donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Teesri Sinf Ke Achhey Din Aane Lage Hain


تیسری صنف کے اچھے دن آنے لگے ہیں


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کوئمبٹور کی 32 سالہ پدمنی پرکاش ملک کی پہلی ٹرانسجینڈر نیوز اینکر ہیں اور انہیں ٹی وی پر بطور نیوز اینکر کام کرتے ہوئے ایک سال سے زیادہ ہوچکا ہے جب کہ کلکتہ کی مانبی بندوپادھیائے بھارت میں کسی کالج کی پہلی ٹرانسجنڈر پرنسپل ہیں۔ ان دونوں نے جو مقام پایا ہے اپنی جدجہد سے پایا ہے۔ اس کے لئے وہ مبارک باد کی مستحق ہیں اور دوسروں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ روزانہ شام کو سات بجے کیمرے کے سامنے آتے ہی شاندار طریقے سے تمل زبان میں نیوز پڑھنے والی پدمنی انتہائی مقبول ہیں اور لوگ بھی ان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ پاتے۔ پدمنی پرکاش اپنے کام سے بہت خوش ہیں کیونکہ اسی کی وجہ سے وہ ایک معزز زندگی گزار پا رہی ہیں۔وہ کہتی ہیں’’جب میں مارکیٹ جاتی ہوں تو لوگ میرے ساتھ فوٹو کھنچواتے ہیں، میرے کام کی تعریف کرتے ہیں لیکن ایک سال پہلے تک ایسا کچھ نہیں تھا۔پدمنی پرکاش نے بتایا کہ سال بھر پہلے ایک ہجڑا ہونے کے ناطے انہیں طعنے سننے پڑتے اور ذلت برداشت کرنی پڑتی تھی۔عام لوگ ہمیشہ ہمیں جنسی کارکن یا بھکاری ہی سمجھتے ہیں اور جب میں اینکر بننے کے لئے آئی تب بھی مجھ سے کہا گیا تھا کہ اینکر بننا تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔پدمنی بتاتی ہیں کہ انہیں باہر تو لوگوں کا مذاق برداشت کرناہی پڑتا تھا ،ساتھ ہی خاندان میں بھی ان کا تعاون نہیں کیا جاتا تھا۔13 سال کی عمر میں گھر چھوڑنے والی پدمنی کہتی ہیں، "ایک ہجڑا ہونے کے سبب مجھے اسکول نہیں بھیجا گیا تھا، پھر میرے والدین چاہتے تھے کہ میں لڑکا بن کر رہوں لیکن اندر سے میں ایک لڑکی تھی۔خاندان اور معاشرے سے تنگ آکر پدمنی ممبئی آ گئیں اور پھر دو سال بعد جب وہ واپس آئیں تو انہوں نے اکیلے زندگی جینے کی ٹھان لی ۔ پدمنی کے مطابق خودکشی ایک ایسی تجویز ہے جو ہر ہجڑا کے دماغ میں آتی ہے۔وہ کہتی ہیں’’سماج اور خاندان آپ کواتنا تنگ کرتا ہے کہ آپ خود کو الگ ماننے لگتے ہیں۔‘‘ پدمنی نے کہا، میں اکیلی پڑ گئی تھی اور تب میں نے خود کشی کرنے کی کوشش کی لیکن اس وقت میرے بوائے فرینڈ نے جو کہ اب میرے شوہر بھی ہیں انہوں نے میرا پورا ساتھ دیا۔18 سال کی عمر میں تبدیلی ٔ جنس کی سرجری کروا کر پدمنی مکمل طور پر عورت بن چکی ہیں اور انہوں نے ایک چھوٹے لڑکے کو گود بھی لیا ہے۔ٹی وی نیوز اینکر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک بھرت ناٹیم رقاصہ بھی ہیں اور انہوں نے ایک تمل سیریل میں اداکاری بھی کی ہے۔پدمنی کہتی ہیں’’آج خاندان، عزت، احترام اور شہرت ہے میرے پاس لیکن باپ اور خاندان سے نہ مل پانے کا دکھ ہمیشہ رہے گا‘‘پدمنی کا خاندان کوئمبٹور میں ہی رہتا ہے لیکن اتنی شہرت کے بعد بھی ان کے والد آج بھی انہیں قبول نہیں پائے ہیں، پدمنی کے ’نارمل‘خاندان میں ایک 'ہجڑا' کے لئے جگہ بالکل نہیں ہے۔

