donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Telengana Me Musalmano Aur Urdu Ke Sath Insaf Ki Koshish


تلنگانہ میں مسلمان اور اردو کے ساتھ انصاف کی کوشش:یقین نہیں آتا


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    تلنگانہ کے مسلمانوں کو سرکاری جاب اور تعلیمی اداروں میں داخلے میں ریزرویشن مل سکتا ہے۔ اردو زبان کے ساتھ ہورہی ناانصافی کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔ ان دنوں چندر شیکھر رائو حکومت مسلمانوں کے ساتھ مساوات کا برتائو کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالانکہ مسلمان ناانصافی اور عدم مساوات کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ انھیں یقین نہیں آتا کہ کوئی حکومت انھیں برابر کا شہری بھی سمجھ سکتی ہے اور جو ناانصافی۶۷ سال سے جاری ہے اس کا خاتمہ بھی کرسکتی ہے۔ تلنگانہ ریاست، ایک لمبی جدوجہد کے بعد وجود میں آئی ہے اور یہاں پہلی سرکار تلنگانہ راشٹر سمیتی کی بنی ہے۔ ملک کی اس انتیسویں ریاست کے قیام میں مسلمانوں کا بھی برابر کا رول رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر رائو (کے سی آر) مسلمانوں کو برابری کا حق دینے اور ان کے ساتھ منصفانہ برتائو کرنا چاہتے ہیں۔ اب تک انھوں نے جو بھی اقدام اٹھائے ہیں انھیں دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ ہورہی ناانصافی کو ختم کریں اور تلنگانہ کو پہلی ایسی ریاست بنائیں جو فرقہ وارانہ دنگوں سے پاک ہو اور مسلمانوں کو وہ تمام حقوق دیئے جائیں جو دوسرے طبقوں کو حاصل ہیں۔ مسلمانوں کا دل جیتنے کی کوشش کے طور پر انھوں نے ایک مسلمان کو اپنا نائب بنایا ، مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دینے کا اعلان کیا اور اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کی عملی پہل کی۔ انھوں نے اوقاف اور حج وغیرہ سے جڑے ہوئے، مسائل کو حل کرنے کی طرف بھی قدم بڑھایا نیزہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ کسی سرکار نے اپنے لوگو میں اردو کو بھی شامل کیا۔ مسلمانوں کے ساتھ تعلق استوار کرنے کی کوشش کے طور پر انھوں نے کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ مراسم بڑھائے اور اب ان کی کوشش ہے کہ نظام حیدر آباد کی یادگاروں کو بھی زندہ کیا جائے۔ کے سی آر کے اقدامات سے یہاں کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دیکھی جارہی ہے تو دوسری طرف مسلم مخالفت کی سیاست کرنے والی جماعتوں میں ناراضگی ہے اور وہ پانی پی پی کر تلنگانہ سرکار کو کوس رہی ہیں۔ حکومت نے مسلمانوں کے تعلق سے اب تک جو اعلانات کئے ہیں یا اقدام اٹھائے ہیں ان سے مسلمانوں کو خوشی ہی نہیں بلکہ حیرت بھی ہے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی سیاسی پارٹی نے مسلمانوں کے تعلق سے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔ کانگریس نے مسلم ووٹ کی بدولت اس ملک پر ایک مدت تک راج کیا مگر محسن کشی میں سب سے آگے رہی اور مسلمانوں کے ساتھ جس قدر ناانصافیاں اس کے دور میں ہوئی کسی پارٹی کی حکومت میں نہیں ہوئی۔ملائم سنگھ یادو، لالو پرساد یادو، نتیش کمار، ممتا بنرجی وغیرہ نے مسلمانوں کے ووٹ سے حکومت کی اور کر رہے ہیں مگر آج تک انھوں نے اتنے اقدام نہیں اٹھائے جتنے چند مہینوں میں کے سی آر سرکار نے اٹھائے ہیں۔ ایک سچائی یہ بھی ہے کہ لالو، ملائم اور نتیش کمار نے اب تک صرف باتوں میں ہی مسلمانوں کو بہلایا ہے یا بی جے پی

کا خوف دکھا کر ان کے ووٹ حاصل کئے ہیں۔ ان کی زیر اقتدار ریاستوں میں اردو زبان کا جس طرح سے گلا گھونٹا گیا ہے، کانگریس کے دور حکومت میں بھی نہیں گھونٹا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ ان سے الگ طرز حکمرانی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔     

