donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Rajasthan Ki Wazeer Aala Ke Mamle Me Be Naqab Sangh Pariwar


  راجستھا ن کی وزیراعلیٰ کے معاملے میں بے نقاب سنگھ پریوار


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا اور للت مودی کے تعلقات ان دنوں سوالوں کے گھیرے میں ہیں۔ یہ سوال پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اٹھائے جارہے ہیں مگر جواب نہ تو وسندھرا کے پاس ہے اور نہ ہی وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس۔ نہ بی جے پی جواب دے پارہی ہے اور نہ سنگھ پریوار۔خود کو بے داغ پارٹی قرار دینے والی بی جے پی اور دنیا کو اخلاقیات کا پاٹھ پڑھانے والے آر ایس ایس کو بھی کچھ کہتے نہیں بن رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ للت مودی کے ساتھ وسندھراکے تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟ کیا وہ دونوں بزنس پارٹنر ہیں یا ان کے رشتے اس سے بھی آگے کے ہیں؟ کیا واقعی للت مودی نے دشینت کے ہوٹل میں سرمایہ کاری کی ہے؟ کیا للت مودی اور وسندھراآپس میں مل کر بہت سے غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام انجام دیتے رہے ہیں؟ کیا دونوں نے ایک دوسرے کی مدد سے بہت سی جائیداد بنائی ہے؟ کیا اب وقت آگیا ہے کہ دونوں کے تعلقات کی جانچ ہو، اور سچائی ملک کے سامنے لایا جائے؟ اس وقت یہ اور اس جیسے بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں حالانکہ یہ تنازعہ شروع ہوا تھا، اس بات سے کہ وسندھرا نے حکومت برطانیہ کے سامنے للت مودی کی پیروی کی تھی اور وہاں کے کورٹ کے سامنے ایک حلف نامہ دے کر مودی کی حمایت کی تھی۔ انھوں نے یہ بھی گزارش کی تھی کہ اس حلف نامے کو راز میں رکھا جائے اور اس کی جانکاری بھارت سرکار کو نہ دی جائے۔ گویا جس وقت وہ یہ حلف نامہ دے رہی تھیں انھیں معلوم تھا کہ وہ غلط کر رہی ہیں۔للت مودی بھگوڑے ہیں اور ان کی مدد کرنا کوئی دیش بھکتی کی بات نہیں ہے۔انھوں نے جس طرح سے مودی کی مدد کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان دونوں کے رشتے معمول کے نہیں بلکہ غیر معمولی ہیں۔ للت مودی اپنی رنگیلی لائف کے لئے مشہور ہیں تو وسندھرا راجے بھی ابتدائی دور میں ہی اپنے شوہر سے الگ ہوگئی تھیں۔ اس کے بعد دونوں کے بیچ ایک زمانے سے بزنس کے تعلقات کی بات سامنے آتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ پرتگال کے جس اسپتال میں للت مودی کی بیوی کا علاج چل رہا تھا اس کی مدد سے راجستھان میں کینسر اسپتال کھولا جارہا ہے اور بیچ میں للت مودی تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ دوہرا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ایک طرف تو سرکار سگریٹ اور بیڑی پر ٹیکس بڑھا کر کمائی کر رہی ہے تو دوسری طرف اس سے ہونے والے کینسر سے اسپتال کے لئے مریض جٹانے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ ان تمام سوالو ں کے بیچ اب ایک نیا تنازعہ وسندھرا اور للت مودی سے جڑگیاہے اور وہ ہے کہ دھول پور محل کا۔

