اپنے پرچار کے لئے اس نے گجرات زلزلہ۲۰۰۱ء کی تصویروں کا استعمال کیا مگر جب چین کی طرف سے اس کا نوٹس لیا گیا تو اس نے یہاں سرگرم ہونے سے صاف انکار کردیا۔ آر ایس ایس نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ ٹوئٹر اور فیس بک پر جو زلزلے میں کام کرتے رضاکاروں کی تصاویر کا اشتراک ہوا ہے ، وہ دراصل 2001 کے گجرات زلزلے کی ہیں۔غور طلب ہے کہ بی جے پی قومی مجلس عاملہ کی رکن شانا این سی نے ٹویٹ کیا تھا کہ میڈیا اس بات کی خبر نہیں دے گا کہ آر ایس ایس کے 20 ہزار ورکرز مدد کے لئے نیپال جا رہے ہیں۔اس ٹویٹ کو نہ صرف 400 سے زیادہ بار دہرایا گیابلکہ وائرل بھی ہو گیا۔ کچھ گھنٹوں بعد شانا نے سنگھ سے جڑنے پر فخر محسوس کرنے کا بھی ٹویٹ کیا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر اس بارے میں ہزاروں پوسٹ اور تصاویر شیئر ہوئیں۔بعد میں آر ایس ایس نے خود ٹویٹ کر بتایا کہ نیپال میں اس کے بھاری تعداد میں کارکنوں کے کام کرنے کی خبریں گمراہ کن ہیں۔ آر ایس ایس کا ٹویٹ تھا، دفاع کے کام کے لئے کارکنوں کے نیپال جانے کے بارے میں میڈیا اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ حالانکہ سنگھ نے قبول کیا کہ اس کی نیپالی شاخ ہندو ایس ایس کے ذریعے ہی کام کیا جائے گا۔ایچ ایس ایس کے ساتھ کام کرنے نیپال پہنچے سنگھ کے سینئر لیڈر دتاتریہ ہوسبولے نے کہا کہ ان خبروں میں کوئی سچائی نہیں ہے کہ آر ایس ایس نے نیپال میں کام کرنے کے لئے ورکرز بھیجے ہیں۔

وشو ہندو پریشد کی مدد ہندتو کے نام پر

    بہار کے گوپال گنج میں ایک سمیلن کے دوران وشوہندو پریشد کے لیڈر پروین توگڑیا نے نیپال کے ہندو متاثرین کی مدد کی اپیل کی اور کہا کہ یہاں ہندووں کا نقصان ہوا ہے لہٰذا ہندو بڑھ چڑھ کر امداد کریں۔ دوسری طرف خبروں کے مطابق وشو ہندو پریشد نے نیپال میں ڈاکٹر اور امدادی کارکن بھیجے ہیں۔ وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ونود بنسل نے بتایا کہ ہندو ہیلپ لائن اور انڈیا ہیلپ لائن کے تعاون سے نیپال میں مدد فراہم کرنے کے لئے ہیلتھ امبیسیڈرس کو مقرر کیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم پہلے ہی نیپال پہنچ چکی ہے۔اس کے مینیجر گوری شنکر شرما نے کہا، ہم نے نیپال کے مختلف حصوں میں دوائیں بھیجنے کے لئے دو الگ الگ جماعتیں بھیجی ہیں۔ ضرورتمندوں کے علاج کے لئے احمد آباد اور ممبئی سے سرجن اور آرتھوپیڈس کو نیپال بھیجا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ گھریلو ضرورت کے سامان لے کر 20 گاڑیاں نیپال میں داخل ہوچکی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا،کل 150 کارکنوں کو نیپال بھیجا گیا ہے۔

نیپال میں زلزلہ کے لئے راہل ذمہ دار

    بی جے پی کے ممبرپارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے ایک بار پھر متنازعہ بیان دیتے ہوئے زلزلہ کے لئے راہل گاندھی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے نیپال میں آئے خوفناک زلزلے کو راہل گاندھی کی کیدار ناتھ یاترا سے جوڑ دیا۔ ہریدوار میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انھوںنے کہا کہ راہل گاندھی پوترکیدار ناتھ مندر بغیر پاک ہوئے آئے تھے۔ادھروی ایچ پی کی عہدیدار سادھوی پراچی نے بھی کچھ ایسا ہی کہا۔ پراچی نے کہا، راہل گاندھی جب جب اتراکھنڈ گئے ہیں تب تب تباہی آئی ہے۔ اس سے پہلے بھی راہل اتراکھنڈ گئے تھے تب بھی تباہی آئی تھی۔ اس بار وہ نیپال میں آئے زلزلے کے لئے ذمہ دار ہیں۔