 تیسری جنس کے لئے مشعل راہ

    تیسری جنس کے لوگوں کے ساتھ انصاف کب ہوگا؟ کیا مخنث ہمارے ملک میں برابر کے شہری نہیں ہیں؟ کیا تبدیلی جنس کرانے والے اور ہم جنس پرست کے حقوق ہمارے ملک میں محفوظ ہونگے؟ کیا ملک کی پہلی عنین پرنسپل مانبی بندو پادھیائے اس ملک میں تبدیلی جنس کرانے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہونگی؟ آخر سپریم کورٹ کے حکم کے بعد بھی کیوں نہیں رک رہا ہے اس طبقے کے ساتھ بھید بھائو کا سلسلہ؟ یہ سوالات اس وقت تازہ ہوگئے جب میڈیا میں خبر آئی کہ مغربی بنگال کی حکومت نے ایک ٹرانسجینڈر کو ایک کالج کی پرنسپل بنا دیا۔ حالانکہ یہ خبر حوصلہ افزا بھی تھی کہ اس طبقے کے ساتھ جاری بھید بھائو ختم کرنے میں اس قدم سے مدد ملے گی۔ہمارے سماج میں آج بھی ہجڑوں اور تبدیلی جنس کرانے والوں کو عجیب وغریب نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ان کے ساتھ غیرمساوی سلوک کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ جیسے بھی ہیں اسی خالق کی مخلوق ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ یہ لازم ہے کہ انھیں اللہ نے جیسا بنایا ہے اسی روپ میں قبول کیا جائے۔آج یہ سماجی طور پر اس قدر پسماندہ ہیں کہ اپنے روز مرہ کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے انھیں بھیک مانگنا پڑتا ہے اور بچوں کی پیدائش وغیرہ کے موقع پر ناچ گاکر گزارا کرنا پرتا ہے۔ ان کی طرف سے بعض ایسی حرکتوں کی شکایت بھی ملتی ہے جو غیرانسانی اور غیر اخلاقی ہیں مگر اس کے لئے ان کی تعلیمی اور سماجی پسماندگی ذمہ دار ہے۔ ہمارا قانون بھی ان کے ساتھ برابری کا برتائو نہیں کرتا جس کے سبب انھیں کئی قسم کے شہری حقوق سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں انھیں تیسری صنف تسلیم کیا ہے اور تمام سرکاری کاغذات میں تیسری صنف کا خانہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ماضی میں انھیں ووٹ ڈالنے تک کا حق نہیں تھا کیونکہ ان کی جنس طے نہیں تھی، ان کا اسکولوں اورکالجوں داخلہ نہیں ہوپاتا تھایہاں تک کہ مدھیہ پردیش اسمبلی کے منتخب ہونے والی پہلی ممبر شبنم موسی کو صرف اس لئے ناقابل قرار دیا گیا کہ اس نے نامزدگی کے کاغذات میں خود کو عورت لکھوایا تھا اور جب معاملہ کورٹ میں گیا تو وہ خود کو عورت ثابت نہیں کرسکی۔حالانکہ اسے مرد بھی ثابت کرنا ممکن نہیں ہوا ۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ فارم میں تیسری صنف کا خانہ ہی نہیں تھا۔ بہرحال اب سپریم کورٹ کے حکم کے بعد یہ خانہ بھی بن گیا ہے اور ہجڑوں کو بھی ووٹ ڈالنے کا حق مل چکا ہے۔

پہلی عننین پرنسپل

     مغربی بنگال کی حکومت نے ایک ایسی خاتون کو ریاست میں ایک کالج کا پرنسپل مقرر کیا ہے جو کچھ سال قبل تک مرد تھی مگر اب تبدیلی جنس کے نتیجے میں عورت بن چکی ہے۔ حکومت کی اس پہل کو ہجڑوں، تبدیلی جنس کرانے والوں کو مضبوط بنانے کی سمت میں اٹھایا گیا بڑا قدم مانا جا رہا ہے۔ یہ ملک میں اپنی طرح کا پہلا معاملہ ہے۔مانبی بندوپادھیائے نام کی اس ٹرانسجنڈرکوکرشانگر وومین کالج کی پرنسپل مقرر کیا گیا ہے۔ وہ اس سے قبل ریاست کے وویکانند ستووارشی کالج میں ایسی ایٹ پروفیسر تھیں۔کلکتہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رتن لال کا کہنا ہے کہ وہ ایک قابل ایڈمنسٹریٹر اور اچھی انسان ہیں۔اس سے پورے ہندوستان میں تیسری صنف کو مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔ واضح ہوکہ جس کالج میں مانبی کو پرنسپل مقرر کیا گیا ہے، وہ کلکتہ یونیورسٹی سے ہی منسلک ہے۔اس سال پریسیڈنسی یونیورسٹی اور جادو پور یونیورسٹی نے اپنے داخلہ فارم میں تیسری صنف کا خانہ بھی شامل کیا ہے۔مانبی نے حال ہی میں ایک فیشن شو میں بھی حصہ لیا اور غریب وبے سہارا بچوںکے ساتھ ریمپ واک کیا۔