دھول پور محل تنازعہ  

    آئی پی ایل کے سابق کمشنر للت مودی کی مدد کرنے کو لے کر سیاسی بھنور میں پھنسی وسندھرا راجے اب دھول پور محل تنازعہ میں بھی بری طرح گھر گئی ہیں۔ راجستھان کے دھولپور محل پر ناجائز قبضہ کرنے کا کانگریس نے الزام لگایا ہے۔کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے وسندھرا راجے پر غیر قانونی قبضہ کرنے اور ان کے بیٹے دشینت سنگھ پر سرکاری زمین کے بدلے معاوضہ لینے کا الزام لگایا ہے۔انہوں نے کہا کہ 1949 کے دستاویز بتاتے ہیں کہ یہ محل ایک سرکاری جائیداد ہے، لیکن وسندھرا راجے کے بیٹے کی کمپنی نے اس سرکاری املاک پر ایک عالیشان ہوٹل بنا دیا، جس میں للت مودی کا پیسہ لگا ہوا ہے۔کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے وسندھرا اور للت مودی کے درمیان کاروباری تعلقات کی بات کہی ہے اور کہا کہ وسندھرا نے قریب 100 کروڑ روپے کی سرکاری املاک جس میںمحل بھی شامل ہے، کا ذاتی استعمال کیا گیاہے۔جے رام رمیش کے مطابق اس ہیرا پھیری میں وسندھرا کے بیٹے دشینت بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں نے للت مودی کے ساتھ مل کر حکومت کو کروڑوں کا چونا لگایا ہے۔کانگریس لیڈرکا الزام ہے کہ بھگوڑے للت مودی اور وزیر اعلی وسندھرا راجے کے درمیان لین دین رہا ہے اور دونوں بزنس پارٹنر ہیں۔ ان کے مطابق غیر قانونی طریقے سے ماریشس سے ایک فرضی کمپنی کے ذریعے 22 کروڑ روپے آئے اور اس میں سے 11 کروڑ کی سرمایہ کاری کی گئی۔رمیش نے بتایا کہ 10 اپریل 1954 کو دھولپور ریاست کا ہندوستانی یونین میں انضمام ہوا،اور 1977 میں محل کو سرکاری جائیداد اعلان کیا گیا لیکن وسندھرا اور للت مودی نے مل کر 100 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کر اسے لگزری ہوٹل میں تبدیل کر دیا۔کانگریس لیڈر نے دعوی کیا کہ دھولپور محل سرکاری ہونے کے باوجود دشینت نے غیر اخلاقی طریقے سے 2 کروڑ کا معاوضہ لیا تھا اور اسے لے کر 10 اپریل 2013 کو سی بی آئی نے دو لوگوں کے خلاف شکایت بھی درج کی تھی۔غور طلب ہے کہ راجہ(دشینت کے دادا) اور حکومت ہند کے بیچ ہوئے معاہدے کے مطابق راجہ کی زندگی تک ہی اس پر ان کا مالکانہ حق ہوسکتا تھا،ا سکے بعد یہ سرکار کی جائیداد ہوجاتا مگر باوجود اس کے ایسا نہیں ہوا اور اب اسے ہوٹل میں تبدیل کرکے وزیر اعلیٰ کے بیٹے موٹی کمائی کر رہے ہیں۔ یہ محل آگرہ سے قریب ہے جس کی وجہ سے اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔دوسری طرف بی جے پی نے پریس کانفرنس میں کچھ کاغذات پیش کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ دھولپور محل دشینت کی ملکیت ہے اور یہ انہیں ان کے والد سے ایک قرار کے بعد ملا تھا۔

وسندھرا کی خاموشی

    وسندھرا اور للت مودی کے رشتوں پر روز ہو رہے نئے نئے انکشافات میں بی جے پی کو جواب دینا مشکل ہو رہا ہے، لیکن وزیر اعلی وسندھرا راجے اس پورے معاملے پر منہ کھولنے کو تیار نہیں ہیں۔انہوں نے پورے معاملے پر طویل خاموشی اختیار کر لی ہے۔ہاں، اس رسہ کشی میں اپنے بیٹے کا نام آنے پر وسندھرا نے ضروراپنے سپاہیوں کو آگے کر ان کے دفاع کا پختہ بندوبست کیا ہے۔ اپوزیشن کانگریس ریاست اور مرکز میں وسندھرا اور ان کی حکومت پر خوب جم کر حملہ کر رہی ہے لیکن وسندھراخاموش ہیں۔اس خاموشی کا سبب کیا ہے؟ کیا ان کے پاس اپنے دفاع کے لئے کچھ بھی نہیں ہے؟یا وہ ان سوالوں کو لائق توجہ نہیں سمجھتیں جو ان کے بارے میں اٹھ رہے ہیں؟ ماہرین کا خیال ہے کہ اس میں پہلی بات زیادہ صحیح لگتی ہے۔ ورنہ جس وقت ان کی کرسی خطرے میں ہے وہ خاموش کیسے رہ سکتی ہیں۔البتہ وہ اپنے بیٹے کو اس آگ کی تپش سے بچانا چاہتی ہیں اور ان کے دفاع میں اپنے سیناپتیوں کو آگے کر رہی ہیں۔گوالیار کے راج گھرانے سے تعلق رکھنے والی وسندھرا نے اپنی زندگی کافی مشکلات اور تنہائی میں گزارا ہے لیکن انہوں نے اپنے بیٹے دشینت کو زندگی میں کسی طرح کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنے دیا۔