جب نئی تاریخ رقم ہوئی

    تلنگانہ ریاست کا قیام ایک لمبی جدوجہد کے بعد عمل میں آیا ہے۔ موجودہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر رائو نے تقریباً 12 برسوں تک اس کے لئے لڑائی لڑی ہے۔ 2 جون 2014ء کو اس وقت ایک نئی تاریخ رقم ہوئی جب انھو ں نے یہاں سرکار بنانے میں کامیابی پائی۔ چیف منسٹر کے طور پر ان کا پہلا قدم ہی مسلم طبقہ کیلئے حوصلہ افزاتھا انھوں نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق نائب وزیر اعلیٰ ایک مسلمان کو بنایا ۔ اسی کے ساتھ محمد محمود علی کو وزارت مال جیسا اہم قلمدان بھی سپرد کیا۔ اس طرح سے محمد محمود علی ریاست کی تاریخ کے پہلے مسلم ڈپٹی چیف منسٹر بن گئے۔ ان سے مسلم طبقہ نے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ کسی نکمے مسلمان کا انتخاب کر کے اسے ’’شو بوائے‘‘کے طور پر کوئی معمولی وزارت دے دی جاتی تھی۔ عام طور پر مسلمان کو حج اور وقف کا محکمہ دیا جاتا تھا تاکہ اوقاف کی دولت کی لوٹ پاٹ مسلمان کے ہی ہاتھ سے کرائی جائے مگر یہاں ایسا نہیں ہوا اور وزارت مالیات کا قلمدان ایک مسلمان کو سونپ کر ماضی کی روایت کو توڑ دیا گیا۔لطف کی بات یہ رہی کہ نائب وزیر اعلیٰ نے اللہ کے نام پر حلف اٹھانے کی ہمت جٹائی ورنہ بھارت میں مسلمان وزیروں کو یہ جرأت نہیں ہوتی ہے۔یہاں اوقاف اور اقلیتی امورکا قلمدان کسی مسلمان کو سپرد نہیں کیا گیا ہے بلکہ چیف منسٹر نے اقلیتوں، پسماندہ طبقات کے تمام امور براہ راست اپنی نگرانی میں رکھے ہیں۔ اب امکان ہیکہ محکمہ اوقاف کی کارکردگی بہتر ہوگی اور وہ شکایتیں جو دیرینہ ہیں اور بجا بھی ہیں وزیر اعلیٰ کی نگرانی میںدور ہونگی۔ وزیر اعلیٰ نے جو اقلیتی امور کا محکمہ اپنے پاس رکھا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں اقلیتوں کے مسائل سے دلچسپی ہے۔محمد محمود علی کے علاوہ پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے ایک اور لیڈر کو بھی ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ دے کر کے سی آر نے بیک وقت اقلیتی طبقہ اور پسماندہ طبقات کو اعتماد میں لیا ہے۔حالانکہ اب انھیں پریشان کرنے کے لئے کسی دلت کو وزیر اعلیٰ بنانے کا مطالبہ کیا جار ہا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ سب دلتوں کے خیر خواہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ سیاست کے بازیگر کر رہے ہیں۔

وعدے پورے کرنے کی طرف اقدام

    تلنگانہ کی کے سی آر سرکار اس معاملے میں بھی دوسروں سے الگ ثابت ہوئی کہ اس نے چند مہینوں کے اندر ہی اپنے وعدے پورے کرنے کی طرف اہم اقدام کئے۔ عام طور پر سرکاریں اس وقت کوئی قدم اٹھاتی ہیں جب الیکشن سامنے ہوتا ہے اور ابھی ان کا کوئی قدم ٹھیک سے اثر انداز بھی نہیں ہوتا ہے کہ الیکشن گزر جاتا ہے اورعوام منہ تکتے رہ جاتے ہیں مگر تلنگانہ میں اس کے برعکس ہوا۔غور طلب ہے کہ یوپی کی سماجوادی سرکار نے مسلمانوں کو بیس فیصد ریزرویشن دینے کا وعدہ کیا تھا مگر آج تک اس نے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا مگر تلنگانہ حکومت اس کو عملی جامہ پہنانے پر غور وخوض کر رہی ہے۔ کے سی آر نے وعدہ کیا تھا کہ مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں بارہ فیصد ریزرویشن فراہم کریںگے ۔ وقف جائیداد کو لوٹ کھسوٹ سے بچائیں گے  اور ریاست میں اردو زبان کو اس کا جائز مقام دیںگے۔ وزیر اعلیٰ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کسی بھی شعبے میں مسلمانوں کے ساتھ غیر منصفانہ برتائو نہ کیا جائے۔ سرکار کی طرف سے