مانبی کا اندازِ مستانہ

    آپ نے اکثر ماڈل اور فلمی شخصیات کو ریمپ پر چلتے دیکھا ہو گا، لیکن کلکتہ میں ایک انوکھے فیشن شو میں ملک کی پہلی ٹرانسجنڈر پرنسپل نے بے سہارا بچوں کے ساتھ ریمپ واک کیا۔سرخ اور سنہری رنگ کی ساڑی پہنے مانبی بندوپادھیائے اس تقریب میں موجود تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز رہیں۔ اگرچہ اس تقریب میں کئی اور ہستیاں موجود تھیں لیکن سب کی نگاہیں ملک کی پہلی عننین پرنسپل مانبی پر ہی ٹکی ہوئی تھیں۔ پرنسپل مقرر کئے جانے سے پہلے وہ وویکانند ستووارشی کالج میں بنگالی کی پرنسپل تھیں۔ انہیں مغربی بنگال میں تبدیلی جنس کرانے والوں کی ترقی کے لئے نئی پالیسیاں بنانے کے لئے West Bangal Transgenedar Development Boardکا نائب صدر بھی مقرر کیا گیا ہے۔مانبی کی پیدائش کولکتہ کے مضافات میں واقع نئی ہٹی علاقے کے ایک روایتی مڈل کلاس بنگالی خاندان میںہوئی تھی اور ان کا نام سومناتھ رکھا گیا تھا۔انھیں جلد ہی احساس ہوگیاکہ وہ مرد کے جسم میں قید ایک خاتون ہیں، اس لئے ایک دہائی پہلے انہوں نے اپنی جنس کی تبدیلی کا آپریشن کرا لیا۔فی الحال انہیں اپنے ساتھیوں کے درمیان قابل منتظم کے طور پر جانا جاتا ہے اور سال 2013 میں انہوں نے مشہور ریئلٹی ’’شو بگ باس‘‘ کے بنگالی ایڈیشن میں حصہ لیا تھا۔ انہوں نے ایک لڑکے کو گود لیا ہے، جس کا نام دیباشش ہے۔