خاندانی پس منظر

    وسندھرا راجستھان کے ایک راج گھرانے کی بہو بن کر یہاں آئی تھیں مگریہ رشتہ زیادہ دن نہیں چل پایا اور جس وقت ان کے بیٹے دشینت پیٹ میں تھے تبھی وسندھرا کی اپنے شوہر سابق مہاراجہ ہیمنت سنگھ سے علاحدگی ہو گئی تھی۔ بیٹے کو جنم دینے کے بعد اس کی پرورش اور دیکھ بھال وسندھرا نے ہی کی۔ اسی کے ساتھ انھوں نے سابق شوہر ہیمنت سنگھ سے دشینت کا حق دلانے کے لئے طویل قانونی جنگ لڑی۔یہ جنگ ایسی تھی جس میں ایک طرف ہیمنت سنگھ اور ان کا پورا خاندان تھا جبکہ دوسری طرف وسندھرا اپنے بیٹے کے ساتھ اکیلی تھیں۔ اس لڑائی میں ان کا ساتھ دیا راجے کی ماں اور بی جے پی لیڈروجے راجے سندھیا نے۔ اس کے کے بعد بیٹے دشینت کو راجستھان، آگرہ اور شملہ کی کئی جائیدادوں پر قانونی حق مل گیا۔شوہر سے علیحدگی کے بعد اکیلی رہ رہی وسندھرا نے بیٹے کی اچھی پرورش کو ہی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔یہی وجہ رہی کہ انہوں نے دشینت کو بچپن میں پڑھنے کے لئے دون اسکول بھیج دیا۔

یہ کالا دھن تو نہیں؟

    حال ہی میں اس بات کا بھی انکشاف ہواہے کہ ماریشس کی ایک نا معلوم کمپنی نے للت مودی کی کمپنی کو۲۱ کروڑ روپئے دیئے تھے جس میں سے کچھ پیسہ وسندھرا کے بیٹے دشینت کی کمپنی کو گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسے پیسے تھے؟ کہاں سے آئے تھے؟ کس نے دیئے تھے؟ کیا یہ کالادھن تھا جسے ماریشس کے راستے سفید کرنے کی کوشش کی گئی تھی؟ کیا نریندر مودی جس کالے دھن کو ایشو بناکر اقتدار میں آئے ہیں، وہی کالادھن ان کی اپنی پارٹی کے لوگوں کے بیچ بھی موجود ہے؟غور طلب ہے کہ یہ ادائیگی اپریل 2008 میں 3.80 کروڑ روپے کے غیر محفوظ لون کے ذریعے کی گئی تھی اور بعد میں دو قسطوں میں 815 شیئرزحاصل کئے گئے تھے۔ مجموعی طور 11.63 کروڑ روپے مودی نے دشینت کی فرم میں قرض اور حصص کی خریداری کے ذریعے منتقلی کئے تھے۔ یہ لین دین اس وقت کیا گیا تھا، جب راجستھان کی وزیر اعلی کے طور پر راجے کا پہلا دور تھا۔ اس لین دین نے تفتیش کاروں کی توجہ اپنی طرف متوجہ کیا۔ مودی نے 10 روپے قیمت کے 815 حصص کو 96 ہزار 180 روپے فی شیئر کے پریمیم میں خریدا تھا۔ اس کے لئے انہوں نے 7.80 کروڑ روپے کی ادائیگی کی تھی۔

سنگھ پریوار کے گلے کی ہڈی

    للت مودی۔وسندھرا معاملے میں آئے دن انکشافات ہورہے ہیں اور نئی نئی باتیں سامنے آرہی ہیں۔ ممکن ہے آگے بھی اس سلسلے میں کچھ حقائق سامنے آئیں مگر اصل بات یہ ہے کہ یہ معاملہ صرف بی جے پی ہی نہیں بلکہ پورے سنگھ پریوار کے لئے ٹیڑھی کھیر بنتا جارہا ہے۔ اپوزیشن نریندر مودی سے بار بارکہہ رہا ہے کہ وہ اس معاملے میں منہ کھولیں اور جواب دیں مگر وہ چپ ہیں۔ بی جے پی کے جتنے بھی ترجمان سامنے آتے ہیں وہ میڈیا کے سوالوں کے جواب نہیں دے پاتے اور بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ حالانکہ جب ابتدا میں وسندھراکا نام للت مودی کے ساتھ آیا تھا تو ان کے دفاع میں بی جے پی ہی نہیں بلکہ آرایس ایس بھی آگیا تھامگر اب تو سب کو سانپ سنگھ گیا ہے اور کوئی بھی کچھ نہیں کہہ پارہا ہے۔ یہ معاملہ نریندر مودی کے اس وعدے کے خلاف بھی ہے جو انھوں نے انتخابی جلسوں میں کہا تھا کہ ’’نہ کھائیں گے اور نہ کھانے دینگے‘‘ مگر راجستھان میں جو کہانی سامنے آرہی ہے ، وہ اس سے الگ ہے۔ بہرحال مودی سرکار اوربی جے پی دونوں پر دبائو بڑھتا جارہا ہے کہ وسندھرا کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹایا جائے اور ان کے معاملے کی غیرجانبدرانہ جانچ کرائی جائے ، دیکھنے کی بات ہوگی کہ سنگھ پریوار کب تک اس دبائو کو جھیلتا ہے۔   

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 518