اب تک کوئی ایسا کام نہیں کیا گیا جس سے مسلمانوں کو شکایت ہو اور جو کچھ وعدے حکومت کی طرف سے کئے گئے ہیں ان کے ایفا میں ظاہر ہے کہ ابھی وقت لگے گا کیونکہ اس سرکار کے سامنے ابھی بہت سے مسائل ہیں۔ سرکار کسی ایک طبقے کی نہیں ہے بلکہ ریاست کے دوکڑوڑ سے زیادہ لوگوں کی ہے اور اسے سب کے لئے کام کرنا ہے۔ ریاست نئی ہے لہٰذا کئی مسائل بھی نئے ہیں مگر یہی کیا کم ہے کہ سرکار دیانت سے ان مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی دکھا رہی ہے۔     

اردو کے ساتھ انصاف

    بھارت میں آزادی کے بعد سے اب تک اہل اردو کو اس بات کی شکایت رہی ہے کہ ان کی زبان کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے اور اس کا جائز حق نہیں دیا جارہا ہے۔ لالو اور ملائم نے بھی اردو کے تعلق سے لمبے لمبے وعدے کئے مگر کام کچھ نہیں کیا۔ لالو کے پندرہ سالہ اقتدار کے بعد بھی بہار میں اردو کو عملی طور پر دوسری سرکاری زبان کا درجہ نہیں ملا حالانکہ تقریباً پچیس سال پہلے کانگریس کے وزیر اعلیٰ جگن ناتھ مشرا نے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا۔ لالو نے اردو کو برباد کرنے میں جو کسر چھوڑی تھی اسے نتیش کمار نے پورا کردیا اور آج یہاں کے اردو اسکولوں میں اردو کے ٹیچرس ہی نہیں ہیں بلکہ تمام ہندی کے لوگوں کو بھر دیا گیا ہے۔تلنگانہ میں پہلی بار دیکھا گیا کہ سرکار نے اردو کو ریاست کے لوگو میں شامل کیا۔ سرکاری کاغذات اور دفاتر میں اردو دکھائی دینے لگی ہے۔ حکومت کی اردو سے دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ دلی کے پرگتی میدان میں جو تلنگانہ کا منڈپ ہے اس کے سامنے بھی اردو میں تلنگانہ لکھا گیا ہے۔

تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب،پیار سے لگتا ہے

    آزاد بھارت کی تاریخ میں مسلمان اور اردو زبان دونوں کی حیثیت مظلوم کی رہی ہے اور وہ دلتوں سے زیادہ ستائے جاتے رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ الحاق سے قبل تک دکن کی ریاست نظام کے تحت آتی تھی اور یہاں کے مسلمان خوشحال تھے مگر نظام کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی مسلمانوں کے اچھے دنوں کا بھی خاتمہ ہوگیا تھا۔ آندھرا پردیش کے مسلمانوں کا بھی وہی حال ہوا جو باقی ملک کے مسلمانوں کا ہوا۔ الیکشن سے قبل ان سے خوب وعدے کئے گئے اور ووٹ حاصل کئے گئے مگر انتخابی وعدوں کی حیثیت ’’وعدۂ محبوب‘‘ سے زیادہ نہیں رہی۔ آج بھارت کے مسلمان وعدہ خلافیوں کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ انھیں وعدہ خلافیوں سے ڈر نہیں لگتا بلکہ اگر کوئی وعدہ پورا کرنے لگے تو انھیں گھبراہٹ ہوتی ہے۔ بالکل فلم ’’دبنگ‘‘ کے اس مشہور ڈائیلاگ کی طرح کہ ’’تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب، پیار سے لگتا ہے۔‘‘ تلنگانہ میں ان دنوں یہی صورت حال ہے۔ یہاں کی تہذیبی اساس بھائی چارہ اور محبت ہے مگر مسلمانوں کو ڈر لگتا ہے کہ مسلم نوازی کی جو روایت شروع کی جارہی ہے اسے بہانہ بناکر کہیں مسلمانوں کو نشانہ نہ بنایا جائے اور ہندووں کو ورغلانے کی کوشش نہ کی جائے۔ مسلمانوں کے ساتھ جو وعدے کئے گئے ہیں وہ ابھی پورے نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان کو عملی جامہ پہنانے کے پروگرام بنائے جارہے ہیں۔  کے سی آر سرکار کے ساتھ ہماری ہمدردی ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی دھیان رکھناہوگا کہ ’’مسلم نوازی‘‘کا کوئی سائڈ افیکٹ نہ سامنے آجائے۔ مسلمانوں کے ساتھ جو ناانصافیاں ہوتی رہی ہیں ان کا خاتمہ ہونا چاہئے مگر حکومت کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہئے۔

(یو این این)

*********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 562