اس رات کی صبح کب ہوگی؟

    چند ماہ قبل ہی قومی سطح پر ٹرانسجینڈر افراد کے حقوق کو محفوظ کرنے کے لئے ایک بل کو راجیہ سبھا سے منظور کیا گیاتھا۔ 45 سال میں پہلی بار راجیہ سبھا میں متفقہ طور پر ایک ذاتی بل منظور کیا گیا ہے۔ اس بل میں مذکورہ کمیونٹی کے لئے ایک قومی کمیشن اور ریاست سطحی کمیشن بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔تبدیلی جنس کرانے والوں اورہجڑوں کو ہمارے ملک میں ’’تیسری جنس‘‘ کے طور پر آئین میں تسلیم کیا جاچکا ہے، لیکن اب بھی سماج میں ان کی حالت میں کوئی خاص بہتری نہیں آیا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تیسری جنس کمیونٹی اقتصادی اور سماجی سطح پر پسماندہ ہے۔ اسے اب بھی کمترسمجھا جاتا ہے اور نظرانداز کیا جاتا ہے۔اس کے تئیں سماج کی اسی سوچ کے مدنظرملک میں ہجڑوں کی یونین بنی ہے اور ٹرانسجینڈرس کی ایسوی ایشن ہے۔’’ایسوسیسن آف ٹرانسجینڈرس‘‘ کی کارکن رنجیتا سنہا کہتی ہیں کہ سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے سے سماج میں ہماری حالت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ عوام کا ہمارے ساتھ سلوک نہیں بدلا ہے، کیونکہ سوچ ایک دن یا ایک سال میں نہیں بدلتی۔ ضرورت ہے لوگوں کے نقطہ نظر کو تبدیل کرنے کی۔رنجیتا کی یہ باتیں اس تلخ حقیقت کی طرح ہیں، جسے سماج جانتا تو ہے لیکن منظور نہیں کرنا چاہتا۔ ہمیں روز مرہ کی زندگی میں ایسے بہت سے لوگوں کی مثال دیکھنے کو ملیگی، جو ہجڑوں کو دیکھتے ہی ناک بھوں سکوڑ لیتے ہیں۔ملک میں ہجڑا کمیونٹی کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کرنے والی لکشمی نارائن ترپاٹھی نے بتایاکہ قصور آنکھ کا نہیں، نقطہ نظر کا ہے۔ لوگوں کو نظریہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ جس دن یہ بدل گیا، تمام پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔ مخنث ریشما کہتی ہیں کہ اچھا لگتا ہے، جب سالانہ ’’یوم مخنث‘‘ منایا جاتا ہے۔ اس سے معاشرے میں ہمارے وجود کا پتہ چلتا ہے۔ اس سے خوشی ملتی ہے۔ پریم لتا کا خیال ہے کہ تیسری صنف کے افراداقتصادی اور سماجی طور پر پسماندہ ہیں۔انہیں معاشرے میں ہر سطح پر ریزرویشن دینا چاہئے۔مثلا، اسکولوں، کالجوں میں ان کی تعلیم شروع کرنے سے لے کر ملازمتوں تک میں ریزرویشن کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ، عوامی مقامات اور دفاتر میں ہمارے لئے الگ سے بیت الخلا بنانے کا مسئلہ ہم کئی سالوں سے اٹھا رہے ہیں، لیکن ابھی تک اس پر کوئی توجہ نہیں دیا گیا۔ اس سمت میں حکومت اور ملک کے نظام کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے رنجیتا کہتی ہیں کہ میزورم سمیت کچھ شمال مشرقی ریاستوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں ہجڑے ا نہیں ہیں۔ یہ مکمل طور پر نوکرشاہی کی غلطی ہے۔ سپریم کورٹ میںہجڑوں کو تیسری جنس کا درجہ دینے کے لئے درخواست دائر کرنے والی ہجڑاکارکن گوری ساونت نے بھی ان کی ترقی کی سمت میں کئی ٹھوس پالیسیوں کا حوالہ دیا ہے۔وہیں، دہلی میںمخنث یونین چلانے والی ایک مخنث کا کہنا ہے کہ بھلے ہی بھارت ،ہجڑاکمیونٹی کو تیسری جنس کا درجہ دینے والا پہلا ملک بن گیا ہو لیکن اب بھی دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے بھارت میں ان کی حالت قابل رحم ہے۔ان کی قابل رحم حالت پر سوامی اگنی ویش کا کہنا ہے، خواجہ سرا کمیونٹی کے لوگ رقص میں ماہر ہوتے ہیں، اس لئے اس میدان میں اگر انہیں صحیح تربیت دی جائے تو یہ بہتر کام کر اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ رنجیتا سنہا کہتی ہیں کہ جس طرح سے خواتین کمیشن خواتین سے متعلق معاملات اور مسائل پر نظر رکھتا ہے، اسی طرح ہجڑا کمیشن بھی ہونا چاہئے۔انہوں نے سیاست میں ہجڑوں کی شرکت کی بھی بات کہی کہ جب تک سیاست میں ان کو جگہ نہیں ملے گی، ان کے مفاد میں پالیسیاں بنانے میں ڈھیل برتی جائے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کی حالت کو بہتر بنانے کی سمت میں کوئی کام نہیں ہوا ہے۔ کچھ کارگر قدم اٹھائے گئے ہیں جیسے تمل ناڈو میں شرمیلا کو تیسری صنف کے زمرے میں ملک کا پہلا پاسپورٹ جاری کیا گیا ہے۔صاف ہے کہ تھوڑا سا کام ہوا ہے، بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

تیسری صنف کا مطلب؟

    مذاق کا موضوع بنتے رہے ہندوستانی ہجڑوں کی تاریخ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ دردناک بھی ہے۔ان میں ایک طبقہ تو پیدائشی طور پر ہجڑا ہوتا ہے یعنی اس کی جنسی شناخت واضح نہیں ہوتی ہے مگر ایک طبقہ وہ بھی ہوتا ہے جس کا جنسی عضو کاٹ کر اسے عننین کردیا جاتا ہے۔ عہد وسطیٰ میں ایسے ہجڑوں کا تذکرہ ملتا ہے جن پر یہ مظالم ہوئے تھے اور انھیں شاہی محلات کی دیکھ بھال کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ انھیں ’’خواجہ سرا‘‘یعنی محل کا رکھوالا کہا جاتا تھا۔ بعض خواجہ سرائوں کو سیاسی قوت حاصل ہوگئی تھی اور وہ حکومتیں بنانے اور بگاڑنے کا کام بھی کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ کا استعمال جنسی ضرورت کے لئے بھی ہوتا تھا۔ آج بھی ہجڑوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو پیدائشی طور پر ہجڑا نہیں تھااور اسے عننین کردیا گیا۔کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو جسمانی اعتبار سے مرد یا عورت ہوتے ہیں مگر ان کے اندر قدرتی طور پر ہارمونس کی گڑبڑی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی جنس کی طرف ہی کشش رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہم جنس پرست کہا جاتا ہے۔ آج کل ان کا ایک طبقہ آپریشن کے ذریعے تبدیلی جنس کرالیتا ہے جسے ٹرانسجنڈر کہا جاتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق ہمارے سماج میں پیدا ہونے والے لگ بھگ دس فیصد افراد ہم جنس پرست ہوتے ہیں۔ان میں مرد وعورت دونوں شامل ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی پیدائشی خصوصیت کو چھپائے رہتے ہیں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 498