کانگریس کا جواب

    راہل پر ساکشی مہاراج کے تبصرہ کو لے کر کانگریس نے سخت اعتراض جتایا ہے۔ کانگریس نے کہا کہ حکمراں پارٹی انسانی المیہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہی ہے۔ پارٹی ترجمان سشمتا دیو نے کہا کہ بی جے پی کا رویہ انتہائی بدبختانہ ہے۔ سشمتا نے کہا کہ بی جے پی لیڈر انسانی المیہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہے ہیں۔انھوں نے کہا، اگر میڈیا رپورٹ صحیح ہے تو بی جے پی لیڈر ساکشی مہاراج جنہوں نے خواتین کو 10 بچے پیدا کرنے کے لئے کہا، جو مہاتما گاندھی کے قتل کو جائز ٹھہراتے ہیں،اب انسانی المیہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہے ہیں۔دیو نے کہا کہ ساکشی مہاراج نے ایسا کہہ کر نہ صرف بھگوان کیدار ناتھ کے شردھالووں کو نیچا دکھایا ہے بلکہ زلزلے سے متاثرین کو بھی گہرا دکھ پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اچھا ہوگا کہ وزیر اعظم اور امت شاہ اپنے بے لگام رہنماؤں پر لگام کسیں۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس ساکشی مہاراج کے خلاف امت شاہ سے کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے۔

تباہی پر سنگھ پریوار کی سیاست

    اس وقت نیپال ہندو راشٹر نہیں ہے۔ یہ بھی لوگ جانتے ہیں کہ قدرتی مصیبتیں مندر، مسجد، چرچ منتخب کر کے نہیں آتی ہیں۔نہ ہی قدرتی تباہیاں مذہب، ذات اور قوم میں تفریق کرتی ہیں لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار کے رہنما تباہی پر بھی سیاست کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔بہار کے گوپال گنج میں پچھلے دنوںایک وراٹ ہندو اجتماع تھا، جہاں وشو ہندو پریشد کے بین الاقوامی ورکنگ صدر پروین توگڑیا نے بیان دیا کہ نیپال میں سب سے زیادہ ہندوؤں کا گھر اجڑا ہے، لہذا دولت جمع کریں اور نیپال بھیجیں۔توگڑیا نے اعلان کیا کہ زلزلہ میں مرنے والے ہندوؤں کے بچوں کو وشو ہندو پریشد اپنی پناہ میں لے گی اور ان کی مفت تعلیم کا انتظام کرے گی۔توگڑیا کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے صحافی پشپ رنجن سوال اٹھاتے ہیں’’ ایسا ہی بیان کوئی شدت پسند مسلمان دے تو کیا ہوگا؟ اگر ویٹیکن سٹی کی جانب سے صرف نیپال کے عیسائیوں کے لئے مدد کا اعلان ہو تو کیسا لگے گا؟ ابھی برطانیہ کی 'عیسائی ایڈ' نامی تنظیم دس لاکھ پونڈ کی مدد نیپال بھیجے گی، لیکن اس کے منتظمین نے یہ نہیں کہا کہ یہ رقم صرف نیپالی عیسائیوں کے لئے ہے۔یہ المناک ہے کہ وشو ہندو پریشد کے لیڈر بین الاقوامی سانحہ کو بھی مذہب کے چشمہ سے دیکھ رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ پروین توگڑیا نے جو کچھ نیپال کے بارے میں کہا، اس سے کیا عام ہندوستانی متفق ہیں؟ ‘‘

    سنگھ پریوار کو ان غیرملکی سیاحوں سے سبق لینا چاہئے جو اس تباہی کے وقت نیپال میں تھے۔جو کل تک نیپال کے پانچ ستارا ہوٹلوں میں عیش کر رہے تھے، وہ بیلچہ، کدال، اور ٹوکری لے کر ملبہ ہٹا رہے تھے۔ ان کا آشیانہ کھلا آسمان، یا پھر رسی کے سہارے تنے پلاسٹک شیٹس بن گئے تھے۔ ملبے میں دبے لوگوں میں ان کے رشتہ دار یا ہم مذہب نہیں تھے بلکہ عام نیپالی تھے مگر انھوں نے پہلی فلائٹ سے بھاگنے کے بجائے صرف انسانی بنیاد پر ہاتھوں میں کدال اور بیلچے اٹھا لئے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ

آدمیت، جذبہ ایثار ہونا چاہئے
آدمی کو آدمی سے پیار ہونا چاہئے   

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 532